اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنے نائب اور اشرف
المخلوقات کا درجہ دیا لیکن انسا ن زمین پر آکر اپنے ہم جنسوں کے حقوق
پامال کرنے لگا جو انسانیت کے بگاڑ کا باعث بنا۔دوسری جنگ عظیم کی تباہ
کاریوں نے انسان کو امن و سلامتی کی طرف راغب کیا جس کے لیے 1945 ء میں
اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا۔دنیا میں قیام امن کے لیے عملی پیشرفت
کرتے ہوئے 10دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کا
عالمی منشور منظور کیا گیا جس پر دنیا کے تمام ممالک اور قوموں کے مندوبین
نے دستخط کرتے ہوئے خیر مقدم کیا۔ یہ منشور 30دفعات پر مشتمل ہے جو بلا
امتیاز انسانی زندگی کے انفرادی واجتماعی طور پر تمام حقوق کا دفاع کرتی
ہیں جن میں جینے کا حق، برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی
اور ثقافتی حقوق ، روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، حق خودارادیت اور دیگر
حقوق شامل ہیں ۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دفعات پڑھنے کے لائق ہیں ان
میں چند قابل ذکر دفعات حکومتوں کے لئے بھی قابل ترجیح ہیں۔ اقوام متحدہ کے
انسانی حقوق کے منشوردفعہ 1کے مطابق تمام افراد عزت اور حقوق میں برابر
ہیں۔دفعہ 4 میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے جبکہ دفعہ 5کے تحت کسی
بھی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ سلوک کی سزا نہیں دی جائے گی۔ دفعہ7 کے
مطابق قانون سب کے لیے برابر ہے اوردفعہ12کے مطابق کسی شخص کی نجی زندگی
میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔دفعہ 18 اور 19 انسان کو آزادی فکر،آزادی مذہب
اور آزادی رائے کا حق دیتی ہیں جبکہ دفعہ 26 کے مطابق تعلیم ہر انسان کا
بنیادی حق ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کی یاد دہانی، ازسرنو عزم اور تجدید عہد کے لیے
ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر
ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آوازاٹھائی جاسکے۔بدقسمتی سے انسانی حقوق کے
عالمی منشور کو سات دہائیا ں گذر جانے کے باوجود بھی عملی طور پر انسانی
حقوق کی پامالی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور
میں بھی انسان جبر، غلامی، اخلاقی زوال، جہالت اور استحصال کا شکار ہیں ۔اس
وقت بھی دنیا کے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک ہے جن میں
بھارت، صومالیہ، افغانستان، فلسطین، کشمیر اور پاکستان سر فہرست ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جو کہ غربت کو جنم دیتی
ہے۔ استحصالی طبقات اپنے وسائل کی بنیاد پر انسانوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں
جو معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بنتا ہے۔عالمی غلبے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں
بھی دنیا میں بدامنی اور انسانی حقوق کی پامالی کی بڑی وجہ ہیں۔اقوام متحدہ
کے ہر رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ بحیثیت رکن"انسانی حقوق کے عالمی منشور"
کا احترام کرتے ہوئے اپنے ملک کے شہریوں کو ان کے تمام حقوق کی فراہمی کی
ضمانت دیں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جن کے باعث شہریوں کے حقوق تلف یا
مجروح ہوں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں ۔1973ء کے آئین
کے دفعہ 8 تا 40 میں شہریوں کے لیے تمام بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو
ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان ریاست کو لوگوں کی تعلیم،
صحت، تحفظ، روزگار، انصاف، برابری کے حقوق، تنظیم سازی کا حق، اور آزاادی
رائے سمیت تمام انسانی حقوق کے تحفظ کا پابندکرتا ہے۔ انسانی حقوق کی
پاسداری اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی آئین
ایک ایسا آئینی ڈھانچہ مہیا کرتا ہے جہاں مقننہ کو ان حقوق کی فراہمی کے
لیے مناسب قانون سازی کا ذمہ دار جبکہ اعلیٰ عدلیہ کوان کا محافظ قرار دیا
گیا ہے۔ ایک آئینی وجمہوری سیاسی نظام اور انسانی حقوق کے تمام اہم عالمی
معاہدوں کا رکن ہونے کے باوجود187 ممالک میں ہیومن رائٹس انڈیکس میں ہمارا
