منسوباتِ بارگاہِ نبوی کی شان وعظمت کا اجمالی تعارف
(Ata Ur Rehman Noori, India)
اﷲ عزوجل نے نبی اکرم نورِ مجسمﷺ کو تمام
اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا۔ اسی طرح جمالِ صورت میں
بھی یکتا و بے نظیر بنایا۔ صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین خلوت و
جلوت، سفر و حضر میں جمالِ جہاں آرا کو دیکھتے رہے، انہوں نے حبیب پاک ﷺکے
فضل و کمال کی جو تصویر کشی کی ہے اسے سن کر یہی کہنا پڑتا ہے
کوئی تجھ سا ہواہے نہ ہوگا شہا
حضورﷺ کے محافظین
کفار حضور اقدس ﷺ کے جانی دشمن تھے اور ہر وقت اس تاک میں لگے رہتے تھے کہ
ذرا بھی موقع مل جائے تو آپ کو شہید کر ڈالیں۔ بلکہ بار ہا قاتلانہ حملہ
بھی کر چکے تھے۔ اس لئے کچھ جاں نثار صحابہ کرام باری باری سے راتوں کو آپ
کی مختلف خوابگاہوں اور قیام گاہوں کا شمشیر بکف ہو کر پہرہ دیا کرتے تھے۔
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب کہ یہ آیت نازل ہوگئی کہ واﷲ یعصمک من
الناس ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ اس آیت کے نزول کے بعد
آپﷺ نے فرما دیا کہ اب پہرہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے
وعدہ فرما لیا ہے کہ وہ مجھ کو میرے تمام دشمنوں سے بچائے گا۔ ان جاں نثار
پہرہ داروں میں چند خوش نصیب صحابہ کرام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں، جن
کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔(۱) حضرت ابو بکر صدیق(۲) حضرت سعد بن معاذ
انصاری(۳) حضرت محمد بن مسلمہ(۴) حضرت ذکوان بن عبداﷲ(۵) حضرت زبیر بن
العوام(۶) حضرت سعد بن ابی وقاص(۷) حضرت عباد بن بشر(۸) حضرت ابو ایوب
انصاری(۹) حضرت بلال(۱۰) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنھم۔
کاتبین وحی
جو صحابہ کرام قرآن کی نازل ہونے والی آیتوں اور دوسری خاص خاص تحریروں کو
حضور اقدس ﷺ کے حکم کے مطابق لکھا کرتے تھے ان معتمد کاتبوں میں خاص طور پر
مندرج ذیل حضرات قابل ذکر ہیں۔(۱) حضرت ابو بکر صدیق (۲) حضرت عمر فاروق(۳)
حضرت عثمان غنی(۴) حضرت علی مرتضیٰ(۵) حضرت طلحہ بن عبیداﷲ (۶) حضرت سعد بن
ابی وقاص(۷)حضرت زبیر بن العوام (۸) حضرت عامر بن فہیرہ (۹) حضرت ثابت بن
قیس(۱۰) حضرت حنظلہ بن زبیر(۱۱) حضرت زید بن ثابت(۱۲) حضرت ابی بن کعب(۱۳)
حضرت امیر معاویہ(۱۴) حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہم اجمعین۔
دربار نبوت کے شعراء
یوں تو بہت سے صحابہ کرام حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدح وثناء میں
قصائد لکھنے کی سعادت سے سرفراز ہو ئے مگر در بار نبوی کے مخصوص شعراء کرام
تین ہیں جو نعت گوئی کے ساتھ ساتھ کفار کے شاعرانہ حملوں کا اپنے قصائد کے
ذریعہ دندان شکن جواب بھی دیا کرتے تھے ۔
(۱) دربار رسالت کے شعراء کرام میں سب سے زیادہ مشہور حضرت حسان بن ثابت بن
منذر بن عمرو انصاری خزرجی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ’’ یا اﷲ ! حضرت جبرئیل کے ذریعے ان کی مدد
فرما‘‘۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ’ جب تک یہ میری طرف سے کفار مکہ کو اپنا
جواب اشعار کے ذریعے دیتے رہیں اس وقت تک حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے
ساتھ رہا کرتے ہیں‘‘۔ایک سو بیس سال کی عمر پاکر 54 ھ میں وفات پائی ۔ساٹھ
سال کی عمر دورجاہلیت میں گذاری اور ساٹھ برس کی عمر خدمت اسلام میں صرف کی
