’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کے جلوے!!
(Waseem Ahmad Razvi, India)
ذکرِ میلادُالنبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کیا ہے؟……مصطفی جان رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر،وقتِ
ولادت کی بہار کا ذکر،ان کے حالات کا ذکر،ان کی خلوت کا ذکر، ان کی جلوت کا
ذکر،ان کی نشست و برخاست کا ذکر،ان کی گفتار و اطوار کا ذکر،ان کے معجزات
کا ذکر،ان کے اختیارات کا ذکر،ان کی فتوحات کا ذکر،ان کے خصائص و فضائل کا
ذکر،ان کی زلفِ واللّیل اور رُخِ والضحیٰ کا ذکر،ان کے حسن و جمال اور کمال
کاذکر …… ان کی نبوت و رسالت کا ذکر بھی ذکرِ میلادُالنبی صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کا عنوان ہے۔
یہ ذکر کب سے ہورہا ہے؟ اس ذکر کی مجلس کس نے سب سے پہلے سجائی؟کون کون اس
بابرکت مجلس میں سب سے پہلے شریک ہوئے اور ذکر مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم سُنا؟کن کے نصیب میں یہ سعادت مندی تھی؟……سنو سنو! اﷲ کی کتاب قرآن
مجید میں خود اﷲ واحدہ و یکتا کا ارشاد ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّٖنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ
کِتٰبِِ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ
لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہُ قَالَ ءَ أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ
عَلٰی ذٰلِکُمْ إِصْرِیْ قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُواْ وَأَنَاْ
مَعَکُمْ مِّنَ الشَّاہِدِیْنَ(آل عمران،آیت۸۱)’’اور یاد کرو جب اﷲ نے
پیغمبروں سے ان کا عہد لیا کہ جو مَیں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف
لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم
ضرورضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔فرمایا کیوں،تم نے
اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا؟سب نے عرض کی،ہم نے اقرار
کیا۔فرمایا تو ایک دوسروں پر گواہ ہوجاؤں اور مَیں آپ تمہارے ساتھ گواہوں
میں سے ہوں۔‘‘(ترجمہ کنزالایمان)
سبحان اﷲ! یہ سب سے پہلی محفل تھی جس میں ذکرِ رسولِ اعظم کیا گیا،ان کی
نبوت کا ذکر ہوااور نبوت کے بارے میں عہد لیا گیا،یہ محفل خالقِ کائنات نے
سجائی تھی،انبیا و مرسلین سے عہد و پیمان لیا گیا،کس کی نبوت کے بارے
میں؟جو سب نبیوں اور رسولوں کے بعد میں پیدا ہونے والا تھا،جو خاتم النبیین
ہے۔اﷲ تو علیم و خبیر ہے سب جانتا ہے پھر بھی اس آخر آنے والے کا ذکر اور
اس کی نبوت پر ایمان لانے کا عہد پہلے آنے والوں سے لیا۔کیوں؟ تاکہ اس با
عظمت کی عظمت واضح ہوجائے……اس پہلی محفل کے بعد بھی مسلسل ذکر مصطفی صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کی محفلیں آراستہ ہوتی چلی آرہی ہے اور ان شاء اﷲ! قیامت
تک ہوتی رہے گی۔ذرا قرآن پڑھو!اﷲ کی مقدس کتاب کا کیا انداز ہے اﷲ کے
محبوبوں کے ذکر کا!……جگہ جگہ اﷲ نے اپنے برگزیدہ بندوں انبیاء کے فضائل و
محامد بیان کیے،ان کے اوصاف و تخصصات کا ذکر کیا،ان کی شجاعتوں اور معجزات
کو بیان کیا،ان کے یومِ ولادت و وفات پرسلامتی بھیجی،ان کے مقامِ ولادت و
ہجرت کی قسم یاد فرمائی(دیکھیے:سورۃالبقرۃ،انبیاء،مریم،قصص،بلدوغیرہ)……اور
جب اپنے حبیب اور سب سے پیارے نبی کا ذکر کیا تو کبھی یا