نمبر 146 ہے جبکہ بنگلہ دیش، بھارت اور نیپال ہم سے آگے ہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی کا عمل پاکستان میں نیا نہیں اوراس ضمن میں حکومتی
کارکردگی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی ،سیاسی عدم
استحکام اور انتہا پسندی کے شکار ملک میں انسانی حقوق کی ناقص صورتحال کے
لیے سیاسی حکومتیں، سکیورٹی ادارے، مقامی عدالتیں اور دیگر مسلح نظریاتی
گروہ ذمہ دار ہیں۔پاکستان کمیشن بر ائے انسانی حقوق(HRCP) کی سال 2015ء کی
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پر تشدد واقعات میں4612 افراد ہلاک ہوئے،18خود کش
حملے ہوئے جبکہ دہشت گردی کے مجموعی واقعات کی تعداد706رہی۔ صرف دہشت گردی
کے واقعات میں 619 شہری اور سیکورٹی فورسز کے 348اہلکار نشانہ بنے جبکہ
سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر41 حملوں میں 57فراد ہلاک ہوئے۔سال2015ء
میں4صحافی بھی قتل ہوئے جبکہ فرقہ ورایت کے 58واقعات پیش آئے اورتوہین ِ
مذہب کے الزام میں22 افراد کو موت کی سزا سْنائی گئی۔اعدادو شما ر کے مطابق
گزشتہ سال زیادتی کے3768واقعات پیش آئے، زیادتی کے واقعات میں974 لڑکیاں
اور794 لڑکے متاثر ہوئے۔2015ء میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں 1184اد
متاثر ہوئے، رپورٹ کے مطابق 993 خواتین کو جنسی تشدد اور279کو گھریلو تشدد
کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین کے حوالے سے مزید اعداد و شمار دیتے ہوئے کہا
گیا کہ833 خواتین کو اغوا کیا گیا جبکہ143کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا
گیا۔بچوں کی تعلیم سے محرومی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ گزشتہ سال دو
کروڑ پچاس لاکھ بچے سکول سے باہر رہے۔
پاکستان کاکمزور سیاسی نظام اور قدامت پرست معاشرہ انسانی حقوق کے تحفظ میں
سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جمہوری اقدار کے زوال اور شدت پسندی کے فروغ کے باعث
بنیادی حقوق سے متعلق مسائل اور روکاوٹوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا
ہے۔غیر مستحکم جمہوری نظام،وسائل کی کمیابی، سیاسی ارادے کی کمی، انصاف کی
فراہمی کے نظام میں نقائص، انسانی حقوق سے متعلق آگہی کی کمی اور امن و
امان کی خراب صورت حال وہ چند عوامل ہیں جو انسانی حقوق کی فراہمی کو بہتر
بنانے کی راہ میں حائل ہیں۔رواں برس پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور تحفظ
سے متعلق قوانین میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے جو خوش آئند ہے اور اب ان پر
مزید عمل در آمد کی ضرور ت ہے۔ لیکن بچوں، اقلیتوں ،معذوروں اور مزدوروں کے
متعلق موثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اورانسانی حقو ق کے بارے میں اسلام کا تصور
بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے۔ دین
اسلام کا ظہور دنیا میں امتیاز اور تسلط کی نفی سے شروع ہوا۔اﷲ کے پیغمبروں
نے انسانوں کے حقوق کو پورا کرنے اور معاشروں میں امن و انصاف قائم کرنے کے
لیے کوششیں کیں۔ اسلام نے ہی سب سے پہلے عورتوں، بچوں، معذوروں، قیدیوں،
مزدوروں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حقوق متعین کیے۔آج
سے چودہ سو سال قبل میدان عرفات میں دیے جانے والے خطبہ حجتہ الوداع کو آج
بھی انسانی حقوق کے حوالے سے مستند ترین، قدیم ترین اور سب سے پہلی دستاویز
سمجھا جا تا ہے جس کی بنیاد حقوق العباد پر رکھی گئی ہے۔ موجودہ حالات کے
تناظر میں مذہبی راہنماؤں کو اسلام کا حقیقی تشخص اجاگر کرتے ہوئے عوام میں
انسانی حقوق کے تحفظ کا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔حکومت کو انسانی
حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین وضع کرنے ہوں گے اور موجودہ قوانین پر سختی سے
عمل درآمد کرانا ہوگا۔مقامی این جی اوز اور میڈیا حکومت کے تعاون سے عوام
میں انسانی حقوق کی اہمیت کے لیے آگاہی مہم چلا سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کو
تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے اور تھانہ کلچر میں بہتری کے لیے اقدامات
کیے جائیں تاکہ مقامی سطح پر شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی
جاسکے۔ |