۔یہ ایک تاریخی لطیفہ ہے کہ ان کی اور ان کے والد’ ثابت‘ اور ان کے دادا’’
منذر‘‘ اور نگر دادا ’’حرام‘‘ سب کی عمر ایک سو بیس برس کی ہو ئیں ۔
(۲) حضرت کعب بن مالک انصاری سلمیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو جنگ تبوک میں شریک
نہ ہونے کی وجہ سے معتوب ہو ئے ۔مگر پھر ان کی توبہ کی مقبولیت قرآن مجید
میں نازل ہوئی۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگوں سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ تم لوگ مشرکین کی ہجو کرو کیونکہ مومن اپنی جان اور مال سے جہاد
کرتا رہتا ہے او ر تمھارے اشعار گویا کفار کے حق میں تیروں کی مار کے برابر
ہیں۔
(۳)دوسرے حضرت عبداﷲ بن رواحہ انصاری خزر جی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کے
فضائل ومنا قب میں چند احادیث بھی ہیں۔ حضور اقدس ﷺنے ان کو’’ سید الشعراء
‘‘کا لقب عطا فرمایا تھا ۔یہ جنگ موتہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے ۔
حضور ﷺ کے جھنڈے
سرور عالم ﷺ کا ایک بڑا جھنڈا تھا جو سفید تھا اور اس پر لکھا تھا’’ لا الہ
اﷲ محمد رسول اﷲ ﷺ۔دوسرا پرچم سیاہ تھا اورتیسرا جھنڈا خاکی رنگ کا تھا۔
سیاہ رنگ کا جھنڈا صوف کے کپڑے سے بنایا گیا تھا، جسے عقاب کہا جاتا تھا۔
ایک جھنڈا زردرنگ کا تھا اورایک جھنڈے کو’’ خمیصہ‘‘ کہا جاتا تھا ۔حضور ﷺ
نے ایک کمبل کا ٹکڑا نکالا اس کی رنگت کالی تھی، اسے نیزے سے باندھا ،پھر
اس نیزے کو حرکت دی اورفرمایا کہ کون ہے جو اس نیزے کو اس شرط پر لے کہ اس
کا حق ادا کر ے گا ؟اس شرط کے با عث مسلمانوں پر خوف طاری ہوا کو ئی آگے نہ
بڑھا ،آخر ایک آدمی آگے بڑھا عرض کی :میں اس شرط پر یہ نیزہ لیتا ہوں کہ
میں اس کاحق ادا کروں گا، ارشاد فرمائیے اس کا کیا حق ہے ؟فرمایا: اس کا حق
یہ ہے دشمن پر حملہ کرتے ہو ئے آگے بڑھا جائے اور کسی کافر کی طرف پیٹھ کر
کے پسپائی اختیار نہیں کی جائے ۔
گھوڑے پر سواری کا طریقہ
حضرت عبداﷲ بن جعفر سے مروی ہے حضور ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو اہل
بیت نبوت کے بچے استقبال کیلئے حاضر ہوتے۔ ایک دفعہ حضور ﷺ تشریف لائیں،
میں ان بچوں میں سب سے آگے تھا۔ حضور ﷺ نے مجھے اٹھایا اور مجھے آگے بٹھا
لیا۔ پھر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کے صاحبزادے آئے ان کو پیچھے
بٹھالیا۔ ایک گھوڑے پر تین سوار ہو کر مدینہ میں داخل ہوئے۔ایک دفعہ حضور ﷺ
سفر سے تشریف لائیں تو حضرت جعفر کے صاحبزادے عبداﷲ اور سیدنا علی کے
صاحبزادے امام حسین استقبال کیلئے حاضر تھے۔ ان میں بڑے کو پیٹھ کے پیچھے
بٹھایا اور چھوٹے کو آگے بٹھایا۔ ایک دفعہ حضور ﷺ تشریف لائیں تو حضرت قثم
کو آگے اور فضل کو پیچھے بٹھایا۔پچاس آدمی وہ تھے جن کو حضور ﷺ کے ساتھ
سوار ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
سفر پر جانے کیلئے پسندیدہ دن
حضور ﷺ سفر پر روانہ ہونے کیلئے جمعرات کا دن پسند فرماتے تھے۔ غزوہ تبوک
پر روانگی بھی جمعرات کے روز ہوئی۔ حضور ﷺ اپنا وفدجمعرات ہی کو باہر روانہ
فرماتے۔ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہحضور ﷺ سفر کے لئے جمعرات
کا دن پسند فرماتے۔رحمت عالم ﷺ جب سفر پر جانے کیلئے اونٹ پر سوار ہوتے وقت
اﷲ تعالیٰ کی حمد کرتے، تسبیح بیان فرماتے، تین تین بار تکبیر کہتے۔پھر یہ
دعا بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے:اے اﷲ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی کی،
