آپ ﷺ پیغمبر انقلاب(معاشی انقلاب) اسلامی کے اصول معاشیات، سیرت رسولﷺ کی روشنی میں

انسانی دنیا میں واحد رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے جو ہر پہلو سے کامل و اکمل ہے۔اور جو دین آپ ﷺ پر نازل کیا گیا وہ بھی کامل واکمل ہے۔ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو بہترین نظامِ زندگی آسمان اور زمین کے درمیان ہمیشہ کے لیے جو ہوسکتا تھا وہ آپ ﷺ اور قرآن کے ذریعے اﷲ نے عطا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوری زندگی انسانیت کو پستی سے نکال کر بلندیوں تک پہنچانے کا جو بہترین فریضہ انجام دیا اس کی کوئی نظیر ملنی مشکل ہے۔
آپ ﷺ کی مثالی طرز زندگی اور کمال طرز حکمرانی نے خطہ یثرب کو دنیا کی سب سے بہترین فلاحی ریاست میں بدل کر رکھ دیا۔امت مسلمہ پر لازم ہے کہ اس اولین اسلامی فلاحی ریاست کے تمام پہلوں کو ہمہ وقت سامنے رکھیتاکہ ان مشکل ترین حالات میں ہم اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔
آج ہم اگر قومی و بین الاقوامی سطح پر معاشی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں استحصالی نظام نظر آتا ہے، خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ طرزِ عمل وہ بنیادی ناسور ہے جو عظیم اسلامی اقدر کی تخلیق ،ارتقا اور استحکام کے لیے رکاوٹ ہے۔ جب انسانی طرزِ عمل اور زندگی میں حرص، لالچ، بخل و کینہ،بغض و عداوت، خود غرضی اور مفاد پرستی او ر ان جیسے پہلووں غالب ہو جائیں توفلاح الناس کی خاطر سول سوسائٹی اور معاشرے سے انفاق فی سبیل اﷲ، نفع بخشی اور دوسری عظیم اقدار مفقود ہوجاتی ہیں۔لازمی طور پر اس کے نتیجے میں ارتکاز دولت کا رجحان بڑھ جاتا ہے، عام آدمی معاشی کسمپرسی کا شکار ہوجاتا ہے۔نتیجے کے طورپوری معاشرت میں زندگی عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے اور ایسے میں خونی انقلاب بھی برپا ہوتے ہیں۔
ہم نے رسول اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں صرف معاشی انقلاب اور پہلوں پرگفتگو کرنی ہے جو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اور لازمی بھی ہیں۔
اسلام کا اقتصادی و معاشی نظام ہمہ گیر ہے۔ اس میں بہت ساری تفصیلات ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی معیشت کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان میں درجہ ذیل امور و پہلووں بہت اہم ہیں۔ معشیت اسلامی کا تصوراتی پہلو، معیشت و معاشرت کا باہمی تعلق، فلاحی معیشت کا قیام، اخلاق حسنہ اور معیشت کا باہمی تعلق اور معیشت و ریاست کا تعلق، پھر ملکیت و عدم ملکیت، جائز نفع خوری، ارتکاز دولت، مفادعامہ اور ان جیسے کئی پہلووں ہیں جن کا سیرت رسول کی روشنی میں تفصیلی مطالعہ و تذکرہ کیا جاسکتا ہے ۔تاہم تنگی داماں کی وجہ سے ان تمام پہلووں پر مدلل اجمالی روشنی ڈالی جائی گے ۔
کوئی بھی نظام زندگی کا وجود اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک اس کے پس منظر میں کوئی واضح نظریہ،تصوراورضابطہ موجود نہ ہو۔ اسلام کا معاشی نظام بھی ان بنیادی نظریات و تصورات اور تعلیمات پر مبنی ہے جو قرآن و سنت سے میسر آتے ہیں۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نیاسلامی معاشی نظام کے بنیادی تصورات اور تعلیمات عطا فرمائیں جو ہر دور کے لیے رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں۔اور ان کو آسانی سے نافذ العمل کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر
(1) معاشی سرگرمیوں کی اہمیت کا اِدراک
نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں معاشی سرگرمیوں کی اہمیت واضح نظر آتی ہے۔آپ ﷺ نے احسن طریقے سے نفع مند مال کمانے کی تعریف فرمائی ہے۔
بخاری شریف میں روایت ہے۔حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
''وہ مال کتنا ہی اچھا ہے جو کسی نیک و پارسا انسان کے پاس ہو۔'' (بخاری ، الدب المفرد : 112، رقم : 299)
اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
ولا توتوا السفہاء ا موالکم التِی جعل اﷲ لکم قِیاما.(النسا، 4 : 5)
''اور احمقوں کو تم اپنا (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اﷲ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔''
اس حدیث مبارکہ اور آیت کریمہ سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ انسانی حیات کی استواری میں مال و دولت بنیادی معاون و مددگار ہوتے ہیں۔
(2) مسئلہ معاش اور نیکی و بدی
آپ ﷺ نے مسئلہ معاش کو براہ راست انسانی زندگی میں نیکی اور بدی کا ایک فیصلہ کن عامل قرار دیا ہے۔امام بیہقی نے یہ حدیث نقل کی ہے۔حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
''ممکن ہے غربت و افلاس (کا رد عمل) کفر کی حد تک پہنچ جائے۔''
( بیہقی، شعب الایمان، مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع بالریاض ، 9 : 12 ، رقم : 6188)
اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کے اعتدال کو بھی معتدل معاشی سرگرمیوں سے مشروط قرار دیا ۔ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
"خرچ میں اعتدال آدھی معیشت ہے۔''
(بیہقی، شعب الایمان، متکبۃ الرشد للنشر والتوزیع بالریاض، 2003 م ، 8: 503، رقم : 6148)
(3) کسبِ معاش کی پابندی کا تصور
آپ ﷺ کے دیے ہوئے تصور معیشت میں ہر شخص کو اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق فکر معاش اور کسب معاش کرنا لازم ہے۔غفلت اور سستی کی اجازت قطعا نہیں ہے۔حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے رزق حلال کے حصول کو فرض قرار دیا ہے۔سنن الکبری میں ہے۔
''رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔''
(بیہقی، السنن الکبری، 6 : 211 ، رقم : 11695)
اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے۔
''بے شک سب سے پاکیزہ (رزق ) جو تم کھاتے ہو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے''۔
(ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب ما للرجل من مال، 2 : 768، رقم : 2290)
ایک اور حدیث امام ابن حنبل نے نقل کی ہے۔
''حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی روزی کو زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو۔''
(ا حمد بن حنبل، فضائل الصحابہ، 1 : 313، رقم : 431)
آپ ﷺ کے ارشاد پر غور کیا جائے کہ زمین کے پوشیدہ خزانوں میں رزق تلاش کیا جائے ۔ تو غور کیا جائے کہ اﷲ نے مملکت پاکستان میں کتنے پوشیدہ خزانے چھپارکھے ہیں۔ ان تمام خزانوں سے ہمارا رزوق وابستہ ہے۔
اسی طرح ہاتھ کی کمائی
اگر معاشرے کے افراد محنت کرنا چھوڑ دیں توایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں افراد، معاشرہ کی تخلیقی سرگرمیوں کے بجائے عضو معطل بن جائیں گے ۔ سو ایسے افراد کو اسلامی معاشرہ قطعا گوارا نہیں کرتا۔
(4) تجارت کی اہمیت
اسلام میں تجارت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ امین اور صادق تاجروں کے لیے آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔
سنن ترمذی میں ہے۔
''سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔''
