اکثرممالک میں ہر آنےوالی انتظامیہ میرٹ ،
میرٹ کا نعرہ تو لگاتی ہے لیکن آج تک یہ واضح نہ کیا گیا کہ میرٹ ہے کیا ؟
اللہ پاک کا حکم ہے ” علم والے اور بے علم برابر نہیں “۔ ” حق دار کو اسکا
حق دو “ ۔ ” انصاف کرو “۔ ” اس نے میزان نازل کی “ ۔ ” حضرت شعیب کی قوم
میں بے انصافی کا مرض تھا ، وہ تباہ ہوئی “۔ ایسے ہی کئی آیات مبارکہ اور
حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ حقدار کو اُس کا حق دیا جانا چاہیے ۔اور
خاص طور پر جب حضرت طالوت کو سردار بنایا گیا تو فرمایا گیا کہ ” اللہ نے
اسے جسم اور علم میں فوقیت دی “۔
یہ آیات مبارکہ ہماری رہنمائی کر رہی ہیں کہ میرٹ پالیسی کیسی ہونی چاہیے ،
حکومت کبھی بھی ایسی پالیسی نہیں بنا سکتی جو عدل وانصاف کے تقاضوں کے خلاف
ہو ۔ میرٹ پالیسی میں لازمی طور پر مندرجہ ذیل خصوصیات ہونی چاہیے (۱) علم
اور جسم کو فوقیت (۲) حقدار کو اُسکا حق (۳) عد ل و انصاف پر مبنی ہو ( ۴)
اقربا پروری سے پاک ہو (۵) بہترین اور قابل بندہ کا انتخاب ہو ۔
اس ضمن میں گورنمنٹ کو مندرجہ ذیل اقدامات اُ ٹھانے چاہیے۔ تمام وفاقی
ملازمتیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اور تمام صوبائی ملازمتیں صوبائی
پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پُر ہونی چاہیے ۔لیکن عدل وانصاف اور مساوات کے
تحت ایک جیسا سلیبس ، ایک جیسا پیٹرن ، ایک جیسے انتظامات ، ایک جیسا ہی
معیار ہونا چاہیے ۔فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کی
شاخیں سب تحصیل لیول پر قائم ہونی چاہیے ۔کسی بھی ادارے کو جتنی ملازمتوں
کی ضرورت ہو فوراً سروس کمیشن کو آگاہ کیا جائے ۔
پبلک سروس کمیشن مطلوبہ معیار کے اُمیدوار Select کر کے متعلقہ Department
کو بھیج دے ۔ ہر صورت میں تمام سیٹیں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پُر کی
جائیں ۔
میرٹ پالیسی میں مندرجہ ذیل اقدامات کئے جانے چاہیے
AGE LIMIT-1
قرآن پاک نے maturity کی 40 سال رکھی ہے ۔سورة الاحقاف آیت نمبر 15 تا 19
تک ” اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے
اسکی ماں نے اے کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور بڑی مشقت کیساتھ اسکو
جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور بڑی مشقت کیساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ
میں رکھنا اور دودھ تیس مہینے میں چھڑانا، یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو
پہنچ جاتا ہے اور 40 برس کو پہنچ جاتا ہے ، بہت غور طلب ہے کہ maturity کی
عمر 40 سال رکھی گئی ہے اور یہ کسی عام انسان کا حکم نہیں بلکہ اس خداوند
ازل کا حکم ہے جو خالق اور مالک ہے ۔40 سال میں ذہانت مکمل ہوئی پھر آگے
اُس کی مرضی ہے کہ نیکی کو تسلیم کر کے اسکی پیروی کرے یا بُرائی کا راستہ
چنے ۔
” عرض کی اے میرے رب میرے دل میں ڈال کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو
تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی اور میں وہ کام کروں جو تجھے پسند آئے
اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح ( بھلائی ) رکھ میں تیری طرف رجوع لایا
اور میں مسلمان ہوں ۔“ یہ ہیں وہ جن کی نیکیاں ہم قبول فرمائیں گے اور ان
کی تقصیروں ( بُرائیوں ) سے در گزر فرمائیں گے ۔ جنت والوں میں سچا وعدہ جو
انھیں دیا جاتا تھا ۔آگے دوسرے شخص کا ذکر جو بُرائی قبول کرتا ہے ۔اور وہ