پر ہیزگاری کی اور جو عمل تجھے پسند ہو اس کی درخواست کرتے ہیں، اے اﷲ!تو
ہمارا یہ سفر ہم پر آسان کردے اور اس کی دور دراز کی مسافت کو طے کر دے، اے
اﷲ! تو ہی سفر میں ہمارا رفیق ہے اور گھر بار میں ہمارا قائم مقام ہے۔ اے
اﷲ!میں سفر کی سختیوں سے سفر کے تکلیف دہ منظر سے اور بیوی بچوں اور مال
ومتاع میں تکلیف دہ واپسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔جب سفر سے واپس
تشریفلاتے ،اس وقت پہلے یہ دعا دہراتے اور اس میں چند کلمات کا اضافہ
فرماتے۔ اس کے علاوہ سفر کیلئے اور دعائیں بھی کتب سیرت میں مذکورہ
ہیں۔حضور سرور عالم ﷺ اور حضور ﷺکے لشکر جب کسی اونچے ٹیلے پر چڑھتے تو اﷲ
اکبر کہتے۔اگر بھیڑ ہوتی تو حضور ﷺ اپنی سواری کے جانور کو آہستہ چلاتے اور
جب کھلی جگہ آتی توکچھ تیز چلتے۔
نشست وبرخاست کی ادائیں
حضور سرور عالمﷺ جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وہاں
بیٹھ جاتے اور اپنے صحابہ کو بھی یہی حکم دیا کرتے تھے ۔(۱)قرفضاء:بیٹھنے
کی ایک خاص ہیئت ہے، جس میں انسان اپنے پیر پر بیٹھتا ہے اور رانوں کو
پنڈلیوں سے ملا دیتا ہے۔ حضرت مخرمہ کی صاحبزادی فرماتی ہیں کہ میں نے حضور
ﷺ کو اپنے پیروں پر بیٹھے دیکھا ۔(۲) تربع ( چار زانو بیٹھنا ):حضرت حنظلہ
بن خزیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوا تو حضور ﷺ چار زانو ہو کر بیٹھے ہیں۔ حضرت جابر سے مروی ہے کہ صبح کی
نماز ادا کر نے کے بعد حضور ﷺ چار زانو ہو کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج
طلوع ہوتا ۔(۳)احتباء : انسان اپنے گھٹنوں کو کھڑا کر کے انہیں اپنے دونوں
ہاتھوں سے گھیر لے ۔حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے آقا علیہ
الصلوۃ کو کعبہ شریف کے صحن میں دیکھا کہ حضور ﷺ احتباء کی صورت میں تشریف
فرما تھے ۔
ناپسندیدہ سبزیاں اور گوشت
وہ تر کاریاں جن سے بو آتی ہیں ان ہیں حضورﷺپسندنہیں فرماتے۔ مثلاً: پیاز،
لہسن اور گندنا وغیرہ۔ اس کی وجہ سرکار دو عالم ﷺنے خود بیان فرمائی،
فرمایا :کیو نکہ فرشتوں کی میرے پاس آمدورفت رہتی اور حضرت جبرئیل علیہ
السلام سے ہم کلام ہوتاہوں، اس لئے میں ان سبزیوں سے اجتناب کرتا ہوں تاکہ
ملائکہ کو اس بد بو سے اذیت نہ پہنچے ۔حضور ﷺ نے وضاحت سے یہ بھی بتا دیا
کہ یہ ترکاریاں حرام نہیں ۔ میں فرشتوں کی وجہ سے ان سے احتراز کرتا ہوں۔
بکرے کی سات چیزیں حضور ﷺ کو ناپسند تھی ۔پتہ ،مثانہ،حیاء،ذکر،انثیین،
غدود،گردے۔ان پرندوں اور جانوروں کا گو شت ناپسند تھا جو مردار تھے۔ ام
المومنین حضرت جویریہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ سخت گرم کھانے کو
نا پسند فرماتے، یہاں تک کہ اس کی گرمی کی شدت ختم ہوجاتی۔ حضرت ابن عباس
سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نہ کھانے کی چیز میں پھو نک مارتے اور نہ پینے کی چیز
میں ۔
حضورﷺ کی تلواریں
حضور ﷺ کی تلواریں دو قسم کی تھی۔ ایک قسم کی تلواروں کے دستوں اور پھلوں
پر چاندی کے جڑاؤ کاکام کیا گیا تھا ۔فتح مکہ کے دن حضور ﷺ کے پاس جو تلوار
تھی اس پر سونے اور چاندی سے کام کیا گیا تھا ۔حضرت جعفر بن محمد سے روا یت
ہے فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی تلوار کا پھل اور قبضہ چاندی کا تھا ۔حضور ﷺ کی
گیارہ تلواریں تھیں جن کے نام یہ ہیں ۔(۱)الماثور :یہ آپ کے والد ماجد کی
