ضلع بھکر کا شمار پنجاب کے پسماندہ ترین
اضلاع میں ہوتا ہے ، بھکر سے شروع ہونے والی پٹی لیہ، مظفر گڑھ ، راجن پور
، رحیم یار خان تک چلی جاتی ہے ، دریائے سندھ کے کناروں کے ساتھ آباد ان
اضلاع میں غربت اور بے روزگاری کی شرح پنجاب کے دیگر اضلاع کی نسبت زیادہ
ہے۔ تخت لاہور اپنے تمام تر ذرائع میٹرو بس ، اورنج ٹرینوں پر لگانے میں
مصروف ہے تو یہاں کے عوام ایک وقت کی روٹی کی لیے ترس رہے ہیں۔ تحصیل
منکیرہ کے کئی دیہات اب بھی ایسے ہیں جہاں بجلی اور پختہ سڑک تک موجود نہ
ہے ، لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ رہی سہی کسر اب
قطری شہزادوں نے پوری کردی ہے ، شکار کے بہانے یہاں کے مقامی کسانوں کی
کھڑی فصلیں اجاڑی جارہی ہیں۔مجھے ماہنی، حیدر آباد ، مکھنی، کھیوہ،
یاراسلحہ، پٹی بلندہ ، لتن، وگ صدر، لرا، پکہ، کارلووالا، نورنگ والا،
کپاہی، گوہر والا، رکھ موجھ گڑھ، اور دیگر دور دراز علاقہ جات جانے کا
اتفاق ہوا، تھل کے ریگستانوں میں بسنے والے غریب عوام صبح سے شام تک جنگلوں
، کھیتوں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریت کے ٹیلوں پر موجود ’’ پھوگ ‘‘
کے کھیت ، جنڈ، بوئیاں، کھاوی، رَت پُھلی ، ون ویڑی سمیت ایسی گھاس پھوس
اور خود رو پودے موجود ہیں جو نہ صرف مویشیوں کے چارہ کے لیے استعمال ہوتے
ہیں بلکہ ان کی لکڑی اور دیسی ادویات بھی بنائی جاتی ہیں۔موسم گرما میں تھل
کے ٹیلوں پر آپ کو ہر سو خربوزہ کی خوشبوپھیلی ملے گی، ریت کے ٹیلوں سے
اٹھنے والی بھاپ کا نظارہ بھی کچھ دیدنی ہوتا ہے ، یہ سارے علاقے میرے
دیکھے ہوئے ہیں اور میرے قدموں کی چاپ کے گواہ ہیں۔ ان علاقوں کی شدید
پسماندگی اور غربت نے ہمیشہ میرا دل دکھ سے بھر دیا، جب بھی ان علاقوں میں
گیا پہلے سے زیادہ دکھی ہو کر لوٹا۔ میلوں تک بے آب و گیاہ گرم تپتے صحرا'
ان میں کہیں کہیں گھاس پھوس سے بنی جھونپڑیوں کی بستیاں، کچے مکان اوران
میں معلوم نہیں کس طرح زندہ رہنے والی مخلوق! میں انہی علاقوں میں بعض
سلطان ابن سلطان قسم کے وڈیروں، ملکوں، چٹ پوشوں کے عالی شان محلات کی بات
نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان لاکھوں بے بس مجبور افراد کی بات کرنا چاہتا ہوں ،
یہاں ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں جو نہ تو کبھی شہروں میں آئی ہیں اور نہ ہی
ان کے لیے حکومت کی طرف سے تعلیم اور صحت کا بندوبست کیا گیا ، ایک بزرگ
عورت چند روز قبل شناختی کارڈ بنوانے کی غرض سے بھکر آئی ہوئی تھی، اس کے
شوہر’’ چاچا بخشو ‘‘ جس کی عمر کم و پیش 65 سال کے قریب تھی نے بتایا کہ اس
کی بیوی پہلی بار بھکر آئی ہے ، اور شہر میں بسیں، کاریں، سڑکات اور دیگر
سہولیات کے ساتھ ساتھ نادرا آفس دیکھ کر دنگ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی
سہولیات تو ہیں لیکن ہمارے گاؤں میں کیوں نہیں ہیں؟ وہ حیران ہے کہ یہ سارے
علاقے میرے عظیم دیس کے ہیں ، صدیوں سے اس طرح چلے آرہے ہیں، اور ہم جیسے
لوگ صدیوں سے مٹی کے ٹیلوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چاچا بخشو
نے بتایا کہ پچھلے 62 برسوں میں یہ وڈیرے انگریزوں کی غلامی اور ان کی قدم