جس نے اپنے ماں باپ سے کہا اف تم سے دل پک گیا ( بیزار ہو گیا ) کیا مجھے
یہ وعدہ دیتے ہو کہ پھر زندہ کیا جا ¶ں گا حالانکہ مجھ سے پہلے سنگتیں (
قومیں ) گزر چکیں اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہیں تیری خرابی ہو ایمان
لا بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ تو کہتا ہے یہ تو نہیں مگر اگلوں کی
کہانیاں یہ وہ ہیں جن پر بات ثابت ہو چکی ان گروہوں میں جو ان سے پہلے گزرے
، جن اور آدمی بے شک زیاں کار تھے ۔ اور ہر ایک کیلئے اپنے اپنے عمل اور
درجے ہیں اور تاکہ اللہ ان کے کام انھیں پورے بھر دے اور ان پر ظلم نہ ہو
گا ۔
لہذا ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ Age Limit 40 سال تک ہونی چاہیے ۔
لیکن اگر جسمانی طور پر اُمیدوار فٹ ہے ، تندرست ہے ۔ افلاطون اپنی مثالی
ریاست میں بھی یہی غلطی کرتا ہے کہ جو فیل ہو جائیں ان پر آگے بڑھنے اور
ترقی کرنے کے دروازے بند کر دیتا ہے ۔اسی غلطی کو ہم دہرا رہے ہیں ۔ ہم نے
28 ، 30 سال تک Age Limit رکھ کر بہترین بندہ کو Select کرنے سے خود کو
روکا ہے ۔ اکر خداوند عالم 36 سال یا اس کے بعد رحم وکرم کرتا ہے اس انسان
کی ذہنی صلاحتیں بڑھ جاتی ہے ، وہ ایک مفید اور بہترین انسان بن جاتا ہے
جبکہ موجودہ Setup جس میں Age Limit 28 یا 30 سال ہے ریاست اس بندہ کی
صلاحیتوں سے سے فائدہ اٹھانے سے قاصر اور محروم رہتی ہے لہذا Age Limit یا
تو ہونی ہی نہیں چاہیے اگر ہو تو کم از کم 40 سال ہونی چاہیے ۔گریجو ایٹی
اور پنشن کے مسائل بھی حل کئے جا سکتے ہیں ۔40 سال کے بعد جتنی Appointment
ہو یا جو 20 سال سے کم گورنمنٹ سروس کرے انہیں اسی تناسب سے گریجوایٹی پنشن
دی جا سکتی ہے ۔ اصل بات ریاست کو Talent ضائع نہ کرنا ہے اور بہترین انسان
کا چناؤ کرنا ہے ۔اس لئے AgeLimit 40 سال ہونی چاہیے ۔نبی اکرم پر پہلی وحی
غار ِ حرا میں 40 سال کی عمر میں ہی آئی تھی ۔
2 ۔ میرٹ پالیسی کا طریقہ کار ( اُمیدوار کو Select کرنے کا طریقہ )
1 ۔ اکیڈمک مارکس 20% ، 2 ۔ ٹیسٹ مارکس (کم از کم 1000 مارکس ) 60%
3 ۔ انٹرویو مارکس 20% ، ٹوٹل 100% ،
مثلاً ہم مقابلہ کروا رہے ہیں B.A/ BSc کی Base پر تو Selection Criteria
بنے گا ۔تو تین اُمیدواروں A, B , C میں مقابلہ ایسے ہو گا ۔
A اُمیدوار کے حاصل کردہ اکیڈمک نمبر 180% ٹوٹل ( 60 % گریجوایشن ، 70%
انٹر میڈیٹ ، 50 % میٹرک ) A ،
B اُمیدوار کے حاصل کردہ اکیڈمک نمبر 190% ٹوٹل(60% گریجوایشن ، 70%
انٹرمیڈیٹ ، 60 % میٹرک ) B
C ۔امیدوارکے حاصل کردہ اکیڈمک نمبر ٰ ٹوٹل ( 60% گریجوایشن ، 80%
انٹرمیڈیٹ ، 70% میٹرک ) C ۔
اکیڈمک مارکس بنے ( 60% = 3180 ) A ، ( 63% = 3190) B ، (70% = 3210 ) C
ہمارے سامنے ہر اُمیدوار کی Average کارکردگی آ گئی ہے ، (60%) A ، (63%) B
، ( 70%) C
اب میرٹ پالیسی کے تحت ہم نے 20% اکیڈمک نمبرز لینے ہیں (A)12 ، (B) 12.6 ،
(C) 14 تینوں اُمیدواروں کی اکیڈمک کارکردگی ہمارے سامنے ہے (2) تحریری
امتحان جو کم از کم 1000 نمبرز پر مشتمل ہو اور جو تمام سلیبس پر مشتمل ہو
اس میں سے حاصل کردہ نمبرز (A) 70% ، (B) 50% ، (C)50% ،
میرٹ پالیسی کے تحت نمبرز 60% ، (A) 42 ، (B) 30 ، 30 (C)
(3) ۔ تحریری امتحان کا سلیبس
تحریری امتحان کا سلیبس ہر صورت میں تمام کلاسز کے سلیبس پر مشتمل ہونا
چاہیے مثلاً اگر ہم گریجوایشن لیول پر مقابلہ کروا رہے ہیں تو سلیبس میٹرک
