لہجے
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
"عینی بیٹا یہاں اتنی سردی میں کیوں کیوں بیٹھی
ہو"
وہ عفان سے ٹیکسٹنگ میں مصروف تھی جب اسے صحن میں بیٹھے دیکھ کر اماں نے
فکرمندی سے پوچھا عشاء کی اذان
ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا
وہ اسے اس وقت
اکیلے صحن میں بیٹھنے سے منع کرتی تھیں-
"افوہ اماں کیا جہالت
ہے میں اپنے گھر میں بھی آزادی سے نہیں بیٹھ سکتی اس
پہ بھی آپ کے شکوک و شبہات اور سوال جواب شروع
ہو جاتے ہیں-"
اپنے مشغلے میں انکامخل
ہونا اسے سخت قبیدہ خاطر گزرا تھا جس پر
وہ بدتمیزی
سے چلائی یہ دیکھے بغیر
کہ اسکی اس بات سے ایک تاریک
سایہ اماں کے چہرے
پہ
لہرایا تھا وہ خاموشی سے اندر چلی گئیں-
***★★★***
"عینی تم اس وقت یہاں بیٹھی کیا کررہی
ہو-"
وقت بھی تقریبأ وہی تھا اور انسان بھی وہی جس سے
وہ گھنٹوں فون پہ باتیں
کیا کرتی تھی مگر
جگہ بدل چکی تھی -
وہ لان میں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے
نجانے کن سوچوں میں کھوئی تھی جب عفان کی آؤاز نے اسے چو نکایا اس نے سر
اٹھا کر اپنے شریک سفر کو دیکھا ان آنکھوں میں شک کے بہت سارے رنگ نظر آرہے
تھے لفظ تو وہی تھے جو
وہ کسی اور سے بھی سنا کرتی تھی مگرلہجہ مختلف تھا
اور ان میں فکرمندی مفقود تھی اس کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھااپنی کہی کچھ
تلخ باتیں یاد آئیں مگر
وہ چپ چاپ گھر کا اندرونی
دروازہ عبور کر گئی بس اس
سسکی سی اسکے لبوں سے آزاد
ہوئی تھی-
"اماں----"
***★★★*** |
|