محافلِ میلاد کا انعقاد! تقاضۂ ایمانی
(Waseem Ahmad Razvi, India)
از افادات: حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب
مصطفائی(بانی ادارۃ المصطفیٰ، انٹر نیشنل)
مرتب: وسیم احمد رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
کتابِ رحمت قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا: قُلْ
بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ
مِمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ (سورۃ یونس، آیۃ ۵۸)اے محبوب! ارشاد فرمادیں جب اﷲ کا
فضل اور رحمت ہو تو انہیں چاہیے کہ فرحت، مسرت، خوشی کا اظہار کریں۔جب بھی
کوئی فرحت و راحت کی خبر پہنچے، جب کوئی خیر کا پیغام آئے، جب کوئی نعمت
نصیب ہو، کوئی فضل و رحمت نصیب ہو، توقلب میں اس کی فرحت اس کے اثرات ضرور
مرتب ہوتے ہیں؛ اور اس کے اظہار کے مختلف طریقے انسان اختیار کرتا ہے؛اور
یہ انسان کی طبع ہے۔ جب خوشی ہوتی ہے تو اس کے چہرے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ
خوش ہے؛ اور جب وہ دکھی و غم زَدہ ہوتا ہے تو اس کا چہرہ بتادیتا ہے کہ یہ
دکھی اور غم زدہ ہے۔
اب اس مسرت اور اس فرحت کا اظہار ہم اپنی عملی زندگی میں مختلف پیرائے اور
ذرائع سے کرتے ہیں۔ اﷲ اولاد جیسی نعمت عطا کرے، بیٹا ملے تو مٹھائیاں بانٹ
کرکے اس خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اگر ہمیں اوربھی خوشی ومسرت ملے تو اس
کا بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ اور شریعت میں کسی بھی مسرت اور کسی بھی خوشی کے
ملنے سے جو مشروع طریقہ ہے، جو شریعت میں محمود ذریعہ ہے اور ناجائز نہیں
ہے اس طریقے سے اظہارِ فرحت و مسرت کیا جاسکتا ہے۔آپ کو کوئی خوشی ملتی ہے
تو آپ روزہ رکھ لیں؛اﷲ کا شکرانہ ادا کریں۔ نوافل کی کثرت کریں؛ اﷲ کا شکر
ادا کریں۔ اس نعمت پر اپنے قول، عمل اور رویے سے شکر ادا کریں۔ اپنے دوستوں
کو کھانا کھلائیں؛ ان کی دعوت کریں، غربا و مساکین میں کچھ بانٹ دیں؛بہت
سارے طریقے ہیں مسرتوں کے اظہار کے۔
مختلف خوشیوں کے مواقع پر مسرتوں کے اظہار کے مختلف طریقے بھی ہمیں بتائے
گئے ہیں۔ بیٹاپیدا ہو تو عقیقہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے یہ مسرت کے اظہار
کا ایک ذریعہ ہے۔اسی طرح آپ شادی کرتے ہیں تو ولیمہ کرنے کی تلقین کی گئی
ہے۔ ولیمہ بھی مسرت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی اگر
کوئی مشروع طریقہ ہو، شریعت اس پر قد غن نہ لگاتی ہو، اس کی ممانعت موجود
نہ ہو تو ا سکو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ نے آپ کو بیٹا دیا ہے تو آپ
عقیقہ بھی کریں؛ لیکن آپ مٹھائی بھی بانٹ رہے ہیں ، غربا کو صدقہ و خیرات
بھی کریں، اس خوشی میں آپ کو کسی سے قرض وصول کرناہے تو اسے معاف کردیں۔ اﷲ
نے اولاد دی ہے تو اس خوشی میں اور بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے؛ امرِ خیر کے
زمرے میں آنے والی ہر شئے آپ کرسکتے ہیں۔
تو جب کوئی خوشی ملے، کوئی مسرت ملے تو اس پر اظہارِ فرحت ہونا چاہیے؛ اور
اس کی تلقین کی گئی ہے۔ یہاں فرمایا ہے اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت ملے تو
انہیں خوشی کا اظہار کرنا چاہیے، انہیں فرحت اور مسرت کا اظہار کرنا چاہیے