تلوار تھی۔جب حضور ﷺ مدینہ تشریف لائے تھے تو اس وقت آپ کے ساتھ موجود تھی
۔( ۲)ذوالفقار:یہ بدر کی جنگ میں حضور ﷺ کو بطور مال غنیمت ملی تھی،اس کا
دستہ چاندی کاتھا ۔حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حجاج بن علاط نے اسے بارگاہ
رسالت ﷺمیں بطور ہدیہ پیش کیا تھا ۔(۳،۴،۵) قلعیہ ،البطار، الحتف:یہ
تلواریں بنی قینقاع کے اسلحہ کے اس ذخیرہ سے لی گئی تھیں جو مسلمانوں کو
بطور مال غنیمت ملا تھا ۔(۶،۷) مجذم،رسوم:یہ تلواریں بنی طے قبیلہ کے مال
خانہ سے حضور ﷺ کو ملی تھیں ۔(۸)عضب:جب رحمت عالم ﷺ غزوۂ بدر کیلئے روانہ
ہو ئے تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی
تھی۔(۹)قضیب:یہ بھی بنو قینقاع سے ملی۔(۱۰)صمصامۃ:یہ عرب کے نامور پہلوان
عمرو بن معد یکرب الذبیدی کی تلوار تھی ۔خالد بن سعید اموی نے حضور ﷺ کی
خدمت میں پیش کی تھی۔ سرور عالم ﷺ اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے ۔یہ عرب
کی مشہور ترین تلواروں میں سے ایک تھی ۔(۱۱)اللحیف ۔
حضور ﷺ کے نیزے
آپ ﷺ کے نیزوں کی تعداد پانچ تھی ۔(۱)المثوی(۲) المنثنی( ۳،۴،۵) حضور ﷺ کو
بنی قینقاع قبیلہ کے ہتھیاروں سے ملے تھے ۔حضور ﷺ کے چھوٹے نیزے پانچ تھے
۔(۱)النبعہ البیضاء :جب حضور ﷺ نماز عید پڑھانے مدینہ طیبہ سے باہر تشریف
لے جاتے تو یہ نیزہ بطور سترہ گاڑاجاتا تھا۔(۲)العنزہ : عید کے دن حضور ﷺ
کے سامنے چلنے والا اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑتا ۔یہ نیزہ بھی عام طور پر
سترہ کے طور پر استعمال ہوتا ۔(۳)الھد القمرۃ۔
حضوراکرم ﷺ کی زر ہیں
ان کی تعداد سات بتائی گئی ہے ۔(۱)السعدیہ:یہ وہ زر ہ ہے جو حضرت داؤد علیہ
السلام نے پہنی تھی جب آپ نے جالوت کو قتل کیا۔(۲)فضۃ:یہ اور پہلی زرہ
سرکار دو عالم ﷺ کو بنو قینقاع کے اسلحہ کے ذخیرہ سے ملی تھیں ۔(۳)ذات
الفضول :یہ ایک لمبی زرہ تھی اور جب رحمت عالم ﷺ غزوۂ بدر میں شرکت کیلئے
روانہ ہو ئے توسعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیں ۔یہی
وہ زرہ ہے جو شہنشاہ کو نین نے ابی شحم یہودی کے پاس تیس صاع کے بدلے رہن
رکھی تھی۔ (۴)ذات الوشاح (۵ـ)ذات الحواشی (۶)التبراء:یہ چھوٹی تھی اس لئے
اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ۔(۷)الخرنق :ائمہ حدیث نے حضرت سائب بن یزید
سے روا یت کیا ہے کہ سرور عالم ﷺ نے غزوہ ٔاُحد میں دو زر ہیں زیب تن
فرمائی تھیں ۔احد کے علاوہ جنگ حنین میں بھی حضور ﷺ نے دو زر ہیں ذات
الفضول اور سعدیہ زیب تن فرمائی ۔
حضور کریم کی ڈھا لیں
حضور ﷺ کی تین ڈھالیں تھیں ۔الزلوق، الفتق اور تیسری وہ ڈھال جسمیں مینڈھے
اور عقاب کی تمثال تھی ۔امام بیہقی حضرت صدیقہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ
آخری ڈھال بارگاہ رسالت میں پیش کی گئی تو حضور ﷺ نے اس پر عقاب اور مینڈھے
کی تمثال دیکھ کر کراہت کا اظہار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت خاص سے ان
تمثالوں کو اس سے مٹادیا ۔
٭٭٭
ماخوذ:
(۱)سیرت الرسول المعروف ضیاء النبیﷺ،ج۴،از:علامہ پیرکرم شاہ ازہری رحمۃ اﷲ
علیہ (۲)سیرت محمدیہ ترجمہ مواھب اللدنیہ،از:حضرت امام بن احمد بن ابی
بکرالخطیب القسطلانی الشافعی رحمۃ اﷲ علیہ ،ترتیب:محمدعبدالستار طاھرمسعودی
زیدمجدہ(۳)سیرت مصطفیﷺ،از:علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ (۴)سیرت
رسول اکرمﷺ،از:محمدامام الدین صاحب |
|