عبید اللہ سندھی کا فکر۔۔۔۔۔۔شخصیت پرستی اور مذہبی گروہیت کے نقصانات(۳)
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
مولانا سندھی امام اور مہدیت کے القابات کے
سخت مخالف تھے ان کا کہنا تھا’’میں امام یا مہدی کے القاب کا سخت مخالف ہوں
اس طرح کے القاب سے انسان کے دماغ میں اپنے بارے میں کچھ زعم سے آ جاتا ہے
اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے فائق و برتر سمجھنے لگتا ہے۔میرے نزدیک اصل
جماعت یعنی پارٹی ہے۔رسول ﷺ کی حکومت محمد رسول اللہ و الذین اٰمنوا معۃ کی
حکومت تھی۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے جانشین ’’السابقون الاولون من المہاجرین
و الانصار‘‘ہوئے انہوں نے ابو بکرؓ کو امیر المؤمنین چنا ،وہ امیر المؤمنین
بن گئے۔اگر وہ علیؓ کو چن لیتے تو وہ امیر المؤمنین بن جاتے ۔میں فضیلت
شخصی کا مطلق قائل نہیں‘‘(1)
مہدیت کی آمد کے اس نظریے نے معاشرے میں رجعت پسندانہ ذہنیت کو فروغ دیا
ہے۔ بعض علماء نے اسے رد کیا ہے لیکن بعض نے اس ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر ایک
نئی منفیت کو معاشرے میں پیدا کر دیا :مولانا عبید اللہ سندھی کے بقول ’’سر
سید نے امام مہدی کے آنے کے بارے میں روایات کی تنقید کی ہے اور ثابت کیا
ہے کہ مہدی کے آنے کا عقیدہ بے سرو پا اور غلط ہے،چنانچہ اب مسلمانوں کو
کسی مہدی کے آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔اس قسم کے روایاتی ماحول اور
امام مہدی کے انتظار کی فضا میں مرزا غلام احمد نے مہدی کے آنے اور نزول
مسیح کے عقیدے پر بحث کی۔اب بجائے اس کے کہ وہ سر سید کی طرح ان روایات کو
موضوع قرار دیتے جیسی کہ وہ ہیں،وہ خود مہدی اور مسیح بن گئے اور اس طرح
ایک لغویت کی جگہ دوسری لغویت پیدا ہو گئی۔‘‘(2 )
پروفیسر سرور لکھتے ہیں
’’مولانا سندھی کی رائے میں شاہ ولی اللہ در اصل امام مہدی کے آنے کے عقیدے
کوختم کرنا چاہتے تھے۔اور بالواسطہ انہوں نے ایسا کیا بھی لیکن ہو ایہ کہ
ان کے ماننے والوں میں سے ایک بزرگ کو مہدی بنا دیا گیا۔سچی بات یہ ہے کہ
خود سید صاحب کی طبیعت میں یہ رحجان موجود تھا۔‘‘(3)
پرو فیسر سرور مزید رقمطراز ہیں
’’مولانا سندھی کے الفاظ میں امیر شہید کی تحریک جہاد کا یہ انجام ہوا اس
طرح ہندوستان میں انقلاب لانے والی جماعت خوش عقیدگی اور توہم پرستی کا
شکار ہوئی اور اب اس کے نام لیوا انتہائی رجعت پسند بن کر رہ گئے ۔‘‘(4)
مولاناعبید اللہ سندھی تحریک ولی اللہی کے بارے میں اسی تناظر میں تجزیہ
کرتے ہوئے اسی پہلو کومزید بیان کرتے ہیں
’’گذشتہ صدیوں میں عوامی وقومی تحریکیں اکثر و پیشتر مذہبی اٹھان اور
بیداری کا نتیجہ تھیں لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھیں ان کا دائرہ وسیع ہوتا