ایھاالمزمل،یاایھاالمدثر،کبھی یٰسٓ،کبھی طٰہٰ اور کبھی یا ایھاالنبی تو
کبھی یا ایھاالرسول کہہ کر یاد کیا……اور کبھی والضحیٰ فرماکر چہرۂ حق نما
کی قسم یاد فرمائی،تو کبھیواللّیل کہہ کر ان کی زلفِ معنبر کی قسم ذکر
فرمائی،سورۃالبلد میں ان کی خاکِ گزراور ان سے نسبت رکھنے والے شہر کی قسم
یاد فرماکر اہلِ ایمان کو اندازدے دیا کہ ان کا ذکر قرآن کا شعار ہے،اسی
قرآن عظیم میں ان کی تعظیم و توقیرکا حکم بھی دیااور ان کے طریقوں کو اہلِ
ایمان کے لیے سب سے بہتر قرار دیا…… ہاں ہاں! اسی قرآن میں ان کے فضائل
بیان کیے جس کا ایک ایک حرف ہدایت ہے، رہ نمائی ہے، نجات کا ضامن ہے مومنوں
کے لیے……سنوسنو! ہم مسلمانوں کی عظیم ماں سیدتنا عائشہ صدیقہ نے اسی لیے تو
فرمایاہے:’’ان کا خُلق قرآن ہے۔‘‘(کان خُلقہٗ قرآن)۔
ان کی مدحت میں قرآن ناطق ہے،احادیث ثابت ہے،ان کے جاں نثار اصحاب نے ان کی
ایک ایک ادا کو محفوظ کیا،روایت کیا،ذکر کیا،بعد میں آنے والوں کے لیے ان
کی سنتوں کا نقشہ کھینچا۔کس طرح ؟اورکس عاشقانہ انداز میں؟دیکھو دیکھو!ذرا
احادیث کی کتابوں کو دل کی آنکھوں سے دیکھو!اور محبت کی عینک لگا کر
دیکھو!اصحابِ رسول نے ہر ہر ادائے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کس طرح
ہم تک پہنچایا۔جیسے ہی ہمارے آقا ﷺنے لب ہائے مبارکہ کو جنبش دی، صحابہ
پکار اُٹھے فقال رسول اللّٰہ ﷺ،جیسے ہی تشریف فرما ہوئے، روایت کیاجلس رسول
اللّٰہ ﷺ،جب سرکار کھڑے ہوئے نقل کردیافقام رسول اللّٰہ ﷺ،حتیٰ کہ جب کسی
معاملے میں حضور نے خاموشی اختیار فرمائی، صحابہ پکار اُٹھے فسکت رسول
اللّٰہ ﷺ……اہلِ علم خوب جانتے ہیں،جب کسی بات پر اﷲ کے حبیب ﷺ سکوت اختیار
فرمائے تو یہ خاموشی بھی حدیث کا مقام رکھتی ہے اور قانون کی حیثیت بھی؛
اسی ادا کو محدثین کی اصطلاح میں ’’حدیثِ تقریری‘‘ کہتے ہیں۔
اﷲ اﷲ! یہ تو احادیث کی روایت کا حال ہے،ذرا دیکھو!خود زمانۂ رسالت میں
صحابۂ کرام نے ذکر رسول کی محفلیں سجائیں،نعتیں کہیں،گستاخانِ رسول کی ہجو
نظم کیں۔حضرت حسان بن ثابت،حضرت رواحہ،حضرت مالک بن انس،حضرت عباس،حضرت
عبداﷲ بن عباس،حضرت کعب وغیرہم رضوان اﷲ علیہم اجمعین دربار رسالت میں
نعتیں سناتے،حضور کی ولادت کاذکر کرتے،حضور کے فضائل و کمالات،معجزات و
فتوحات کا ذکر کرتے،حضور کے حسن و جمال اور صداقت و امانت کے گیت گاتے اور
بارگاہِ رسالت سے دعاؤں کے سوغات لوٹتے۔احادیث و سیر کی کتابوں نے ان
واقعات کو اپنے سینوں میں محفوظ کررکھا ہے،ضرورت صرف منصفانہ مطالعہ اور
شرح صدرکی ہے۔
صحابہ کا دور رخصت ہوا،تابعین تبع تابعین پھر ائمہ و محدثین پھر فقہاء و
علما کا زمانہ آیا،مگر ذکر میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی روشنی
بڑھتی گئی،کیوں نہ بڑھے یہ سب ورفعنالک ذکرک کے جلوے ہی تو
ہیں،وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الاُوْلیٰ (سورۃ الضحیٰ، آیت ۴) ہر
آنے والے وقت کے ساتھ ان کے اقبال کا سورج بلندہوتا ہے اور ان کے ذکر کی
روشنی کو پھیلتی ہے……چناں چہ دورِ صحابہ کے بعدامام اعظم ابو حنیفہ،امام
شافعی،امام مالک،امام احمد بن حنبل،امام قاضی عیاض مالکی،سے لے کر محدث ابن
جوزی،امام جزری،امام ابن حجر عسقلانی،امام ابن حجر الہیتمی شافعی، امام
قسطلانی،امام غزالی،حضور غوثِ اعظم،امام جلال الدین السیوطی وغیرہم جیسے
جلیل القدر اصحابِ علم و فن کی قیادت میں اہلِ ایمان نے محفلِ ذکر