بوسی سے آزاد ہوئے تو پہلے سے زیادہ جابر اور ظالم بن گئے! یہاں کے زیادہ
تر لوگ سرائیکی بولتے ہیں ، جھنگ لہجہ سے ملتی جلتی سرائیکی نہایت میٹھی
اور نرم زبان ہے۔
تھل دھرتی پر ان دنوں قطری شہزادوں کا راج ہے، حکومتی سرپرستی میں شکار
کرنے والے شکاریوں کی نظر یں آسمان پر لگی ہیں کہ کہاں سے انہیں شکار کے
لیے کوئی ’’ کونج ‘‘ نظر آجائے ، مگر انہیں یہ احساس تک نہیں کہ وہ کس بے
دردی سے یہاں پر بسنے والی مخلوق خدا کو روند رہے ہیں، ان قطری شہزادوں نے
شکار کے بہانے دو ہزار ایکڑ سے زائد چنے کی فصل اجاڑ کر رکھ دی ہے۔ وفاقی
حکومت نے عرب شہزادوں کے ساتھ روایتی دوستی نبھا کے نایاب پرندے ہوبارا
بسٹرڈ کے شکار کے لیے خصوصی اجازت نامے جاری کردیے ہیں جبکہ خود پاکستانی
عوام اس کے شکار سے محروم ہیں، یہ شکار عالمی تحفظ پرندہ کے منافی اقدام
ہے۔ شکار کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے جن لوگوں کو اجازت نامے جاری کیے
گئے ہیں ان میں قطری شہزاہ شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی بھی شامل ہیں۔
یہ وہ قطری شہزادہ ہیں جن کی باز گشت پچھلے کئی دنوں سے سپریم کورٹ میں
جاری پاناما لیکس کے حوالے سے لیا جارہا ہے۔ تھل کے ریگستانوں میں پر
کھلائے چلنے والے پرندے کونج کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ متعدد
بین الاقوامی کنونشنز اور سمجھوتوں کے تحت معدومیت کے خطرے سے دوچار پرندوں
کی فہرست میں شامل ہے اور پاکستان ان کا دستخطی ہے۔ اس کے علاوہ ان پرندوں
کے شکار پر جنگلی حیات کے تحفظ کے مقامی قانون کے تحت بھی پابندی ہے،
پاکستانی شہریوں کو ان پرندوں کے شکار کی اجازت نہیں تاہم زیادہ تر عرب
شکاری انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شہزادہ حماد کے شکار کے لیے جو
علاقے مختص کیے گئے ہیں ان میں پنجاب کے ضلع بھکر اور جھنگ شامل ہیں اور
انہیں 10 روز میں 100 پرندوں کا شکار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔قطری سفارت
خانے کو بھیجے جانے والے خط ( ڈی سی پی ، پی اینڈ آئی 19-6-2016/17 )
ایلوکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس
بات کا اظہار کرتے ہوئے اعزاز محسوس کررہی ہے کہ حکومت پاکستان نے متعلقہ
حکام کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ قطر کے سابق وزیر اعظم شہزادہ حماد بن
جاسم بن جابر الثانی کو ہوبارابسٹرڈ ( کونج ) کے شکار کے سیزن 2016-17 ء کے
لیے بھکر اور جھنگ کے اضلاع مختص کردیے جائیں ۔ ‘‘ وزارت خارجہ کی طرف سے
ارسال کردہ خط کے ساتھ شکار کے لیے ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا گیا ہے کہ تین
ماہ پر مشتمل شکار کا موسم یکم نومبر کو شروع ہوگا اور 31 جنوری 2017 تک
جاری رہے گا۔ ذرائع کے مطابق اجازت نامے کی کاپیاں متعدد سرکاری افسران کو
بھجوا دی گئی ہیں، جن میں وائلڈ لائف ، جنگلات و دیگر محکمہ جات شامل ہیں۔
کچے مکانوں میں بسنے والے یہاں کے باسیوں کے لیے سال بھر اکلوتی اور بارانی
فصل چنا جوکہ تھل کے ریگستانوں میں بارش ہونے پر اگتی ہے ، اب جب تھل میں
