بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
تقریباً ایک سال سے عالمی تبلیغی مرکز حضرت نظام الدین ؒکے متعلق بعض خبریں
اخباروں میں وقتاً فوقتاً شائع ہورہی ہیں، جن سے امت مسلمہ کا درد رکھنے
والے حضرات کو کافی تکلیف اور تشویش ہے کہ فاضل دارالعلوم دیوبند حضرت مو
لانا محمد الیاس کاندھلویؒ (۱۸۸۵۔۱۹۴۴) نے ۱۹۲۰ء میں امت مسلمہ کی اصلاح کے
لئے مخلصانہ کوشش کرتے ہوئے ایک ایسی جماعت کی بنیاد ڈالی تھی جس کی ایثار
وقربانی کی بظاہر کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی، اور یہ جماعت ایک مختصر
عرصہ میں دنیا کے چپہ چپہ میں یہاں تک کہ عربوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ ۶
خلیجی ممالک، ۲۲ عرب ممالک اور ۷۵ اسلامی ممالک مل کر بھی آج تک کوئی ایسی
منظم جماعت تیار نہیں کرسکے ، جس کی ایک آواز پر بغیر کسی اشتہاری وسیلہ کے
لاکھوں کا مجمع پلک جھپکتے ہی جمع ہوجائے۔ اس محنت اور فکر کے ذریعہ ایسے
اﷲ والوں کی جماعت وجود میں آئی کہ وہ راتوں میں اﷲ کے سامنے اپنی اور امت
مسلمہ کی ہدایت کے لئے روتے ہیں اور دن میں اپنی جان ومال ووقت کے ساتھ
اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرکے مسلم بھائیوں کے گھر پہنچ کر ان کو اﷲ کی
طرف بلاتے ہیں۔ یہ اﷲ والے سارے نبیوں کے سردار اور سب سے افضل بشر حضرت
محمد مصطفی ﷺ کی پاک سنتوں پر عمل کرکے دوسروں کو دعوت دیتے ہیں کہ دونوں
جہاں کی کامیابی وکامرانی ہمارے نبیﷺکے طریقہ میں ہی ہے، جیسا کہ فرمان
الہٰی ہے: رسول اﷲ ﷺ کی ذات بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ سے
اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورۃ
الاحزاب ۲۱)
حضرت مو لانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی امت محمدیہ کی اصلاح کی فکر کو شیخ
الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ (۱۸۹۸۔۱۹۸۲)، حضرت مولانا محمد یوسف ؒ
(۱۹۱۷۔۱۹۶۵) ، حضرت مولانا انعام الحسنؒ (۱۹۱۸۔۱۹۹۵)، حضرت مولانا عمر
پالنپوریؒ اور دیگر علماء کرام نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کو پروان
چڑھایا۔ ۱۸مارچ ۲۰۱۴ کو حضرت مولانا زبیر الحسن ؒ (۱۹۵۰۔۲۰۱۴) کے انتقال کے
بعد حضرت مولانا سعد کاندھلویؒ اور حضرت مولانا زبیر الحسن ؒ کے صاحبزادوں
کے درمیان امیر بننے کے مسئلہ پر اختلاف ہوا، جو آہستہ آہستہ ایک سنگین
مسئلہ بنتا جارہا ہے، چنانچہ متعدد مرتبہ امن وسلامتی کے اس عالمی مرکز میں
وہ کچھ دیکھنے میں آیا جس کا حضرت مو لانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی فکر میں
شریک حضرات کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دعوت
وتبلیغ کے اس عالمی مرکز میں ہمیشہ وہ کام ہوتا رہے جس کی فکر حضرت مو لانا
محمد الیاس کاندھلویؒ کو رہا کرتی تھی۔
اس وقت عالمی تبلیغی مرکز کے سب سے اہم ذمہ دار حضرت مولانا سعد کاندھلویؒ
نے بعض مسائل میں جمہور علماء امت اور ہمارے اکابرین کے موقف سے انحراف کیا
ہے، بین الاقوامی علمی اسلامی درسگاہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ نے متعدد مرتبہ