(ترمذی، السنن، کتاب البیوع، باب ما جا فی التجارۃ، 3 : 515، رقم : 1209)
(5) کسبِ معاش کے بغیر انفاق فی سبیل اﷲ ممکن نہیں
قرآن کریم میں غریبوں لاچاروں اور مستحقین پر خرچ کرنے کا حکم ہے اسی کو انفاق فی سبیل اﷲ کہتے ہیں۔
انفاق فی سبیل اﷲ کی یہ فضیلت اور مقام تب ہی میسر آئے گا جب افراد معاشرہ حتی المقدور اپنی تمام تر توانائیوں کو حصولِ رزقِ حلال کے لئے بروئے کار لائیں گے۔
کسب معیشت اور ابتغا رزق کی اہمیت کو قرآن حکیم نے جا بجا بیان کیا ہے :
''فاِذا قضِیتِ الصلوۃ فانتشِروا فِی الارضِ وابتغوا مِن فضلِ اﷲِ"(الجمع، 62 : 10)
''پھر جب نماز ادا ہو جائے تو زمین میں پھیل ہو جا اور (پھر) اﷲ کا فضل(یعنی رزق حلال) تلاش کرنے لگو۔''
اسی طرح ارشاد باری ہے۔
وان لیس لِلاِنسانِ اِلا ما سعی''(النجم، 53 : 39)
اور یہ کہ انسان کو(عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہو گی۔
(6) مزدور کا خیال رکھنا
آج دنیا کا بڑا مسئلہ مزدور بنا ہوا ہے۔انسانی دنیا میں بڑی تفریق مزدور کے حقوق کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ایک طبقہ مزدو کو کلی حاکمیت دیتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ برابر مزدور کا استحصال کرتا ہے۔ تاہم اسلام میں بہت واضح احکام ہیں۔امام طبرانی نے ایک حدیث نقل کی ہے۔ علامہ ناصر البانی نے اس سے صحیح قراردیا ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔
''مزدور کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔''
( طبرانی، المعجم الصغیر، 1 : 43، رقم : 34)
یہی ہے مزدور کے ساتھ دلی اور واقعی ہمدردی۔
(7) مفادِعامہ کو اِنفرادی مفادات پر ترجیح
سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ نے عام الناس کے مفاد کو ذاتی و انفرادی مفاد پر ترجیح دی ہے۔تاہم ذاتی حق و ملکیت کی کبھی نفی نہیں کی۔قرآن حکیم نے جہاں جہاں بھی انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب دی ہے وہاں افراد معاشرہ کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ ترغیب دی گئی ہے :
قرآن کریم میں ہے۔
"وفِی موالِہِم حق لِلسائِلِ والمحرومِ'(لذاریات، 51 : 19)''
اور ان کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا''
اسلام نے انفرادی حق و مفاد کو تسلیم کیا تاہم کسی فرد یا جماعت کو اسلامی ریاست میں یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ ایسے معاشی مفاد کے حقوق کا مالک بنے جو عام الناس کے مفاد کے خلاف ہو۔ضرورت پڑنے پر خودرسول ﷺ نیاجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیا ہے۔اسلامی معیشت کے اس زریں اصول کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔چنانچہ ابواود میں ہے۔
''حضرت ابیض بن حمال رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مآرب میں نمک کی جو جھیل تھی اس کو عطیہ کے طور پر مانگا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ ایک شخص نے یہ دیکھ کر عرض کیا
یا رسول اﷲ! آپ نے نمک کا ہمیشہ جاری رہنے والا خزانہ کیوں اس کے حوالے کر دیا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی اصل حقیقت سے آگاہی کے بعد واپس لے لیا اور دینے سے انکار فرما دیا۔''
( بو داود، السنن، کتاب الخراج والامارۃ والفئی، باب فی قطاع الارضیین، 3 : 174، رقم : 3064)
حدیث مبارکہ سے یہ اصول وضع ہوتا ہے کہ مفادعامہ کے معاملے میں اسلام کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتا۔آپ ﷺ نے کئی مقامات پر مفادعامہ کو ذاتی و مخصوص جماعت کے افراد پر ترجیح دیا ہے۔