گیا اور وہ عملاً عوامی وقومی بن گئیں۔لیکن تحریک ولی اللہی میں اس تاریخی
انحراف کے بعد جو موڑ آیا تو وہ جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی بجائے اس کے کہ وہ
ہندوستان کے مسلمان عوام کی ایک قومی تحریک بنتی وہ ایک علیحدگی پسند فرقہ
پرستانہ تحریک بن گئی،سید احمد شہید سے منسوب اس تحریک کا یہ حشر تو ہوا
ہی،اس کا رد عمل اسی تحریک کے دوسرے حصے دیو بند پر بھی ہوا اسی کا نتیجہ
ہے کہ آج بھی اس بر عظیم کے مسلمان عوام کی غالب اکثریت بریلوی ہے جو اوپر
کی دونوں تحریکوں کو کفر سے کم نہیں سمجھتی۔‘‘(5) اس تناظر میں آج ہمارے
معاشرے میں کام کرنے والی جماعتوں اور گروہوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
مذہبی رسومات کو پارٹی کے اندر داخل کرنا،اور تقدس کے نام پہ شخصیات کو
معتبر قرار دینا،اور پھر خاص مذہبی فرقہ کی نمائندگی یا اس کے نظریات کا
پرچار اورعوامی سطح پہ کام نہ کرنا اور قومی حقوق اور جذبے کو بروئے کار نہ
لانے کی وجہ سے یہ مذہبی تحریکیں رجعت پسندی میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ شروع
میں یہ تحریکیں بڑے زور شور سے سارے قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں
لیکن رفتہ رفتہ وہ ایک گروہ کی نمائندگی تک سمٹ جاتی ہیں۔اگر وہ فرقہ
وارانہ گروہیت میں نہ بھی الجھے لیکن آگے چل کر وہ بین المذاہب گروہیت کا
شکار ہو جاتی ہے ۔ بقول مولانا سندھی ’’اس نوع کی احیاء پسند مذہبی تحریکیں
اگر قومی و عوامی خطوط پر نہ چلیں تو لازماً وہ علیحدگی پسندانہ فرقہ
پرستانہ تحریکیں بن کر رہ جاتی ہیں۔اس دور میں جماعت احمدیہ اور جماعت
اسلامی کا انجام آپ کے سامنے ہے۔‘‘(6)
مولانا سندھی کے اس فکر و تجزیہ کی تائیدمولانا ابولکلام آزاد نے بھی کی
ہے۔وہ بھی مسلمانوں کی عقیدے کی بنیاد پہ سیاسی جدوجہد سے مایوس
تھے۔مولاناابولکلام آزاد کا موقف تھا کہ’’میں اپنی زندگی کے تمام تجربات کے
بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس زمانے میں صرف مسلمانوں کی جو بھی تنظیم
ہو گی،وہ دیر یا سویر رجعت پسندی کا لازماً شکار ہو کر رہے گی۔یہ بات گو
بڑی بڑی تلخ اور تکلیف دہ ہے لیکن بد قسمتی سے حقیقت یہی ہے۔‘‘(7)
پرو فیسر سروراس سلسلے میں تاریخی مثالیں دیتے ہوئے لکھتے ہیں
’’مولانا ابو الکلام آزاد اپنی زندگی میں جس نتیجے پہ پہنچے ان دو صدیوں کی
تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔شیخ محمد بن عبد الوہاب (۱۷۰۳ء ۔۱۷۸۷ء)کی
دینی اصلاح کی تحریک کتنی انقلابی تھی۔بجائے اس کے کہ اسی قسم کی یورپ کی
دینی اصلاحی تحریکوں سے وہاں جو دور رس فکری،سماجی ،معاشی اور سیاسی
تبدیلیاں بروئے کار آئیں،جن سے کہ ایک ترقی پسند طاقتور اور آگے بڑھنے والے