ان کی اصلاح کی کوشش میں ناکامی کے بعد ملک اور بیرون ملک سے علماء کرام کے
متعدد خطوط کے جواب میں ایک وضاحتی بیان انتہائی محطاط انداز میں حال ہی
میں جاری کیا ہے تاکہ دارالعلوم دیوبند اکابر کی قائم کردہ جماعت تبلیغ کے
مبارک کام کو غلط نظریات اور افکار کی آمیزش سے بچاسکے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا
ہے کہ مخلصین کی اس جماعت کی حفاظت فرمائے۔
پوری دنیا حتی کہ غیر مسلم حضرات بھی مانتے ہیں کہ حضرت مو لانا محمد الیاس
کاندھلویؒ کی فکر سے وجود میں آئی اس جماعت کے ذریعہ لاکھوں حضرات کی اصلاح
ہوئی ہے، بے شمار حضرات نے شراب نوشی، گانے بجانے اور رقص کرنے سے نہ صرف
توبہ کی بلکہ وہ دین اسلام کے ایس داعی بنے جو سینکڑوں حضرات کے کلمہ پڑھنے
کا سبب بنے۔ اس محنت کے ذریعہ وہ حضرات جو سورۃ الفاتحہ پڑھنا نہیں جانتے
تھے اور اﷲ ورسول پر ایمان لانے کا معنی نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے علوم
قرآن وسنت سے سرفراز ہوکر دین اسلام کی دعوت کے لئے ایسے ممالک کے سفر کئے
جہاں تبلیغی جماعت کے علاوہ کوئی دوسری محنت موجود نہیں ہے۔ ہاں مدارس
اسلامیہ کے ذریعہ کی جانے والی خدمات عمومی طور پر دعوت وتبلیغ کی اس عظیم
خدمت پر فوقیت لئے ہوئے ہے کیونکہ برصغیر میں مدارس اسلامیہ کے ذریعہ ہی
علوم قرآن وحدیث کی حفاظت اور اس کا فروغ ممکن ہوا ہے۔ نیز علماء کرام نے
مساجد ومدارس ومکاتب کے ذریعہ بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے
کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے
ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے
مستفید نہ ہوا ہو۔
تبلیغی جماعت پر بعض اعتراضات کئے جاتے ہیں، جن کا ہمارے علماء کرام نے
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیا ہے، مثلاً کہا جاتا ہے کہ مہینہ میں تین
دن اور سال میں چالیس دن وغیرہ کی ترتیب قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے،
لہٰذا یہ تین دن اور چالیس دن کی ترتیب کیسے آگئی؟ جس کا جواب ہے کہ عمومی
طور پر اب ہماری زندگی دن بدن منظم ہوتی جارہی ہے، چنانچہ اسکول ، کالج اور
یونیورسٹی حتی کہ مدارس عربیہ میں بھی داخلہ کا ایک معین وقت، داخلہ کے لئے
ٹیسٹ اور انٹرویو ، کلاسوں کا نظم ونسق،پھر امتحانات اور ۳ یا ۵ یا ۸ سالہ
کورس اور ہر سال کے لئے معین کتابیں پڑھنے پڑھانے کی تحدید کردی گئی ہے،
حالانکہ قرآن وحدیث سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اسی طرح اپنی اور
بھائیوں کی اصلاح کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہونا چاہئے، لیکن تعلیم
وملازمت وکاروبار غرضیکہ ہماری زندگیوں کے منظم شیڈیول کو سامنے رکھتے ہوئے
اکابرین نے اس محنت کے لئے بھی وقت کی ایک ترتیب دے دی ہے، حالانکہ یہ
ترغیبی عمل ہے واجب نہیں،مثلاً اگر کوئی شخص تین دن کی جگہ دو دن بلکہ دو
گھنٹے میں لگاتا ہے تو وہ قبول کیا جاتا ہے۔ دوسرا اعتراض کیا جاتا ہے کہ
دعوت وتبلیغ کی اس محنت میں فضائل اعمال کو مستند کتاب کی حیثیت دے دی گئی