(8) اِرتکازِ دولت کی مذمت وممانعت
رسول اکرمﷺ کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ارتکاز دولت کی ہر شکل کی مذمت اپنے قول وفعل دونوں سے فرمائی ہے۔اپنی آسائشوں اور تسکین کیلیے مستحقین اور معاشرہ و ریاست کے مفلوک الحال لوگوں کی ضروریات کو مدنظر نہ کرکے دولت جمع کرنا ارتکاز مال کہلاتا ہے۔ شریعت نے اس طرح کے ناجائز ارتکاز مال کی کھلی ممانعت فرمائی ہے اور اس کا باعث عذاب شدید قرار دیا ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے۔
''والذِین یکنِزون الذہب والفِضۃ ولا ینفِقونہا فِی سبِیلِ اﷲِ فبشِرہم بِعذاب الِیم''
(التوب، 9 : 34 )
''اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں''۔
ارتکاز دولت کی ممانعت اس لیے ہوئی کہ مال و دولت صرف مخصوص طبقات کے درمیان گردش نہ کرے بالکہ معاشرے کے تمام افراد مستفید ہوں۔
(9) درخت لگانا اور کھیتی باڑی کی افادیت و اہمیت
معیشیت میں کھیتی باڑی اور درختوں کی اہمیت مبین ہے۔درخت لگانا، کھیتی باڑی کرنا اسلام میں بہت عظمت اور افادیت کی بات ہے۔ان سے نہ صرف انسانوں کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ جانوروں تک بھی پہنچتا ہے۔صحیح مسلم میں روایت ہے
''حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان درخت لگاتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے جانور یا انسان یا چوپائے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں تو یہ عمل اس (مومن) کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔''
( مسلم، الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل الغرس والزرع، 3 : 1189، رقم : 1553)
(10) بنجرزمینوں کا آباد کرنا
اسلام نے بنجر اراضی اور بڑے بڑے بیابان علاقوں کو زندہ کرنا اور کھیتی باڑی کے قابل بنانے کے عمل کو بہت اہمیت دی ہے۔بنجر اور مردہ زمینوں کو آباد کرنے پر اسلام نے اس کی حق ملکیت تسلیم کی ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
''جس نے کسی مردہ زمین کو آباد کیا، وہ اسی کی ملکیت ہوگی''۔
(ابو داود، السنن، کتاب الخراج والامارۃ والفیئی ، باب فی خذ الجزیۃ، 3 : 178، رقم : 3073)
(11) مستشرقین اور ان کے پیروں کا نقطہ نگاہ اور رسول اﷲ کی معاشی زندگی
آپ ﷺ کی معیشت کے حوالے سے عموما دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ایک مستشریق کا نقطہ نظر ہے اور ایک انکے پیروکارجدید مسلم مورخین کا ہے۔ان دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعلق ایک کمزور معاشی طبقے سے تھا۔اور سماجی طور پر بھی آپ کم شرف طبقے سے تھے۔اس قسم کی خیالات کا اظہار ان کی کتب میں ملتا ہے۔ بطورمثال ڈی ایس مارگولیتھ کی کتاب محمد اینڈ دی رائز آف اسلام (مطبوعہ لندن) وغیرہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔تاہم مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب سیرت النبی اور دیگر مصنفین نے اس قسم کے خیالات کی سخت تردید کی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ﷺ کے معاشی و اقتصادی افکار کی درست سمت میں تحقیق کی جائے تو بہترین اسلامی و اقتصادی اصول فراہم ہوسکتے ہیں۔بڑی حد تک مسلم ریاستوں اور محققین نے یہ کام کیا بھی ہے۔
عنفوان شباب پر قدم رکھتے ہیں آپ ﷺ نے قریش کے نوجوانوں کی مانند تجارت کا مشغلہ اپنانا۔ آپ کی مکی زندگی کا ایک بڑا حصہ تجارت پر مشتمل ہے۔بچپن ہی میں آپ ﷺ کیتجارتی اسفار یمن و شام کے ہوئے۔ پھر ام المومنین حضرت خدیج الکبری کے ساتھ مضاربت کے اصولوں پر کی جانے والی تجارت تاریخ کا ایک انمول باب ہے۔یاد رہیکہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر شام جانے تک آپ بطور تاجر اپنی حیثیت مسلم اور اپنی مہارت و محنت اور ذہانت منوا چکے تھے۔