۔ اورمَیں کہتا ہوں کہ اگر کوئی رحمت ملے تو خوشی کرنی چاہیے؛ اور اگر رحمۃ
للعالمین مل جائے تو……!! کوئی فضل ملے توخوشی کرنی چاہیے …… اور اگر فضلِ
کبیر(صلی اﷲ علیہ وسلم) مل جائے تو!!…… تو حضور علیہ السلام کی صورت میں
ہمارے اوپر جو انعام ہوا؛ مَیں کہتا ہوں ساری زندگی اس پر ہم شکر ادا کرتے
رہیں؛ حقِ شکر پھر بھی ادا نہ ہوگا۔ اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے اتنی بڑی نعمت
ہے ؛ ہمارے وجود بھی حضور کی برکت سے قائم ہیں۔ ہم معرضِ وجود میں نہ آتے
اگر حضور تشریف فرما نہ ہوتے۔ اس کائنات کی علتِ غائی ذاتِ رسالتِ مآب صلی
اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں نے کیا خوب کہا:
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ تمہیں تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو
تو ساری خوشیاں، ساری مسرتیں جو ہمیں میسر ہیں، حاصل ہیں یہ اس نعمتِ کبریٰ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔اس لیے ہم سر سے لے کر پاؤں
تک حضور علیہ السلام کے احسانات کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایک ایک
بال مقروض ہے حضور علیہ السلام کے احسانات کا ۔ تو ساری زندگی بھی اس نعمت
کا شکریہ ادا کرتے رہیں تو حقِ شکر ادا نہ ہوگا۔ہمیں چاہیے کہ بارہ ربیع
الاول کو اور اس کے علاوہ بھی پیر کے دن روزہ رکھنے کی کوشش کریں۔ حضور ہر
پیر کو روزہ رکھتے تھے۔ تو پوچھا گیا حضور آپ ہر پیر کو روزہ رکھتے ہیں؟
قال فیہ ولدت۔ کہا اس میں میری ولادت ہوئی تھی۔ تو کثرتِ نوافل کے ذریعے
بھی اﷲ کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے کہ مالک تُو نے یہ نعمت عطا کی؛ اگر یہ
نعمت نصیب نہ ہوتی تو ہمیں خلعتِ وجود ہی نہ دیا جاتا۔اﷲ کے حضور کثرت کے
ساتھ سجدے کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔
باقی مجالس کے ذریعے حضور کے ذکر کی محافل کا انعقاد کرنا یہ بھی مشروع ہے؛
شریعت اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، حوصلہ شکنی نہیں کرتی؛ بلکہ صحابہ کے
عمل سے، سنت طریقے سے ثابت ہے۔ مختلف کتبِ احادیث میں روایت ہے؛ صحاح میں
بھی ہے؛ حضور ﷺ حجرۂ انور میں تشریف فرما تھے۔ صحابہ مسجدِ نبوی کے ایک
گوشے میں بیٹھ کے مجلس کررہے تھے۔ حضور تشریف لائے۔ اور فرمایا ما اجلسکم؟
صحابہ! کیوں بیٹھے ہو؟ تمہارا مقصدِ جلوس کیا ہے؟ اس جلسے کا انعقاد کیوں
کیا ہے تم نے؟ ما اجلسکم؟ تمہارے اس جلسے کا مقصد کیا ہے؟ تو صحابہ نے جو
جواب دیا سنیے؛ صحابہ نے عرض کی جلسنا نشکر اﷲ و نحمدہ علی ما ہدانا
للاسلام و من علینا بک۔ ہمارے بیٹھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی حمد
بیان کررہے ہیں، اس کا شکر ادا کررہے ہیں اس بات پر کہ اس نے ہمیں ہدایتِ
اسلام دی ہے اور آپ کی صورت میں ہمارے اوپراحسان کیا ہے۔ و منا علینا بک۔
آپ کی صورت میں ہمارے اوپر احسان کیا…… حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی الگ سے بولی سننا چاہو تو ان کے لفظ یہ ہیں من علینا ربُنا انبعث
فینا محمداً صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے رب نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے کہ ہمیں
حضور عطا کردیا ہے۔اور اگر اس کا منظوم ترجمہ کرنا چاہو تو وہ یہ ہے کہ
