چھٹی کا دن تھا، ميں ٹی وی کے سامنے بيٹھا
سياسی گرما گرمی ديکھ رہا تھا، کہيں کوئی سياستدان کسی دوسرے سیاستدان کے
راز کھول رہا تھا، توکہيں کوئی کسی کے کرپشن کے قصے بيان کرتا نظر آ رہا
تھا۔ سب ايک دوسرے کو برا کہہ رہے تھے کہ اچانک ايک آواز نے ميرے پردہ
سماعت پر دستک دی یہ آواز کسی پھل فروش کی تھی میں نے اسے رکنے کا اشارہ
کيا- اور اس سے پھل خريدنے چلا گيا-
ميں: "يہ سيب کتنے روپیہ کلو ہیں"!
پھل فروش: "80 روپیہ"۔
ميں: "اور يہ کیلے"۔
پھل فروش: "50 روپیہ درجن"۔
ميں نے اسے ايک کلو سيب تولنے کا کہا- سيب تولتے وقت ميری نظر ايک سيب پہ
گئی جس پہ ايک داغ لگا ہوا تھا- ميں نے اس سے سوال کيا- جناب! اس پہ تو داغ
لگا ہوا ہے- وہ نہايت غصے سے مجے گھورا اور کہنے لگا
جناب! ذہن کے گوشوں پہ لگا داغ دور کريں، سيب پہ لگا داغ دور ہوجاۓ گا۔
|