انٹر میڈیٹ اور گریجوایشن تینوں کلاسز کے سلیبس پر مشتمل ہونا چاہیے ۔اور
اگر صرف میٹرک لیول پر مقابلہ ہے تو صرف میٹرک کے سلیبس کا امتحان ہونا
چاہیے ۔
(4) ۔ انٹرویو
انٹرویو کے کم از کم 100 مارکس ہونے چاہیے اور انٹرویو کا معیار واضح ہونا
چاہیے ، بعض دفعہ امیدوار کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انٹرویو کا معیار کیا ہے
، لہذا ضروری ہے کہ انٹرویو کا معیار واضح ہو ۔ انٹر ویو کا معیار 1۔ بات
چیت کا سٹائل 10 نمبر ، 2۔ تخلیقی سوالات 10 نمبر ، 3۔سلیبس کے متعلق
سوالات 80نمبر
سلیبس کی مزید تقسیم 1۔ اسلامک علم 20 نمبر ، 2۔پاکستانی تحریک وتاریخ
20نمبر ، 3 ۔ جنرل نالج 20 نمبر 4 ۔ اکیڈمک علم 20 نمبر
اب سوال کہ کتنے سوالات پو چھے جائیں اور ہر سوال کے کتنے مارکس ہوں ۔ ہر
Topic پر امیدوار سے کم از کم 10سوالات پو چھے جانے ہیں ۔ اور ہر سوال کے 2
نمبر ہونے چاہیے اس طرح کل 45 سوال کئے جائیں گے ، 45x2= 90 ، اب حاصل کردہ
نمبرز (A) 60 , (B) 50 , (C) 40
میرٹ پالیسی کے تحت
(A) 12 , (B) 10 , (C) 8 ،
Final Selection
اُمیدوار A اکیڈمک نمبر 12 تحریری امتحان نمبر 42 انٹرویو کے نمبر 12 کل
نمبر 66
اُمیدوار B اکیڈمک نمبر 12.6 تحریری امتحان نمبر 30 انٹرویو کے نمب10 کل
نمبر 52.6
اُمیدوار C اکیڈمک نمبر 14 تحریری امتحان نمبر 30 انٹرویو کے نمبر 8 کل
نمبر 52
اس طرح ہمارے پاس بہترین امیدوارA کے نمبرز66 آگئے ۔
یہی امیدوار ریاست کوSelect کرنا چاہیے ، اگر Higher ایجو کیشن کے نمبرز
شامل کرنے ہو تو وہ صرف اور صرف کم از کم 60% نمبرز حاصل کرنے والے کو دئیے
جانے چاہیے اور ہر Higher Step کے صرف اور صرف 5 مارکس ہونے چاہیے ۔ وہ بھی
انصاف کے تقاضے کے تحت ، 100% نمبر لینے والے کو 5 مارکس اور 60% نمبر لینے
والوں کو 3 نمبر ملنے چاہیے ، یعنی 3 کم از کم مارکس اور 5 زیادہ سے زیادہ
مارکس ہرنے چاہیے ، کیونکہ Higher ایجو کیشن امیدوار کو تحریری امتحان اور
انٹر ویو میں اپنی اضافی قابلیت دکھانے کا موقع ہے ۔
انٹرویو میں شفافیت
انٹرویو میں شفافیت بہت ضروری ہے ، جب بھی انٹرویو ہو تو Pannel کے ہر ممبر
کیلئے ضروری ہے کہ وہ جتنے مارکس کسی امیدوار کو دے رہا ہے اس پرs Comment
بھی کرے ۔ نمونہ مندرجہ ذیل ہے ۔
” اللہ پاک کی مقدس امانت کو استعمال کرتے ہوئے مسمی مسمات ۔۔۔۔۔۔ سے
۔۔۔۔۔۔ سو الات کئے گئے ،اس نے ۔۔۔۔ سوالات کے جوابات درست اور ۔۔۔۔ سوالات
کے جوابات غلط دئیے ، میں اس کو عدل و انصاف کے مطابق ۔۔۔۔۔ مارکس دیتا ہوں
۔ اُ میدوار سے دیگر اُمیدواروں کے متقابل سوالات پوچھے گئے ، اگر میں ۔۔۔۔
نے بے انصافی کی ہو تو مجھ پر اللہ پاک کی لعنت ہو ۔ ۔۔۔۔۔۔ Signature
اسی طرح مجھے اُمید ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حقدار کو اسکا حق
دیں گے۔پہلے اپنے اپنے ملک اور پھر مجموعی طور پر پوری دنیا، پوری انسانیت
کیلئے ترقی کی نئی راہیں کھول سکیں گے اور خود کو اس آگ سے بچاسکیں گے جس
کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں اور ظالموں کیلئے تیار کی گئی ہے ۔
GOLG MEDAL
اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کیلئے انعام رکھا ہے ، لہذا ہم پر بھی فرض ہے
کہ لائق لوگوں کے لئے انعام رکھے ، اسلئے ہر سال جو بھی PPSC اور FPSC کے
تحت امتحان میں کم از کم Top 20 پوزیشن ہولڈرز کو Gold Medal دئیے جائیں تا
کہ طلبہ کے اندر علم حاصل کرنے اور مقابلہ کرنے کا شوق پیدا ہو ۔
|