دسمبر پھر حادثہ کی نذر!

دنیاوی منزل کے خواب آنکھوں میں سجائے 48افراد آخری سفر پر روانہ،ہر آنکھ پر نم ،ملک سوگ میں ڈوب گیا
زندگی کی طرح موت بھی اٹل ہے،مگر جب زندگی ناگہانی موت کے آنچل میں پناہ لے لے تو زندگی کی تمام رعنائیاں موت کی سفاکی کے اندر لمحوں میں ماند پڑ جاتی ہیں،انسان سامان تو سو برس کا جمع کرلیتا ہے مگر اگلے لمحے میں کیا ہونے والا ہے کوئی اس سے واقف نہیں ہوتا،اور جب زندگی کا سفر چند منٹوں میں مکمل ہو جائے تو اس کے نقش دل کو غمگین اور آنکھیں نم کر دیتے ہیں۔مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں حادثاتی اموات کی بہتات کچھ زیادہ ہی ہے،بدھ کوپاکستان کی فضا بھی ایک ایسے ہی فضائی حادثے کی وجہ سے سوگوار ہو ئی،جسے سنتے ہی ہرپاکستانی غم کی گہری کھائی میں ڈوب گیا۔پی آئی اے کے طیارے کے بائیں انجن میں خرابی 48افراد کی زندگی کی ڈوری توڑ نے کا سبب بنا۔ ایک ایسا مختصر سفر جس نے منٹوں میں مسافروں کو منزل تک پہنچانا تھا مگر انہیں منزل آخر تک پہنچا کر پاکستان کے لیے ایک بڑے حادثے کی تاریخ رقم کر گیا۔ جہاز نے 3 بجکر 55 منٹ پر ٹیک آف کیا اور اسے 4 بج کر 40 منٹ پر اسلام آباد میں لینڈ کرنا تھا، تاہم 4 بجکر 15 منٹ پر جہاز گر کر تباہ ہوگیاگویا زندگی منٹوں میں بے ثباتی کی گہری کھائی میں اتر گئی۔کیا ہولناک منظر ہو گا جب ایک طرف پائلٹ خوفزدہ آواز میں ’مے ڈے! مے ڈے ! کہہ رہا ہو۔واضح رہے کہ پائلٹس’مے ڈے‘کا کوڈ ورڈ ایمرجنسی کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھرپائلٹ کا کنٹرول ٹاور سے فوری رابطہ منقطع ہو گیا ہو اور پھر موت پوری وحشت سے آئی اور جہازبینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے 32 ناٹیکل میل دور حویلیاں کے گاؤں بتولنی کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہوگیا اور ایک افسوس ناک سانحہ کی شکل اختیار کر گیا۔ طیارے میں عملے کے 5 ارکان او ر ایک گراؤنڈ انجینئرسمیت 31 مرد، 9 خواتین اور 2 بچے سوار تھے اس کے علاوہ طیارے میں2 آسٹریلوی اور ایک چینی شہری بھی سوار تھا۔ اسی بدقسمت مسافر طیارے میں معروف اور ہر دلعزیز شخصیت جنید جمشید، ان کی اہلیہ اور ڈی سی او چترال اسامہ وڑائچ اور ان کی اہلیہ اور بیٹی بھی سوار تھے۔سول ایوی ایشن کے مطابق طیارے سے آخری بار حویلیاں کے قریب رابطہ ہوا ، جہاز کے کریش ہونے سے چند منٹ قبل پائلٹ نے ایمرجنسی کال کی اور ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت طلب کی، جس کے بعد طیارہ ریڈار سے غائب ہوگیا۔ بتولنی گاؤں کے ایک رہائشی نے 4 بجکر 35 منٹ پر بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کال کرکے طیارہ تباہ ہونے کی اطلاع دی، جنھیں ایئرپورٹ مینیجر سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئیں تاہم اندھیرے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ امدادی سرگرمیوں میں پاک فوج کے جوانوں اور ہیلی کاپٹرز نے بھی حصہ لیا۔ریسکیو آپریشن میں مقامی افراد نے بھی حصہ لیاحادثے کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اور پی آئی اے کی جانب سے مسافروں کے اہلخانہ کی سہولت کے لیے ہیلپ ڈیسک قائم کردیا گیا۔ تاہم حادثے کی وجوہات فوری طور پر سامنے نہیں آسکیں۔ مگر ہر کسی کے دل و دماغ میں ایسے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں جس کا جواب تلاش کیا جانا ازحد ضروری ہے:طیارہ کیوں حادثے کا شکار ہوا ؟کیوں اچانک معصوم زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں؟