نئے یورپ کی طرح پڑی،شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک اصلاح بس مادی قسم کی
توحید پرستی تک محدود ہو کر رہ گئی اس کے حامیوں نے قبروں کے قبے تو گرا
دئیے لیکن وہ لوگ جو اپنی عقیدتوں کا اظہار ان قبوں کے ذریعہ کیا کرتے تھے
ان کے ذہنوں میں وہ کوئی تبدیلی نہ لا سکے یعنی اتنی بڑی تحریک نے مسلمانوں
کے ہاں کسی نئے فکری ،سماجی،سیاسی انقلاب کو جنم نہ دیا اور آج اس کے سر
گرم حامی اور علمبردار دنیائے عرب میں شخصی بادشاہت کے زبر دست نمائندہ اور
محافظ ہیں۔اسی زمانے کی ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کی دینی اصلاح کی اور
علمی و فکری دعوت کو دیکھئے ان کے جانشینوں نے علوم منقولہ یعنی حدیث و فقہ
میں تو ان کی دعوت کو ایک حد تک اور وہ بھی ایک حد تک ہی اپنایا لیکن علوم
عقلیہ میں جو حاوی تھا سیاسیات کے علاوہ،تاریخ ،معیشت ،سماج،اور سیاست پر
بھی۔ان کی طرف چنداں توجہ نہ کی۔اس ضمن میں شاہ رفیع الدین نے کچھ رسائل
لکھے اور بدقسمتی سے شاہ ا سماعیل صرف عبقات لکھ کر رہ گئے۔اب اس عظیم مفکر
کی نام لیوا دو جماعتیں ہیں۔ایک دیو بندی ،جن کا ایک گروہ یقیناً سیاست میں
ترقی پسند ،آزادی خواہ اور سامراج کا شدید دشمن ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ
اپنے دینی فکر میں جامد اور قدامت پسند اور سماجی امور میں انتہائی رجعت
پسند ہے۔اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نئی سیاست اور نیا فکر نئے سماج ہی
میں نشوونما پا سکتا ہے اور پرانے سماج کو بدلے بغیر کبھی کوئی ترقی پسند
سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔دیو بندی جماعت کا دوسرا گروہ سیاست میں
بھی رجعت پرست ہے،اور سماجی امور میں بھی اس کا تمام زور خانقاہی طرز کی رو
حانیت پر ہے ستم طریفی ملاحظہ ہو کہ شاہ ولی کے ماننے والے یہ حضرات ان کی
کتابیں بھی پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے ان کی ساری متاع علمی فرسودہ قسم کے
رائج الوقت درس نظامی پر منحصر ہے۔‘‘(8)
مسلمان سیاسی جماعتیں جو مذہب کی بنیاد پہ سیاست کر تی ہیں۔ان کا دعویٰ یا
نعرہ یہ ہوتا ہیکہ شریعت کا نفاذ کرنا ہے۔اور قرآنی حکومت قائم کرنی ہے۔اس
کے لئے ان کے ہاں جو نظام حکومت کا تصور موجود ہوتا ہے وہ آج سے چودہ سو
سال پہلے کا ہوتا ہے ۔مولانا سندھی ہندوستان کا تجزیہ کرتے ہوئے مسلمان
سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسی پہلو پہ روشنی ڈالتے ہیں:
’’میں ہندوستان کی مختلف مسلمان جماعتوں سے ایک سوال پوچھتا ہوں مجھے اس کا
اعتراف ہے کہ ان میں سے ہر ایک جماعت اس امر میں کوشاں ہے کہ وہ قرآن کے
اصولوں پر ہندوستان میں حکومت الہیہ قائم کرے لیکن سوال یہ ہے کہ اس قرآنی