میلادالنبی ﷺ کااہتمام کیا؛ اس عنوان پر تحریرں یادگار چھوڑیں۔دورِ متاخرین
میں امام ربانی مجددالف ثانی،شیخ عبدالحق محدث دہلوی،شاہ عبدالرحیم محدث
دہلوی،شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی بن شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی،شاہ عبدالعزیز
محدث دہلوی،شاہ احمد سعید مجددی،حاجی امداداﷲ مہاجر مکی،شاہ ابوالخیر نقش
بندی،مفتی ارشاد حسین رام پوری،علامہ فضل حق خیرآبادی،علامہ فضل رسول
بدایونی،امام احمد رضا محدث بریلوی،پیر مہر علی شاہ گولڑوی،محدثِ حجازعلامہ
علوی مالکی مکی،مولانا ضیاء الدین مدنی،مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی
میرٹھی، محدث اعظم ہند کچھوچھوی،مجدد اسلام علامہ اسماعیل نبہانی اور مفتیِ
اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ وغیرہم نے عاشقانِ میلادِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کی رہنمائی کی، ذکرِمیلادالنبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو
استدلال کی زبان عطا کی اور امت میں اختلاف پھیلانے والوں کی بیخ کنی کرکے
ذکر مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو فروغ دیا۔اور نامِ محمدصلی اﷲ علیہ
وسلم، عشقِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے عنوان پر بکھری ہوئی امت کے شیرازے کو
متحد کیا۔
عقلِ ناقص دلائل کی پرستار ہے مگر عشق کو دلیل کی حاجت نہیں ہوتی،اور ایسے
پیارے کے ذکر کی محفل سجانے کے لیے کسی دلیل کی کیا ضرور جس کے ذکر سے قرآن
معمور ہے۔اس با عظمت کی ولادت کی خوشی منانے کے لیے دلیل کی کیا ضرورت جس
کی خاطر رب تعالیٰ نے کائنات سجائی،عرش کا شامیانہ لگایا،پہاڑوں کے لنگر
بنائے ،دریاؤں کو روانی،جھرنوں کو نغمگی،پھولوں کو نکہت،باغات کو شادابی
اور آسمان کوتاروں کے موتیوں سے سجایا،اور شبِ ولادت ہزاروں فرشتوں کے جلوس
کو بلبلِ سدرا حضرت جبریل امین کی قیادت میں روانہ کیا……ذکرِ سرکارِ اعظم
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم روز افزو ہے،من جانب اﷲ ذکر مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کو بلند کرنے کا وعدہ ہے ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں؛ ہر اچھی قدر زوال پذیر ہے…… بزرگ حضرات اپنے تجربات
بتاتے ہیں؛ایک دور تھا؛ جب اخلاق بلند تھے، حسن سلوک اور صلہ رحمی عام تھی،
ایک دوسرے کے حقوق کا خیلا رکھا جاتا تھا…… مگر آج یہ اچھی قدریں ہر معاشرے
سے رخصت ہورہی ہیں ۔ ہر معاشرہ اپنی کج عملی اور بے راہ روی کا مرثیہ پڑھ
رہا ہے۔اخلاقی پستی نے معاشرے سے شرم و حیا کا جنازہ نکال دیا …… مگر ہم یہ
بھی دیکھ رہے کہ ایک ذکر ہے جو روز افزوں ہے، وہ ذکر؛ ذکرِ خیر ہے۔ وہ ذکرِ
مصطفیٰ ﷺ ہے…… معاشرے کی اچھی قدروں کی حفاظت کی ذمی داری ہمارے تھی؛ جسے
ہم نباہ نہ سکے۔ اس لیے معاشرہ اخلاقی تنزلی کا شکار ہوا…… اور جہاں تک بات
ہے ذکرِ مصطفی ﷺ کی …… تو اس ذکر کو بلند کرنے کا ذمہ تو خالقِ کائنات نے
لیا ہے اسی لیے یہ ذکرِ روز افزوں ہے اور ہر آنے والا وقت ان کی عظمتوں،
رفعتوں اور شوکتوں کے گیت گاتا رہے گا۔بلا شبہہ یہ ذکرِ سرکار اعظم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے اجالے ورفعنالک ذکرک کے جلوے ہیں۔
ذکرِ سرکار کے اجالوں کی بے نہاں رفعتیں ہیں خالدؔ
یہ اجالے کبھی نہ سمٹیں گے یہ وہ سورج نہیں جو ڈھلتے ہیں
٭٭٭ |
|