ہے، حالانکہ اس میں ضعیف احادیث بھی موجود ہیں۔ اس کا جواب ہمارے علماء
کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں دیا ہے ، جس کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ضعیف
حدیث صحیح حدیث کی ہی ایک قسم ہے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری کی وجہ سے
جمہور علماء اس کو فضائل کے باب میں قبول کرتے ہیں۔ مثلاً سند میں اگر کوئی
راوی غیر معروف ثابت ہوا یعنی یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے یا اس نے کسی ایک
موقع پر جھوٹ بولا ہے یا سند میں انقطاع ہے تو اس نوعیت کے شک وشبہ کی وجہ
سے محدثین احتیاط کے طور پر اس راوی کی حدیث کو عقائد یا احکام میں قبول
نہیں کرتے بلکہ جو عقائدیا احکام قرآن کریم یا صحیح احادیث سے ثابت ہوئے
ہیں ان کے فضائل کے لئے قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ بخاری ومسلم کے علاوہ حدیث
کی مشہور ومعروف تمام ہی کتابوں میں ضعیف احادیث کی اچھی خاصی تعداد موجود
ہے اور امت مسلمہ ان کتابوں کوزمانۂ قدیم سے قبولیت کا شرف دئے ہوئے ہے۔
امام بخاری ؒ نے حدیث کی متعدد کتابیں تحریر فرمائیں، بخاری شریف کے علاوہ
ان کی بھی تمام کتابوں میں ضعیف احادیث کثرت سے موجود ہیں۔ بخاری ومسلم سے
قبل اور بعد میں احادیث پر مشتمل کتابیں تحریر کی گئیں مگر ہر محدث نے اپنی
کتاب میں ضعیف حدیث ذکر فرمائی ہیں۔ اسی طرح بعض محدثین نے صرف صحیح احادیث
کو ذکر کرنے کااپنے اوپر التزام کیا مثلاً صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن
حبان وغیرہ، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب میں احادیث ضعیفہ بھی ذکر
فرمائیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خیر القرون سے آج تک تمام محدثین نے
احادیث ضعیفہ کو قبول کیا ہے۔ سب سے مشہور تفسیر قرآن (تفسیر ابن کثیر) میں
اچھی خاصی تعداد میں ضعیف احادیث ہیں لیکن اس کے باوجود تقریباً ۷۰۰ سال سے
پوری امت مسلمہ نے اس کو قبول کیا ہے اور وہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
تفسیر ہے اور اس کے بعد میں لکھی جانے والی تفسیروں کے لئے منبع وماخذ ہے۔
غرضیکہ زمانہ ٔ قدیم سے جمہور محدثین کا اصول یہی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل
میں معتبر ہے اور انہوں نے ضعیف حدیث کو صحیح حدیث کی اقسام کے ضمن میں ہی
شمار کیا ہے۔مسلم شریف کی سب سے زیادہ مقبول شرح لکھنے والے امام نووی ؒ (مؤلف
ریاض الصالحین ) فرماتے ہیں: محدثین، فقہاء اور جمہور علماء نے فرمایا ہے
کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنا فضائل اور ترغیب وترہیب میں جائز اور مستحب ہے ۔
(الاذکار، ص ۷۔۸)
موجودہ صورت حال میں مضمون لکھنے کے چند مقاصد: (۱) حضر ت مولانا سعد
کاندھلوی صاحب بعض اُن امور میں اپنے موقف سے رجوع فرمائیں جن کی نشاندھی
برصغیر کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند ، جہاں سے حضرت مو
لانا
محمد الیاس کاندھلویؒ نے اپنے تعلیمی مراحل مکمل فرماکر امت مسلمہ کی اصلاح
کی کوشش کا درد اپنے اندر لیا، نے کی ہے۔ امت مسلمہ کی اصلاح کا جذبہ رکھنے
