طیارہ حادثہ…… ہر آنکھ اشکبار، ہر دل غمگین
(عابد محمود عزام, Lahore)
بدھ کے روز چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے
حویلیاں کے مقام پر تباہ ہونے والے پی آئی اے کے طیارے میں اڑتالیس مسافروں
کے لقمہ اجل بن جانے سے ملک میں ہر آنکھ اشک بار ہے۔ اس اندوہناک حادثے نے
سینے میں دل رکھنے والے ہر انسان کی روح کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے۔ اس
جانکاہ حادثے کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور فضاؤں پر
اداسیوں کے سائے منڈلانے لگے۔ ملک میں شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہوگی جس نے
اس المناک حادثے کی خبر سن کر آنسو نہ بہائے ہوں۔ طیارہ میں بیالیس مسافر
اور عملہ کے چھ افراد سوار تھے۔ طیارے کے کئی ٹکڑے مضافاتی دیہات میں بکھر
گئے، جن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اسلام آباد پہنچنے سے کچھ پہلے اے ٹی آر
طیارے کا راڈار سے رابطہ منقطع ہوا۔ جہاز کے کیپٹن صالح جنجوعہ تھے۔
حویلیاں کے قریب طیارہ خراب ہونے کے حوالے سے جہاز کے کیپٹن نے ’’مے ڈے‘]
کال دی، جس کے بعد طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ ’’مے ڈے کال‘‘ کا مطلب ہوتا
ہے کہ پرواز انتہائی خطرے میں ہے۔ طیارے سے موت کے سفر پر روانہ ہونے والوں
میں معروف مبلغ و نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے، جس نے اس حادثے کی
سوگواری میں مزیدا ضافہ کیا ہے۔ جنید جمشید مثالی انسان تھے جنہوں نے راگ و
رنگ کی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا، لیکن خالق کائنات نے انہیں روشنی
دکھائی اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا رخ دین مبین کی خدمت اور فلاح
انسانیت کی جانب موڑ دیا اور ساری زندگی دین کی دعوت تبلیغ کرتے گزاری اور
شہادت سے قبل چترال کا سفر بھی تبلیغ کے سلسلے میں ہی کیا، جس میں سابق
کرکٹر سعید انور کی تبلیغی جماعت کی نصرت کرنے کے لیے گئے تھے۔ یوں تو
مرحوم و مغفور کے ہر ہمسفر کی زندگی گراں قیمت تھی، ہر ناگہانی موت کا صدمہ
یکساں ہی ہوتا ہے۔ مرحوم جنید جمشید نے ان بیش قیمت جانوں کے اتلاف کے صدمے
کو بھی اجاگر کیا ہے۔ جنید جمشید کا فنی سفر پاپ میوزک سے نعت خوانی اور
پھر ٹی وی پر میزبانی تک پہنچا۔ 1964ء میں پیدا ہونے والے جنید جمشید نے
لاہور کی یو ای ٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ’’دل دل پاکستان‘‘
کا ملی نغمہ گا کر عالمی شہرت حاصل کی، ان کے گروپ وائٹل سائنز کو بھی اسی
ملی نغمے سے پہچان ملی۔انہوں نے گانوں کی چار البمز ریلیز کیں، جن کی وجہ
سے ان کو دنیا بھر میں خوب شہرت ملی۔ یہ ان کی شہرت کے عروج کا زمانہ تھا،
لیکن جب وہ شہرت کے بام عروج پر تھے تو مولانا طارق جمیل کی دعوت پر ان کا
رجحان اسلامی تعلیمات کی جانب بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت
خواں کے طور پر ابھرتے نظر آئے۔ 2004ء میں جنید جمشید نے گلوکاری چھوڑنے
اور اپنی زندگی تبلیغی کاموں کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد کئی
فلمی فنکار انہیں دوبارہ گلیمرز کی دنیا میں آنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے،
لیکن جنید جمشید نے ان کی بات پر اﷲ کی بات کو ترجیح دی۔ جس کے بعد ایک
مشروب کمپنی نے اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کے لیے چار کروڑ کے بدلے صرف ایک
گانا گانے کی آفر کی تو جنید جمشید نے اس آفر کو ٹھکرادیا اور خود کو دین
کے دعوت کے لیے وقف کردیا۔2005 میں ان کا نعتیہ و حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا
البم ’’جلوہ جاناں ریلیز ہوا۔ 2006 میں محبوب یزداں، 2008 میں بدرالدجا اور
2009 میں بدیع الزماں ریلیز کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے اپنا بزنس بھی شروع
کیا، جس کو اتنی ترقی ملی کی آج ملک کے مختلف شہروں میں اس کی شاخیں اپنی
منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ نامور نعت خواں اورا پنے فیشن لیبل سمیت جنید جمشید
گزشتہ سالوں میں ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان
کے طور بھی نمایاں رہے ہیں۔ سابق پاپ آئیکون اور آج کے نعت خواں 2007ء میں
حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے بھی نوازے گئے تھے۔ جنید جمشید نے
نعت خوانی اور مذہبی پروگراموں سے ملک گیر شہرت حاصل کی، 2014 ء میں دنیا
کی 500 بااثر مسلم شخصیات میں بھی انہیں شامل کیا گیا، جنید جمشید 13سال سے
مسلم چیریٹی نامی عالمی فلاحی ادارے سے بھی وابستہ تھے۔ چترال میں جنید
جمشید کے دوست اور تبلیغی جماعت کے رہنما محمد ایوب کا کہنا تھا کہ جنید
جمشید نے زندگی کی پہلی نعت بھی ’’محمد کا روضہ قریب آرہا ہے‘‘ پڑھی اور
زندگی کی آخری نعت بھی یہی تھی۔ جنید جمشید کو اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف ملک بھر
میں بہت محبت و عزت سے نوازا تھا، بلکہ پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے
موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب طیارہ حادثہ میں ان کی شہادت کی خبر ملی تو
دنیا بھر میں بہت سے مسلمان رنجیدہ ہوئے۔
ملک بھر کی سماجی، مذہبی اور فلاحی تنظیموں نے حادثہ پر گہرے دکھ اور افسوس
کا اظہار کیا ہے اور المناک حادثہ میں شہید ہونیوالے تمام افراد کے سوگوار
لواحقین سے دلی تعزیت وہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں صبر کی تلقین کی
اور دعا کی کہ اﷲ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا
فرمائے۔صدر مملکت، وزیر اعظم سمیت ملک کی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات نے
طیارہ حادثہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے، وزیر اعظم نوازشریف نے جنید
جمشید کے بیٹے کو فون کر کے ان کے والد کی حادثاتی موت پر گہرے دکھ کا
اظہار کیا۔ جبکہ امریکا و چین سمیت کی ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ طیارہ
حادثہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے طیارہ حادثے کی شفاف
اور غیر جانبدارانہ تحقیقات فوری مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ
انکوائری کمیٹی میں پاک فضائیہ کے سینیئر افسر کو بھی شامل کیا جائے۔
وزیراعظم نے پی آئی اے حکام کو فوری طور پرمتاثرہ خاندانوں تک پہنچ کر ان
کی ممکنہ معاونت کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ ضروری ہے کہ طیارہ حادثے کے
حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید
خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی پائلٹ جان بوجھ کر اپنی جان خطرے میں
نہیں ڈالتا اورحویلیاں طیارہ حادثے کے ذمہ دار ایم ڈی پی آئی اے ہیں، انہیں
فوری طور پر برطرف کیا جائے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے
والا طیارہ اے ٹی آرز بلند مقامات پر جانے کے لیے موزوں نہیں، لیکن جو
طیارہ اونچی پرواز کے لیے نہیں بنا، اسے چترال بھیج دیا گیا اور یہی اے ٹی
آر ہر ماہ لاکھوں روپے کا نقصان بھی کرتے ہیں۔ قومی سیاسی قائدین، اپوزیشن
ارکان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندہ اور نمایاں لوگوں کی جانب سے
اس سانحہ کی فوری، غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات اور تحقیقاتی رپورٹ قوم
کے سامنے لانے کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ ایسا کرنا قومی ادارے کی اصلاح کے
لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پہلے ہی شکوک و شبہات
پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پی آئی اے کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر کو
اپنے اور اپنے ادارے کے لیے ایک چیلنج سمجھ کر اس حادثے کی ٹھوس تحقیقات کا
آغاز کرنا چاہیے اور پی آئی اے کی ملکی اور غیرملکی پروازوں پر جن بھی
کوتاہیوں اور خرابیوں کی نشاندہی ہوچکی ہے انہیں اولین ترجیحات کے طور پر
دور کیا جائے۔
حادثے کی وجوہات کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات جنم لے رہے
ہیں۔ سیکرٹری ایوی ایشن عرفان الٰہی نے اعتراف کیا ہے کہ اے ٹی آر ساختہ اس
طیارے کا ایک انجن پہلے ہی خراب تھا۔ حادثے کی اصل وجوہات تو تحقیقات کے
بعد ہی سامنے آسکیں گی، تاہم جہاز کا ایک انجن خراب ہونے کا علم ہونے کے
