ہند میں گذشتہ کچھ وقت سے بار بار طلاق کے
حوالے سے مسلم پرسنل لا(Muslim personal law) اور اس کی حفاظت میں سرگرم
بورڈ کونشانہ بنایا جا رہا ہے ، جب کہ اس میں کسی ترمیم و ردّ بدل کی
گنجائش ہے نہ ضرورت۔ان حالات میں یہ نہایت خوش آیند ہے کہ مسلمانوں کے تمام
مسالک‘ سنّی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث وغیرہ باوجود بعض اختلاف
کے ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں، خدا اس اتحاد کو نظرِ بد اور
شریروں کی شرارتوں سے محفوظ رکھے ۔ اعظمی صاحب کا کہنا درست ہے کہ ’ملک
کاآئین ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے ، لہٰذا یہ
کہناسراسرغلط ہے کہ کوئی بھی پرسنل لاملک کے آئین سے اونچانہیں اورہم اس
فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ 1949ء سے اب تک ملک
کے آئین میں کتنے پیوند لگ چکے ہیں اورکتنی مرتبہ اس میں ترمیم کی جاچکی ہے
، لہٰذا جو آئین خودترمیم کامحتاج ہو وہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کافیصلہ
کس طرح کر سکتا ہے ۔رہا سوال مسلم پرسنل لا کاتوہماراآئین چودہ سوسال سے
اسی طرح موجودہے ‘ جس طرح پیغمبرِاسلام کے وقت تھا۔ہم کسی بھی طرح اپنے
پرسنل لا کوچھوڑنہیں سکتے چاہے ، ہماری جان چلی جائے ، ہم خود کو ا س سے
الگ نہیں کر سکتے ۔‘ نیز یہ کسی فردِ واحد کا نہیں بلکہ ہر سچّے ہندوستانی
مسلمان کا عزم ہے ،جسے کوئی متزلزل نہیں کر سکتا۔
ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہندوستانی جمہوریت میں ’مسلم پرسنل لا ‘کے حوالے سے
مسلمان اپنے جس حق کی مانگ کر رہے ہیں، یہ حق خود دستور و آئین کا عطا کردہ
ہے ،اس لیے کہ دستور(دفعہ 25) میں اس بات کی مکمل وضاحت موجود ہے کہ ہرشہری
کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی، اس کے باوجود جس بات کو دین
و شریعت حرام قرار دے ‘ اسے مسلمانوں پر تھوپنے کی جبراً کوشش کرنا ‘ صرف
مسلم پرسنل لا کی نہیں بلکہ ہمارے مذہب اور دستورِ ہند کی بھی مخالفت ہے ۔
ہم اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ عدلیہ
کا کام قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے ، قانون بدلنا یا بنانا نہیں۔ بنا
بریں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے طلاق سے متعلق حالیہ فیصلے ؍بیان پر سرِ تسلیم
خم نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں، اس لیے کہ ابھی
عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آنا بھی باقی ہے ۔ ان حالات میں طاہر محمود اور وہ
چند سیاسی افراد‘ اس فیصلے کو لے کر جن کی بانچھیں کھلی ہوئی ہیں، مسلم
پرسنل لا بورڈ کے حامی مسلمانوں کو تلقین کر رہے ہیں کہ اس فیصلے پر مشتعل
ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں
مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ، اس لیے
انھیں نصیحت کرنے کی آپ جیسوں کو کوئی ضرورت نہیں۔
اطلاعات کے مطابق الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بلند شہر کی حنا اور عمربی نامی
مسلم خواتین کی طرف سے طلاقِ ثلاثہ کے خلاف داخل کردہ درخواستوں پر شنوائی
کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین طلاق مسلم عورتوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی پر
مبنی ہے او ریہ اسلامی قانون غلط اثرات ڈال رہا ہے ، کوئی بھی پرسنل لا
دستورِ ہند سے ا وپر نہیں ہے ۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کورٹ کے مطابق
پرسنل لا آئین کے ذریعے دیے گئے اختیارات کے اوپر نہیں ہو سکتا، حال آں کہ
شادی اور طلاق کے جائز اور ناجائز ہونے پر عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔
خیر اس تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم یہ عرض کریں گے کہ ہائی کورٹ کے اس طرح
کے فیصلے محض ایک جج کی ذاتی رائے سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے ۔ہم عدالتوں کا
احترام کرتے ہیں، لیکن چوں کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے ، اس
لیے نچلی عدالتوں کی طرف سے اس طرح کے بیانات ان حالات میں آخری بات قرار
نہیں دیے جا سکتے ، اور جب کہ ہائی کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی
پرسنل لا دستورِ ہند سے ا وپر نہیں‘تو ہم عرض کر دیں کہ مسلم پرسنل لا خود
دستورِ ہند کے مطابق ہے ‘ مخالف نہیں، اس لیے کور ٹ کایہ فرمان خود دستورِ
ہند میں فراہم کردہ رعایت وآزادی کے مخالف ٹھہرا، کیوں کہ مسلم پرسنل لا
بورڈ اور دیگر نمائندہ جماعتیں اس بابت سپریم کورٹ میں حلف نامہ اورگورنمنٹ
آف انڈیا کے حلف نامے کاجواب داخل کر چکی ہیں۔جہاں تک تین طلاق کے غلط
استعمال کا سوال ہے ‘یہ مانا کہ بہت سے لوگ اس معاملے میں غلطی کا شکار ہیں،
لیکن یہ مذہب و ملت کا اندرونی مسئلہ ہے اور یہ کورٹ کی اس طرح کے فیصلے اس
مسئلے کا حل نہیں ہو سکتے ۔ نیز جو معدودے چند مسلمان اس وقت مسلم پرسنل لا
بورڈ کی مخالفت کر رہے ہیں، انھیں اپنے دین و مذہب کا گہرائی و گیرائی سے
مطالعہ کرنے اور جو بلا وجہ یا غلط طریقے سے طلاق دے کر جگ ہنسائی کا باعث
بنے ہوئے ہیں‘ انھیں اپنی اصلاح کی شدید ضرورت ہے ، لیکن اس سب کے باوجود
پرسنل لا میں چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ورنہ آج آپ طلاق کے مسائل
میں دخل دے رہے ہیں، کل انگلی پکڑ کر پہنچا پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اگر
کہنے لگیں کہ مسلمان بھی ہندوؤں کی طرح مندر میں، یا ایجاب و قبول کے بہ
جائے ور مالا، سندور اور منگل سوتر وغیرہ کے ذریعے شادی بیاہ کریں یا میت
کو دفنانے کے بہ جائے چتا میں لٹا کر پھونک دے ، تو ظاہر ہے اسے کوئی ادنیٰ
درجے کا مسلمان بھی برداشت نہیں کر سکے گا۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ شہری،
عدلیہ اور مقننہ سب اپنے حقوق و حدود کا لحاظ رکھیں، تب ہی ملک کا نظام
بہتر طریقے پر جاری رہ سکے گا۔ |