ٰٓایک طرف طیارے میں موجود موت کے مسافر اور دوسری طرف موت کو آنکھوں سے دیکھنے والے ، موت پوری ہولناکی سے حویلیاں کے عین اوپر گھوم رہی تھی اورمغرب کی نماز کی تیاریوں میں مصروف لوگ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے جہاز کو ہچکولے کھاتادیکھ رہے تھے اور خوف زدہ ہو رہے تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔بد قسمت طیارہ جن پہاڑیوں کے درمیان گرا وہاں آبادی بہت کم تھی ۔مقامی افراد ہی سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچے تھے اوراور اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھائی تھی۔ تمام افراد کی لاشیں نکال کر اسلام آباد منتقل کر دی گئی ہیں جہاں ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ان کی شناخت کا عمل جاری ہے اور شناخت کے بعد ان کو ورثاء کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور خاص طور پر چترال ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں کسی بھی جہاز کے لیے پرواز کرنا ایک مشکل ترین عمل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جس مقام پر طیارہ گر کر تباہ ہوا، وہاں کوئی بھی جہاز انجن فیل ہونے کی صورت میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتا۔ایک بنیادی وجہ تو ایئرپورٹس پر رن وے کی لمبائی کم ہونا ہے، اس وقت صرف اسکردو کا رن وے چترال اور گلگت سے بڑا ہے، لہذا صرف ان ہی جہازوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اس طرح کے رن ویز پر لینڈ کرنے کے قابل ہوتے ہیں جبکہ دوسری وجہ وہاں پہاڑیاں ہیں، لہذا اس بات کا تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر جہاز کے ایک انجن میں خرابی آجائے تو کیا دوسرے انجن کی مدد سے طیارہ ان رکاوٹوں کو عبور کرسکتا ہے یا نہیں۔تیسری وجہ یہ ہونے کا امکان ہے کہ اس علاقے تک رسائی بہت مشکل ہے اور اگر کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو زخمیوں تک بھی بروقت پہنچنا بظاہر ناممکن ہے۔ ماضی میں بھی اس علاقے میں فضائی حادثات ہوتے رہے ہیں، 1988ء میں پی آئی اے کا ہی ایک فوکر طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا جس کا آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ اس کے علاوہ اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو 85 فیصد واقعات انسانی غلطی کی ہی وجہ سے پیش آتے ہیں، جبکہ 15 فیصد حادثات ایسے ہیں جو قدرتی طور پر رونما ہوتے ہیں جس کی وجہ موسم کی خرابی بھی ہوسکتی ہے۔ایوی ایشن کے ماہر صلاح الدین گل نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اے ٹی آر ایک ایسا طیارہ ہے جو ایک انجن کو بند کرکے بھی اپنے مقام پر باآسانی لینڈ کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اے ٹی آر کو فوکر کی جگہ استعمال کے لیے لیا گیا تھا، انھوں نے کہا ’’میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہوں کہ بدھ کوطیارہ حادثے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ طیارے میں خرابی صرف ایک نہیں بلکہ دونوں انجن میں ہوگی جس کی وجہ سے یہ اونچائی کو برقرار نہیں رکھ سکا اور حادثے کا شکار ہوگیا۔ ممکن ہے جب یہ طیارہ اسلام آباد سے چترال گیا تھا تب ہی اس میں کوئی خرابی ہو جس کا وہاں پہنچنے پر درست معائنہ نہیں کیا جاسکا لیکن چونکہ جہاز کا بلیک باکس مل گیا ہے تو تحقیقات کے بعد ہی اصل حقیقت سامنے آئے گی۔این ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ لاشوں کی بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے شناخت کی جائے گی جس کے لیے نادرا کا موبائل بائیو میٹرک سسٹم اسپتال پہنچایا جائے گا تاہم لاشوں کی شناخت نہ ہوئی تو ان کا ڈی این اے کرایا جائے گا۔ سیکریٹری داخلہ نے تمام لاشیں ایوب میڈیکل کمپلیکس پہنچانے کی ہدایت کی ہے ۔

بلیک باکس کیا ہے؟
بلیک باکس کسی بھی طیارے کے حادثے کے بعد انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس میں دوران پرواز اہم تکنیکی معلومات اور کاک پیٹ میں ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے جوحادثے کی صورت میں تفتیش کے دوران معاون ثابت ہوتا ہے۔باکس میں ریکارڈ شدہ آوازوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حادثے کے وقت طیارے کے عملے نے آپس میں یا کنٹرول ٹاور سے کیا گفتگو کی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس آلے کوبلیک باکس کا نام دیا گیا ہے اس کا رنگ عموماً نارنجی یا لال ہوتا ہے۔یہ باکس تین تہوں پر مشتمل ہوتاہے۔ بیرونی تہہ مضبوط سٹیل یا ٹائی ٹینیٹم دھات کی بنی ہوتی ہے، دوسری تہہ ایک انسولیشن خانے کی صورت میں ہوتی ہے جبکہ تیسری تہہ باکس کو شدید آگ اور حرارت سے محفوظ رکھنے میں کام آتی ہے۔یہ تین تہیں فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ اور کاک پٹ وائس ریکارڈ کو تباہ ہونے سے بچا لیتی ہیں۔بلیک باکس کے کریش سروائی ویل میموری یونٹس کے حفاظتی انتظامات کو آزمانے کیلئے اسے مختلف آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے۔مثلاً اسے 1100 ڈگری سیلسیسں درجہ حرارت والی آگ میں ایک گھنٹے تک رکھنے کے علاوہ 30یوم کیلئے سمندر کے نمکین پانی میں 4270 میٹر کی گہرائی تک رکھ کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اتنی گہرائی میں اس سے نکلنے والے سگنل سطح تک پہنچتے ہیں یا نہیں۔بلیک باکس کو محفوظ رکھنے کیلئے طیارے کے پچھلے حصہ میں نصب کیا جاتا ہے کیونکہ حادثے کی صورت میں طیارے کے سامنے کا حصہ زمین یا پانی سے پہلے ٹکراتا ہے ۔ہوابازی کے تحقیق دان ڈیوڈ وارن نے 1953 میں پہلے کمرشل جیٹ طیارے کے گر کر تباہ ہونے کی تفتیش کے دوران ایک ایسے آلے کی ضرورت محسوس کی جس سے حادثے کی وجوہات کے تعین میں مدد مل سکے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر طیارے میں ایک ایسا آلہ موجود ہو جو دوران پرواز اہم معلومات اور کاک پیٹ میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ کر رہا ہو تو حادثے کی صورت میں تفتیش میں مدد مل سکتی ہے۔ وارن نے 1956 میں بلیک باکس کا پہلا نمونہ تیار کیا جو چار گھنٹے کی ریکارڈنگ کر سکتا تھا۔ابتدا میں ان کی ایجاد کو پذیرائی نہ مل سکی لیکن دس سال بعد آسٹریلیا نے ان کے آلے کو مسافر طیاروں کے لیے لازمی قراردیا جس کے بعد یہ باکس دنیا بھر کے مسافر طیاروں میں نصب کیے جا نے لگے۔