بارش نہ ہونے سے فصل کے کم ہونے کے خدشات منڈلا رہے تھے ، ایسے میں قطری
شہزادوں کا فصلوں میں شکار اور بھاری بھرکم گاڑیوں کے ساتھ فصلوں کو روندتے
چلے جانا ، ریاست پاکستان میں بسنے والے ان غریبوں کے حق پر سرعام ڈاکہ
ڈالنے کے مترادف ہے۔ علاقہ ماہنی کے مکینوں نے تمام تر حکومتی مشینری کے
دباؤ کے باوجود اپنے حق کے لیے احتجاج کیا تو ضلعی پولیس کے چاق و چوبند
دستے اُن پر ٹوٹ پڑے، ڈنڈوں سے اُن کے جسموں کو لہولہان کردیا، قطری
شہزادوں کے کیمپ کے سامنے احتجاج کرنا گویا کہ اُن کا بہت بڑا جرم قرار دیا
گیا ، اپنی ہی زمینوں اور فصلوں پر جانے والوں کے خلاف مقدمات کے اندراج کی
دھمکیاں دی جارہی ہیں، تھل کے لوگ اپنے گھروں میں قید ہوگئے ہیں، انہیں 31
جنوری 2017ء تک اپنے کھیتوں میں جانے ، فصلوں کو پانی لگانے ، چارا کاٹنے
کی اجازت نہ ہے ، اور جہاں پر قطری شہزادوں نے ڈیرے لگائے ہیں وہاں سے
کوسوں دور کسی کو جانے ہی نہیں دیا جاتا، کوئی مریض مرتا ہے تو مر جائے ،
شکاری شہزادوں کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو، حیرت کی بات ہے کہ یہاں کے
عوامی نمائندے بھی نہ جانے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوچکے ہیں ، وہ یہاں کے
عوام سے زیادہ قطری شہزادوں کے ہمنواء نظر آتے ہیں۔
تھل کے ریگستانوں میں بسنے والے ایک نڈر اور دلیر وکیل ملک ممتاز حسین سگو
نے بازور ہمت عدالت سے رجوع کیا اور ان شہزادوں کے شکار کے خلاف حکم
امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، بظاہر تو یہ بہت بڑی کامیابی تھی مگر
اُن پر ضلعی پولیس کی طرف سے جس ری ایکشن کا سامنا کرنا پڑا ، وہ اُس کے
وہم و گماں میں بھی نہ تھا، پولیس اور شہزادوں کا قافلہ سگو صاحب کے ڈیرہ
پر چڑھ دوڑا ، اور وہاں پر موجود مرد و زن کے ساتھ بدتمیزی کی ، گھر میں
توڑ پھوڑ کہ کہیں کوئی کونج یہاں نہ چھپی ہو، اور دوسرا یہ بدلہ بھی لیا کہ
وکیل صاحب نے اُن کے شاہی مہمانوں کے شکار کے خلاف حکم امتناعی کیوں حاصل
کیا؟؟ ستم بالائے ستم پولیس نے نہ صرف سگو صاحب کے گھر کا کھیراؤ کیے رکھا
بلکہ وہاں پر احتجاج کرنے والے مقامی افراد پر لاٹھیاں بھی برسائیں۔ مقامی
افراد کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے ہی گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا جارہا
ہے، وہ 31 جنوری 2017ء تک اپنا کوئی کام نہیں کرسکتے ، فصلوں کی دیکھ بھال
اور نہ ہی مویشیوں کا چارہ لاسکتے ہیں، قطری شہزادوں میں پاناما لیکس میں
حکمرانوں کے حق میں خط پیش کرکے اُن کے دل تو جیت لیے مگر تھل کے عوام کے
لیے مسلسل پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہاں کے باسی اپنی ہی ریاست میں ،
اپنے ہی علاقہ میں اپنے حق سے محروم ہورہے ہیں۔ تھل میں بسنے والے لوگوں
میں حکمران جماعت اور شکار کے خلاف نفرتوں کا لاوا بڑی آب و تاب سے تیار
ہورہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ، ایسے میں تخت لاہور کے حکمرانوں اور
ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے یہاں کے مقامی
افراد کے نقصان کا ازالہ کریں اور ان کے دکھوں کا مداوا بنیں ۔ |