والے حضر ت مولانا سعد کاندھلوی صاحب سے قوی امید ہے کہ امت مسلمہ کے
درمیان اتحاد واتفاق اور تبلیغی جماعت کی استقامت کے لئے بعض مسائل میں
اپنے موقف سے رجوع فرمائیں گے۔ (۲) مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ
کرام ودیگر علماء کرام اس جماعت کو خلفشار اور اختلافات سے بچانے میں اپنا
اہم کردار ادا کریں تاکہ امت مسلمہ کی اصلاح کرنے والی اس محنت وکوشش کو
زنگ نہ لگ جائے۔ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ صرف اس وضاحتی خط
تحریر کرنے تک اپنی ذمہ داری کو محدود نہ کریں بلکہ آگے بڑھ کر ہمارے
اکابرین کی محنت وکاوش سے وجود میں آنے والی اس عظیم خدمت کی بقا اور اس کی
استقامت کے لئے عملی اقدام کریں۔ (۳) دعوت وتبلیغ کے عالمی وعلاقائی ذمہ
داروں سے درخواست ہے کہ وہ بعض امور میں حضرت مولانا سعد کاندھلوی کے سخت
موقف کو معتدل بنانے کے لئے خصوصی توجہ دیں اور جماعت کو منقسم ہونے سے
بچانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کریں۔ نیز جس طرح فضائل
اعمال کے ساتھ منتخب احادیث کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اسی طرح دیگر
کتابیں مثلاً ریاض الصالحین کو بھی تعلیم میں شامل کیا جائے ۔ (۴) دعوت
وتبلیغ کی محنت میں لگے لاکھوں لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ دعوت وتبلیغ کے
اس عظیم کام میں حسب معمول اپنی جان ومال ووقت لگاتے رہیں اور دین اسلام کی
خدمت کے دوسرے طریقوں کا بھی اعتراف کریں، یعنی یہ تسلیم کریں کہ دوسرے
ادارے اور جماعتیں بھی دین اسلام کی خدمت کررہی ہیں۔ (۵) عام مسلمانوں سے
درخواست ہے کہ وہ اﷲ کی بارگاہ میں اس جماعت کی حفاظت کے لئے خصوصی دعائیں
کریں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے امر بالمعروف کی جو ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد
کی ہے، یعنی اپنے ساتھ اپنے گھر والوں، محلہ والوں، شہر والوں ، ایمان
والوں اور امت محمدیہ کے افراد کی اصلاح کی کوشش کریں ، وہ اس عظیم محنت کے
ذریعہ کافی حد تک ادا ہورہی ہے۔ چنانچہ تہاڑ جیل میں بھی جماعت کے ساتھی
پابندی کے ساتھ جیل میں قید مسلم بھائیوں کو آخرت کی یاد دلانے کے لئے جاتے
ہیں۔ ہندوستانی حکومت بھی جانتی ہے کہ جیل میں بند کرنے سے لوگوں کی اصلاح
نہیں ہوپاتی لیکن یہ حضرات جیل میں قید حضرات کی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ
ان کی زندگیاں ہی بدل جاتی ہیں ، چنانچہ ہندوستانی حکومت دعوت وتبلیغ کے
بعض حضرات کے لئے باقاعدہ اجازت نامہ دیتی ہے۔
انفرادی طور پر جب ہمارے اندر کمیاں موجود ہیں تو اجتماعی طور پر کام کرنے
کی صورت میں کمیاں ختم نہیں ہوجائیں گی۔ موجودہ دور کی کوئی بھی اسلامی
تنظیم یا ادارہ تنقید سے خالی نہیں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مولانا
محمد الیاس کاندھلوی ؒ کی فکر سے وجود میں آنی والی اپنی اور بھائیوں کی
اصلاح کی کوشش مجموعی اعتبار سے بے شمار خوبیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،
اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
|