حادثے کا شکار ہونے والی پرواز میں سوار افراد کی تفصیل
1 : عابد قیصر،2 :احسن،3: احترام الحق،4: عائشہ،5 : اکبر علی،6 :اختر محمود،7: امیر شوکت، 8:آمنہ احمد،9 :ماہ رخ احمد،10 : عاصم وقاص،11 : عتیق احمد،12 : فرح ناز،13 : فرحت عزیز،14 : گوہر علی،15 : گل حوراں،16 : حاجی نواز،17 : ہان کیانگ،18 : ہارلڈ کاسلر،19 : حسن علی،20 : ہروگ ایچل بینگر،21 : جنید جمشید،22:نیہا جمشید،23 : محمود عاطف،24 : مرزا گل،25 : ریحان علی،26 : محمد علی خان،27 : محمد خالد مسعود،28 : محمد خان،29 : محمد خاور،30 : محمد نعمان شفیق،31 :محمد تکبیر خان،32 : نثار الدین،33 : اسامہ احمد وڑائچ،34 : رانی مہرین،35 : سلمان زین العابدین،36 : سمیع،37 : ثمینہ گل،38 : شمشاد بیگم،39 : طیبہ عزیز،40 : تیمور ارشد،41 : عمارہ خان،42 : زاہدہ پروین۔
جہاز کے عملے میں کیپٹن صالح جنجوعہ،معاون پائلٹ احمد جنجوعہ،فرسٹ آفیسر علی اکرم ،ائیر ہوسٹس اسماء عادل اور صدف فاروق شامل ہیں۔

طیارے کا فلائٹ ڈیٹا
طیارہ 6 ہزار 950 فٹ بلندی سے بیقابو ہو کر گرا۔فلائٹ ڈیٹا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق طیارے میں خرابی 4 بج کر 12منٹ پر شروع ہوئی جس سے قبل طیارہ 14ہزار فٹ کی بلندی پر پروازکررہا تھا، خرابی کے بعد طیارے نے تیزی سے نیچے آنا شروع کیا اور 3 منٹ میں 7 ہزار فٹ بلندی سے نیچے آیا۔فلائٹ ڈیٹا کے مطابق 7 ہزار فٹ بلندی پر پائلٹ نے چند لمحوں کے لیے طیارے کو قابو میں کیا مگر 4 بج کر 15 منٹ اور 20 سیکنڈ پر طیارے نے مکمل کنٹرول کھودیا جس کے بعد وہ ناک کے رخ میں گرکر تباہ ہوا۔

ائیر ہوسٹس اسماء عادل
سانحہ حویلیاں میں دو ایئرہوسٹسز بھی جان سے چلی گئیں۔ ان میں سے ایک اسماء عادل ہیں۔ موت کبھی نہیں ٹلتی ، حویلیاں میں گر کر تباہ ہونے والے بدقسمت طیارے کی ایئرہوسٹس اسما عادل نے موت کی پرواز خود چنی۔ جدہ کی فلائٹ سے ڈیوٹی کٹوا کر مرضی سے چترال گئیں۔ اسما عادل کے دو معصوم بچے ہیں۔ بیٹا طلحہ ملک بڑا ، ام ہانی چھوٹی بیٹی ہے۔ والدہ کی موت سے بے خبر دو معصوم بچے ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔معصوم بچی بار بار والدہ سے بات کرنے کیلئے ٹیلیفون ملاتی رہی۔ وہ نہیں جانتے ہیں کہ وہ اس راہ پر چلی گئی ہیں جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔

ڈی سی اسامہ احمدوڑائچ
اسامہ وڑائچ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس)کے گریڈ 18کے افسر تھے اور ان کا تعلق 37ویں کامن گروپ سے تھا ۔وہ سابق آئی جی موٹر وے ذوالفقار چیمہ ،ایم این اے جسٹس ریٹائر افتخار چیمہ کے بھانجے اور چترال میں تعینات تھے ۔ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا اورآجکل وہ اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں رہائش پذیر تھے۔نیز اسامہ وڑائچ ڈی سی او چترال سے پہلے بطور اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد اور پشاور کام کر چکے تھے وہ نہایت ایمان دار اور فرض شناس افسر تھے اور اپنے کام کو محبت سے کرتے تھے۔ان کی شادی لگ بھگ سوا سال پہلے ہوئی تھی حادثے کے وقت ان کی بیوی اورنو مولود بیٹی بھی ہمراہ تھی۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.