خوشی ہے آمنہ ؓکے لال کے تشریف لانے کی

اسلامی کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لیے ایک خاص اہمیت کا حامل مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی۔ آپ ﷺ اﷲ کے محبوب،ہادی برحق، امام انقلاب، غریبوں، فقیروں، مسکینوں، یتیموں کے ملجاء وماوٰی اور وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ آپ ﷺکی اس دنیا میں تشریف آوری سے مخلوق خدا کو خالق حقیقی کی پہچان نصیب ہوئی۔ آپ نے انسان کے صحیح مقام ومرتبہ کو عیاں کیا۔ عورتوں، غلاموں اور کمزور افراد کی دادرسی کی ،انہیں معاشرے میں مقام دلایا۔ حضور سرور کونین حضرت محمدﷺ نے دنیا کو اندھیروں سے نکال کر روشنی وہدایت کی راہ پر گامزن کیا۔ آپﷺکی ساری زندگی پوری نوع انسانی کے لیے لوگوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’اور رسول اﷲﷺ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘آپﷺ شعبہ زندگی کے ہر پہلو میں اس اوج کمال پر فائز ہیں کہ ان جیسا نہ تھا نہ آئندہ کوئی ہوگا۔

یوں تو میلاد النبیﷺ اور محافل ِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن جیسے ہی ماہ ربیع الاول کا چاند نظر آتا ہے تو ہر سو نعت خوانی(مدحِ النبیﷺ)، اور درود وسلام کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔پوری دنیا کے مسلمان میلاد النبیﷺ کے تہوار کوبڑی مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ مساجد اور گھروں کو برقی قمقموں سے روشن کرتے ہیں۔ گلی محلوں کو جھنڈوں کے ساتھ سجاتے ہیں۔ ہر مسجد ومدرسہ ، ہر گھر میں محافل میلاد النبیﷺ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں علماء رسول اﷲﷺ کی ولادت وباسعادت اور آپ کے اوصاف وشمائل کو بیان کرتے ہیں۔ سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مختلف شعراء اور ثناخوان شیریں لسان رسول اﷲﷺ کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان محافل ومجالس کا مقصد یہ ہے کہ ’’ہم نے اپنی نادانیوں سے جو رشتہ الفت کمزور کرلیا ہے اسے پھر سے مضبوط کیا جائے‘‘۔

تاریخ انسانی نے فرعون کا دورِ ظلمت، بڑی بڑی مصیبتیں، بچوں کا قتل عام، ملک سے جلاوطنی ،نمرود کی شیطانی چالیں، خواتین کی تذلیل، غلاموں سے جانوروں سے بدتر سلوک، بچیوں کی درگوری، ذرہ ذرہ سی بات پر نسل در نسل نہ ختم ہونے والی دشمنیاں دیگر مختلف قسم کے عذاب، پھر اپنے دشمنوں کی ہلاکت، اپنے وطن کی آزادی، من وسلویٰ کی جنتی غذائیں، بادل کے سائبان، پانی کے ٹھنڈے چشمے، عظمت واقتدار کا سنہری دور، سبھی کچھ دیکھا ۔ رسول اﷲﷺ کی تشریف آوری سے انسان نے اچھے دنوں کو یاد کرکے اﷲ کا شکر اور برے دنوں کو یاد کرکے ان سے عبرت حاصل کی۔ پس یوم میلاد النبیﷺ بنی نوع انسان کے لیے یوم نجات ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اتنی نعمتیں عطا کیں کہ انسان ان کا احاطہ کرنا چاہے تو انہیں اپنے شمار میں نہیں لاسکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد فرمایا ’’اور اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو یہ شمار نہیں کرسکتے ۔ ‘‘ ان نعمتوں کے حصول کے بعد بندے پر لازم آتا ہے کہ وہ ان نعمتوں پر خدا بزرگ وبرتر کی ان نعمتوں کو یاد کرکے نعمتوں کا شکر بجالائے۔جیسا کہ حکم الہٰی ہے۔ ’’تم پر اﷲ نے جتنی نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان کو یاد کیا کرو‘‘

اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت میلادالنبیﷺہے۔ محبوب خداﷺ کی ولادت باسعادت خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل اور اس کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی فضل اور نعمت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ اﷲ نے مومنوں پر احسان فرمایا ارشاد خداوندی ہے ’’ہم نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا کہ ان میں اپنے رسول کو بھیجا۔‘‘اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی نعمت حاصل ہوجائے تو اس نعمت کو یاد کرکے اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن جب نعمت عظمیٰ بصورت شافع یوم المحشر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مل جائے تو سب سے بڑھ کر اس پر اﷲ کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔

مسلمان ہر سال ربیع الاول میں میلاد النبیﷺ کے دن خوشی منا کر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے وجود مصطفی سے انسان کو ظلمت سے نجات دی۔ جہالت سے روشنی کی راہ پر گامزن کیا۔ انسان کو اس کی عظمت بتائی۔ خدا سے دور انسانوں کو خدا کی پہچان ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمت کے حصول پر اﷲ کا شکر ادا کرنے کے لیے محافل کا انعقاد انبیاء ورسل کی سنت بھی ہے اور آپ ﷺ کا مبارک طریقہ کار بھی ۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ روح اﷲ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت سے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس نبی کی آمد کی خبر دیتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا اور وہ میرے بعد آئے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر مکہ کے موقع پر دعا فرمائی کہ ’’اے ہمارے رب ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیج، جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سیکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے‘‘ ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہما السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت یہ دعا سید انبیاء ﷺ کے لیے تھی۔ یعنی تعمیر کعبہ کی عظیم خدمت بجالانے کے بعد دعا کی کہ اپنے محبوب نبی آخرالزماں کو ہماری نسل سے ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت فرما اور یہ دعا قبول ہوئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں حضور ﷺ کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا اور اولاد ابراہیم علیہ السلام میں باقی انبیاء حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔

سید عالم ﷺ نے اپنا میلاد خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اﷲ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبین لکھا ہوا تھا اس حال میں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے پتلا کا خمیر تیار ہورہا تھا۔ میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبردوں ۔ میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارت عیسیٰ ہوا اور اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا۔ اور ان کے لیے نور ساطع ظاہر ہوا۔ جس سے ملک شام کے ایوان وقصور ان کے لیے روشن ہوگئے۔

انبیاء ورسل کی سنت کے علاوہ قرآنِ کریم سے قبل کتب الہامیہ میں بھی نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی بعثت مبارک کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ علماء یہود میں سے حضرت عبداﷲ بن سلام نے اسلام لانے کے بعد اپنے دو بھتیجوں مہاجر وسلمہ کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اولادِ اسماعیل سے ایک نبی پیدا کروں گا جن کا نام احمد ہوگا۔ جو ان پر ایمان لائے گا راہ یاب ہوگا اور جو ایمان نہ لائے گا ملعون ہے‘‘

حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہ فرماتی ہیں ، ’’ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ‘‘۔ مسلمان تو عید میلاد النبی ﷺکی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کر کے چراغاں کیا۔

جشنِ میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگرابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے۔ تو اْس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔

ملک المحدثین شیخ محمد طاہر صدیقی فرماتے ہیں کہ ’’ماہ ربیع الاول شریف انوار خداوندی اور رحمت الٰہی کا مظہر ہے اور یہ وہ عظیم الشان ماہ ہے جس میں ہر سال ہم کو اظہار فرحت وسرور کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ ایسے ہی حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ماہ ولادت باسعادت یعنی ماہ ربیع الاول میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفل میلاد منعقد کرتے چلے آئے ہیں ‘‘الغرض کسی بھی صاحبِ ایمان کو محافل کی افادیت، برکات وسعادت اور جواز سے انکار نہیں، کہیں محفل میلاد النبی ﷺ اور کہیں سیرۃ النبیﷺ کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ البتہ آج کل ان عظیم الشان محافل کے تقدس کا جو حشر ہورہا ہے، اس پر ہر باشعور اور صاحب دل مسلمان کا دل روئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔گزشتہ چند برسوں سے اس علمی، روحانی اور ایمان افروز کام کی باگ ڈور غیرذمہ دار اور مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے اصل مقصد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان منتظمین اور پیشہ ور وعظ فروش واعظین اور فن کار نقیبانِ محفل کی غیر سنجیدہ حرکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ نسل نو کے ناپختہ ذہنوں کو محبت رسول ﷺسے دور کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ ذکر رسول عربی ﷺ کا وہی ادب ہے جو حضور ﷺ کی ذات گرامی کا، اور نبی کریمﷺ نے ایمان کی تکمیل کو اپنی محبت کے ساتھ مشروط قرار دیا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے ’’ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک (کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور ساری دنیا سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہیں کرتا‘‘اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی لائی ہوئی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو بسر کریں۔ علاوہ ازیں ہماری محبت کے سارے دعوے بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ جب تک ہم ان تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ہمارا ایمان بھی کامل نہیں جیسا کہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے ’’ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک (کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے۔‘‘
abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 29329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.