باوجود اسے پرواز کی اجازت دینا بذات خود کسی المیہ سے کم نہیں۔ نجی ٹی وی
کے مطابق تباہ ہونے والے طیارے نے آخری پرواز اسلام آباد سے گلگت کی کی تھی،
جسے کیپٹن اظہر خان اڑارہے تھے، کیپٹن اظہر خان نے طیارے میں فنی خرابی کے
بارے میں پہلے ہی لاگ بک میں تحریر کر دیا تھا کہ گلگت سے اسلام آباد آتے
ہوئے طیارے کی انجن کی پاور کم کرنے پر ایک انجن الٹا گھومنے لگا تھا۔ فنی
خرابی کی نشاندہی کے باوجود بھی طیارے کو اگلی پرواز کے لیے چترال بھیج دیا
گیا۔ ذرائع کے مطابق پرواز 661 کے کیپٹن نے شام 4 بج کر 9 منٹ تک بلندی
برقرار رکھی اور 4 بج کر 13منٹ پر ایئرٹریفک کنٹرولر سے نیچے آنے کی اجازت
مانگی، جس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی وقت ممکنہ طور پر پاور کم کرنے کے
باعث انجن الٹا گھوما ہو گا اور اسی وقت کیپٹن جنجوعہ نے انجن میں خرابی کی
اطلاع دی ہو گی۔ نجی ٹی وی نے پی آئی اے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ فوراً
بعد ہی ایئر ٹریفک کنٹرولر نے مے ڈے کی آخری کال سنی اور ممکنہ طور پر الٹا
گھومتے انجن کے ساتھ نیچے آتا طیارہ بے قابو ہوا۔ سول ایوی ایشن کے مطابق
طیارے کے گراؤنڈ کریو نے پائلٹ کو تکنیکی مسائل سے آگاہ کیا، لیکن پائلٹ نے
اسلام آباد جا کر خرابی دور کرنے کا کہا۔ پائلٹ کی ہمشیرہ نے سماجی رابطے
کی ویب سائٹ انکشاف کیا ہے کہ ان کے بھائی نے کچھ روز قبل یہی تباہ ہونے
والا طیارہ اڑیا تھا۔ بھائی نے اہل خانہ کو بتایا تھا کہ اس طیارے کی حالت
بہت بری ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ طیارہ اڑنے کے قابل
ہی نہیں تھا، جبکہ تائیوان میں اس طیارے پر پابندی بھی عاید کی جاچکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طیارے کے انجن میں خرابی کے بارے میں طیارے کے پائلٹ
نے کنٹرول ٹاور کو مطلع کیا تھا تاہم پی آئی اے ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں
کی۔
پی آئی اے کے زیر استعمال اے ٹی آر ایک طیارے کو چند ہفتے قبل بھی ایک
حادثہ پیش آچکا ہے اور اب ایک طیارہ دوران سفر ہی تباہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں
اگر یہ تاثر نمایاں ہوتا ہے کہ پی آئی اے کے طیاروں کی دیکھ بھال اور
نگرانی کے نظام میں کوئی سقم ضرور موجود ہے کہ پوری دنیا میں اپنی محفوظ
خدمات کا شہرہ رکھنے و الے طیارے یہاں آکر اپنے حفاظتی معیار کوکیوں
کھودیتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پرواز کے وقت ہی طیارے کا ایک انجن بند تھا،
اگر یہ خبر سچی ہے تو طیارے کو پرواز کی کلیئرنس کیسے دی گئی؟ کیا یہ طرز
عمل اور ذہنیت مروجہ ملکی عمومی سائیکی کی غماز نہیں کہ ہم ہر خطرہ سے بے
نیاز اور کسی بھی قسم کے ممکنہ حادثہ کے مضمرات کو چشم تصور میں لائے بغیر
وہ مجرمانہ غفلت برت جاتے ہیں جس پر پچھتاوے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ فضا میں بلند ہونے والا طیارہ مشینی پراسیس کا مرہون
منت ہوتا ہے، تاہم اس کی پرواز سے پہلے مکمل چیکنگ، اس کے انجنوں، پروں اور
بریک و فیول ٹینکس سمیت دیگر انجینئرنگ تفصیل و آلات اور مکینیکل لوازمات
کے فالٹ فری ہونے کی یقینی ضمانت لازم تھی۔ اس لیے حویلیاں کے قریب گرنے
والے طیارے کے حادثے کی تحقیقات کا باب بند نہیں ہونا چاہیے، بلکہ کسی
نتیجہ خیز تفتیش تک پہنچنا ناگزیر ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کی تاریخ میں
مسافر بردار طیاروں کے 12بڑے فضائی حادثات رونما ہوئے جن میں کم ازکم 773
افراد جاں بحق ہوئے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر حادثے کے بعد چند روز تک
تحقیقات کی جاتی ہیں، اس کے بعد سارا معاملہ ہی ٹھپ ہوجاتا ہے اور پہلے
ہونے والے حادثات کے سلسلے میں کوتاہیوں پر غور نہیں کیا جاتا، جس کا نتیجہ
ہے کہ کچھ عرصے بعد ملک کسی بڑے سانحے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ ہر پہلو کو
مدنظر رکھ کر حادثے کی جامع تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اگر یہ حادثہ کسی ادارہ
جاتی اور انسانی غفلت کے نتیجہ میں رونما ہوا ہے تو اس سے زیادہ سنگین جرم
اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ |
|