فضلِ رب العلیٰ اور کیا چاہیے
مل گئے مصطفی اور کیا چاہیے
منا علینا ربُنا انبعث فینا محمداً صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے رب نے ہمارے
اوپر احسان کیا ہے کہ ہمیں حضور عطا کیا۔ اور صحابہ نے کہا: حضور ہم اس لیے
بیٹھے ہیں کہ اﷲ کا شکر ادا کریں اور اس کی حمد بولیں اس بات پر کہ اس نے
ہمیں ہدایتِ اسلام دی اور آپ کی صورت میں ہمارے اوپر احسان فرمایا…… بات تو
سادی سی تھی۔ حضور خوش ہوکر چلے جاتے ؛ لیکن حضور رک گئے۔ حضور نے فرمایا:
صحابہ! کیا تم اس بات پہ قسم دیتے ہو کہ تم اسی لیے بیٹھے ہو؟ تمہارے
بیٹھنے کا مقصود یہی ہے کوئی اور غرض نہیں ہے؟ تو صحابہ نے بر جستہ عرض کی
یا رسول اﷲ! قسم دیتے ہیں کہ ہم اسی لیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے بیٹھنے کا کوئی
اور مقصود نہیں ہے…… بات تو سادہ سی تھی لیکن حضور نے قسم مانگ لی۔ صحابہ
نے برجستہ عرض کی کہ حضورہم قسم دیتے ہیں؛ ایک ایک شخص نے قسم دی ؛ حضور ہم
اﷲ کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ ہم اسی مقصد کے لیے بیٹھے ہیں ہمارے بیٹھنے
کا کوئی اور مقصود نہیں ہے ۔ جب حضور نے ان سے قسم لے لی اور انہوں نے قسم
دے دی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا صحابہ! مَیں نے تم سے جو قسم لی ہے؛
یہ کسی تہمت کی بنیاد پر نہیں لی؛ تمہارے قول کی صداقت پہ مجھے کوئی شک
نہیں تھا کہ مَیں نے قسم سے تصدیق چاہی ہو؛ بلکہ ماجرا کچھ اور تھا اور وہ
یہ کہ تم یہاں تھے اورمَیں حجرے میں تھا اتانی جبریل علیہ السلام ۔ میرے
پاس جبریل امین حاضر ہوئے فاخبرنی ان اﷲ یباھی بکم الملائکہ۔ اور انہوں نے
مجھے آکر خبر تھی کہ اے پیارے محبوب! آپ کے صحابہ کے اس عمل پر اﷲ فرشتوں
میں فخر کررہا ہے۔ آپ کے صحابہ کے اس عمل پر اﷲ فرشتوں میں ناز کررہا ہے……
عمل کون سا ہے؟ …… صحابہ ’’مل بیٹھ‘‘ کر اﷲ کا شکر ادا کررہے ہیں اس بات پر
کہ ہمیں اسلام ملا اور حضور ملے۔ اور اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ کے فرشتے حضرت
جبریل علیہ السلام نے حضور کو آکے رب کا پیغام دیا کہ اﷲ تعالیٰ اس بات پہ
ناز کرہا ہے کہ ان کو نعمت دی گئی اور یہ کتنے شکر گذار ہیں کہ آج بھی بیٹھ
کر نعمت کا شکر ادا کررہے ہیں…… مجھے بتاؤ کہ اگر حضور کی آمد کے سلسلے میں
اس خوشی اور مسرت میں اس شکرانے میں اﷲ کی حمد بیان کرے اور اﷲ کا شکر ادا
کرے اورحضورکے فضائل و مناقب بیان کریں تو اس میں کیا حرج ہوسکتا ہے؟ یہ تو
شریعت کا مقصود ہے، یہ تو شریعت کا تقاضہ ہے حضور کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے
جو انعام دیا اس کا ذکر کرنا۔ اور پھر میرے اور آپ کی آقا و مولیٰ نے مختلف
مجالس کے اندر، مختلف مواقع پہ حضور نے اپنے بارے میں صحابہ کو آگہی دی۔
بلکہ کبھی پوچھا صحابہ سے کہ من انا؟ مَیں کون ہوں؟ پھر حضور نے خود اپنے
فضائل و مناقب بیان فرمائے کہ مَیں ان شانوں کا مالک ہوں، یہ رفعتیں مجھے
دی گئی ہیں ، یہ مقاماتِ رفیعہ مجھے نصیب کیے گئے ہیں، مجھے یہ اعزازات و
تکریمات بخشی گئی ہیں۔ تو حضور علیہ السلام کے ذکر کی محافل انعقاد کرنا
مجالس کا انعقاد کرنا یہ شروع سے اہلِ اسلام میں مشروع رہا ہے۔
(ماخوذ: افاداتِ مصطفائی] زیر ترتیب[) |
|