اسی طرح ابتدائی دور ہجری میں آپﷺ کی معاشی و اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ مکی و مدنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کاایثار بھرا ہدیہ ونذرانہ ہوناتھا۔ اسی وسیلہ نے آپؓ اور آپؓ کے متعلقین اور اہل وعیال کے لیے تین بنیادی ضرورتوں روٹی،کپڑا اور مکان کی سبیل پیدا کی تھی۔یہ ذہن میں رہے کہ یہ ایک ذریعہ ہی تھا مگرآپ ﷺ کا ترکہ و وراثت ،ازواجِ مطہرات کے اپنے اموال ،خرید و فروخت اور تجارت ،کافی حد تک کھیتی باڑی، زراعت وباغبانی اور مویشی پالنا، دستکاری ، مال غنیمت وغیرہ دوسرے وسائل ِ معاش تھے۔ان سے آپ ﷺ اور اہل وعیال کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوتی تھیں۔آپ ﷺ نے شریفانہ زندگی اختیار کی، نہ مال ودولت کے انبار سے داد عیش دی نہ ہی زہد و فقر اختیار کرکے رہبانیت کا درس دیا۔اعتدال آپ ﷺ کی پہچان ہے۔نبوی معیشت اعتدال کے جادہ قرآنی پر مبنی تھی۔فقر سے پناہ مانگی اور اسراف کی ممانعت فرمائی۔اور صبر وشکر کی ترغیب دیتے ہوئے خود اس کا نمونہ بنے۔
(12)خلاصہ کلام
سیرت رسول اور احادیث سیرت کے عمیق مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ ﷺ کی معاشی و اقتصادی زندگی اور تعلیمات اور بنیادی تصورات اپنے معنی و مفہوم اور روح کے لحاظ سے پوری انسانی دنیا میں انفرادیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جو دیگر معاشی نظاموں سے ممتاز ہے اور نافذالعمل بھی ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت عطا کرتی ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہی معاشی واقتصادی تعلیمات ہیں۔یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ایسے بنیادی ڈھانچے کے قیام میں حقیقی رکاوٹ وہ سماجی اور معاشی ناانصافیاں ہیں جو جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور کمیونزم و اشراکیت کے نظام کی خصوصیات ہیں اور جنہوں نے انسانی سماجی زندگی میں دولت کے غلط و بے جاارتکاز، اور اسی طرح جائز حق ملکیت سے محرومی اور فرد کی پیداواری قوت کی لوٹ کھسوٹ کی شکل میں سر اٹھارکھا ہے اور جو وسیع پیمانہ پر بددیانتی ، بدلی اور مایوسی پیدا کررہی ہیں۔مگرآپ کے عطا کردہ معاشی اصولوں اور رہنمائی کے مطابق اصل رِزق اور حق معاش میں سب انسان برابر ہیں۔
بدقسمتی سے آج مملکت خدادا پاکستان کی معیشت پر قابض دولت مند طبقہ نے 20کروڑ لوگوں کے انحطاط پذیر سماجی ڈھانچے میں اپنے پنجے گاڑھے ہیں۔مگر اسلام اس کی اجازت قطعا نہیں دیتا۔اگر اسلام نے افراد کی آمدنی اور نجی ملکیت میں تفاوت کی اجازت دی بھی ہے تو اس میں ان کی صلاحیتوں اور قابلتیوں کو مدنظررکھ کر دی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی و مذہبی دہشت گردی کے ساتھ معاشی دہشت گردی کا بھی تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں خاتمہ کیا جانا چاہیے۔وماعلینا الاالبلاغ
نوٹ: یہ مقالہ ریڈیو پاکستان کی عید میلاد النبی ﷺ ربیع الاول کی خصوصی نشریات کے لیے لکھا گیا ہے اور ریڈیو پاکستان میں پڑھ کر سنایا گیا۔پانچ ربیع الاول ۱۴۳۷ح کو ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے آن آئیر کیا گیا۔

 
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 381424 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More