حکومت کا ان کے ذہن میں کیا تصور ہے گذشہ زمانوں میں مسلمانوں کی یہاں جو
حکومت تھی،وہ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے بل پر قائم ہوئی تھی اور انہی
کی ضرورتوں کے مطابق اس کا آئین و قانون تھا۔جب باہر سے آنے والے ان
مسلمانوں کی طاقت ختم ہو گئی اور ان کا نافذ کردہ قانون بھی بر سر پیکار نہ
رہا تو اب جس نئی حکومت کو بنانے میں ہماری یہ مسلمان جماعتیں کوشاں
ہیں،اسے خیال سے عمل میں لانے میں کون سا معاشرہ اور طبقہ ممدو معاون ہو
گا،ظاہر یہ نئی اسلامی حکومت ہندوستانی مسلمانوں ہی کی مدد سے بن سکتی ہے
اور یہ واقعہ ہے کہ ان کی بیشتر تعداد یہاں کے اصل باشندوں کی ہے،جو مسلمان
ہو گئے ہیں،اب اگر کسی جماعت کو سچے دل سے اس ملک میں اسلامی حکومت بنانے
کی دھن ہے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ یہاں کے مسلمانوں کے فطری رحجانات
اور آج کے زمانے کی ضروریات کو سمجھے اور ان کے مطابق قرآنی حکومت کی
تفصیلات پیش کرے جبکہ یہ نہیں ہو گا ہندوستان میں اسلامی اصولوں پر کسی قسم
کا نظام قائم کرنا ناممکنات میں سے نہیں۔‘‘(9)
مولانا سندھی مسلمانوں کو غیر جمہوری رویوں کی بجائے جمہوریت کو نشوونما دے
کر جمہوری نظام کے زریعے قومی حکومت بنانے کا پرو گرام رکھتے تھے۔اور اس
حوالے سے پرانے شاہی مزاج کو ترک کر کے جمہوری مزاج اور فکر اپنا نے کی طرف
رہنمائی کرتے تھے۔وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو یاد دلاتے ہیں کہ’’آپ
فقط اپنے نوجوان کا ساتھ دیجئے وہ اپنے ملک میں قومی حکومت پیدا کرے گا۔اسے
معلوم ہے کہ اشوکا یا شاہجہان کی حکومت کے زندہ رہنے کا امکان نہیں رہا۔میں
آپ سے عاجزانہ التجا کرتا ہوں کہ پرانے شاہی دور کی واپسی سے مایوس ہو
جائیے۔‘‘(10)
مولانا عبید اللہ سندھی کے ان نظریات سے علمی اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے،
لیکن ایمانداری سے اک لمحے کے لئے ان افکار ونظریات کے تناظر میں ہم اس وقت
اپنے معاشرے کا بدلتے ہوئے عصری تقاضوں کی روشنی میں جائزہ لے سکتے ہیں، اس
درویش صفت مفکر کی کہی ہوئی باتیں شاید ہمارے لئے ایک انسان دوست، تحمل و
برداشت اور جمہوری قدروں پہ مبنی معاشرے کی تشکیل کی راہیں آسان کر دے،اس
طرح سے معاشرے میں موجود تشدد پسندی، عدم برداشت اور غیر جمہوری رویوں کے
تدارک میں شاید مدد مل سکے۔
(حوالہ جات)
1۔محمد سرور،پروفیسر،افادات و ملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ
سندھی،لاہور،سندھ ساگر اکادمی،۱۹۹۶ء،،ص۳۵۰تا۳۵۱
2 ۔ایضاً،ص۳۵۱
3۔ایضاً ،ص۳۵۱تا۳۵۲
4۔ایضاً،ص۳۵۳
5 ۔ایضاً،س۳۴۸تا۳۴۹
6۔ایضاً،ص۳۴۹
7۔ایضاً،ص۱۶۸
8۔ایضاً،س۱۶۹تا۱۷۰
9۔ایضاً،ص۴۷تا۴۷۱
10 محمد سرور ،پروفیسر،خطبات ومقالات،لاہور،سندھ ساگر
اکیڈمی،۱۹۹۶ء،ص۱۲۸تا۱۲۹ |
|