ٹوٹا ہوا پُل

بچپن میں اپنے گاؤں کے قریب ایک ٹوٹے ہوئے پُل سے گزر ہوتا تو اپنے بزرگوں سے اس پُل کے ٹوٹنے کی وجہ پوچھ بیٹھتا ۔ جواب میں ان کے دلوں میں چھپی دردناک کہانی ان کی زبان پہ آجاتی۔سوال پل ٹوٹنے کا ہوتا اور جوابی کہانی کا اختتام ملک ٹوٹنے پہ ہوتا۔مشرقی و مغربی پاکستان کا تعلق اور ان کے مابین رشتہ بیان ہوتا۔پاک بھارت جنگ سقوطِ ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام کا ذکر ہوتا ۔ یہ یادِ ماضی کی محض قصہ گوئی نہ تھی بلکہ ان کے چہروں پہ نمایاں ہونے والے درد اور کرب کے احساسات میرے دل پہ بھی نقش ہو گئے ۔ بچپن کب جوانی میں ڈھل گیا خبر نہیں ، لیکن بچپن میں سنا جانے والا قصہ بزرگون کی قصہ گوئی سے نکل کر مطالعہ ٔ کتب تک جا پہنچا۔ کتب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی کھلی کہ یہ محض جنگ ہی نہ تھی جس نے وطن عزیز کو دو لخت کر دیابلکہ کئی عوامل تھے جنہوں نے علامہ اقبال کے خواب اور قائداعظم کی تعبیر کو چکناچور کر ڈالا۔وطن کے بت کی پرستش کرنے کے لیے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے کی کوشش کی گئی ۔ کوئی اس کا ذمہ دار اس وقت کے حکمران یحییٰ خان گردانتا ہے تو کوئی ذولفقار علی خان کو اس کا مجرم قرار دیتا ہے ، کوئی شیخ مجیب الرحمٰن کو موردِ الزام ٹھیراتا ہے تو کوئی اسے بھارت کی جنگی فتح قرار دیتا ہے ۔اور بعض مادر پدر آزاد اہل قلم تو اسے پاک فوج کے سر ڈالنے پہ مصر ہیں ۔بہر حال ہم نے من حیث القوم بڑی غلطیاں کی ہیں اور اس کا خمیازہ بھی ہمیں قومی سطح پہ ہی بھگتنا ہے ۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحون نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

جب قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی تب یہ طے ہوا تھا کہ دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں گی ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں ۔ لیکن بعد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خود بنگالی رہنماؤں کے اصرار پہ ترمیم کی گئی کہ مشرق و مغرب کی ایک ہی متحدہ ریاست وجود میں آئے گی ۔ یہ وہ پل تھا جس کی بنیاد مذہب کے نظریے پہ رکھی گئی تھی ۔اور یہی وہ پُل تھا جس نے دلوں کو دلوں سے جوڑا۔ اسلام نے یہ بنیاد فراہم کی تھی کہ مسلمان امت کی مثال ایک دیوار کی سی ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ پیوستہ ہے اگر ایک اینٹ کو نقصان پہنچتا ہے تو تمام دیوار کمزور ہوتی ہے ۔ اسی بنیاد کو اقبال نے یوں بیان کیا تھا ۔
بتان ِ رنگ و خون کو چھوڑ کر ملت میں ضم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

یہی اقبال کا خواب تھا جس کی تعبیر کے لیے مشرق اور مغرب کے مسلمانوں ایک ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا باوجود اسکے کہ درمیان میں ہزار ہا میل کا فا صلہ ہے اور بیچ میں کوئی سمندر یا خلیج نہیں بلکہ دشمن ملک حائل ہے ۔پھر بھی سب اس پہ متفق تھے کہ لا شرقیہ لاغربیہ اسلامیہ اسلامیہ۔ پھر اس مسجد کے بدخواہوں نے سیکولرازم کے نام پر صفوں کے بیچ میں مفادات، علاقائیت اور لسانیت کے بت رکھ دیے اور اور ان بتوں کے پجاریوں نے اس مسجد کوتقسیم کر ڈالا۔ کسی نے ــــ"اِدھر ہم اُدھر تم" کا نعرہ لگایاـ تو دوسری جانب لسانیت کی بنیاد پہ بنگلہ دیش کا نعرہ لگا۔اس موقعہ پر اسلام پسندوں نے ملک کو بچانے کے لیئے بہت کوشش کی اپنی جانیں نذر کیں دلوں کو جوڑنے کی کوشش کی لیکن نفرتوں کی آگ اس قدر شدید تھی کہ ہزار ہا شہدا کا خون بھی اسے بھجا نہ پایا اور اسی کشمکش میں ملک دولخت ہو گیا۔خونِ شہداء رائگاں نہیں گیااس نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈوبنے نہیں دیا ۔بنگال اکھنڈ بھارت کا حصہ نہیں بنا بلکہ اپنی الگ مسلم شناخت کے تحت دنیاکے نقشے پہ ابھرا۔

سانحہ ٔ مشرقی پاکستان کو میں اور میرے ہم عصر دوست دیکھ نہیں پائے لیکن ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور رہی ہے جنہوں نے ملک بنتے اور پھر ٹوٹتے دیکھا ہے ۔ ان کے احساسات کو میں نیاپنے دل میں محسوس کیا ہے ۔مشرقی پاکستان کے ساتھ ایک قلبی وابستگی میرے اندر پنہاں ہے وہ میرے وطن کا ٹکڑا رہا ہے ۔ میں نے مطیع الرحمن نظامی، پروفیسر غلام اعظم ، عبدالقادر ملا ، میر قاسم اور دیگر سرفروسوں کو قریب سے نہیں دیکھا لیکن اتنا جانتا ہوں کہیہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور پاکستان کی سالمیت کے لیے ڈٹ گئے ۔ وہ بیک وقت اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور اﷲ کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑتے رہے۔۱۵ ہزار سے زائد البدر اور الشمس کے شہداء نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے اور خود ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ۔جو زندہ بچے ان پہ عرصہ ٔ حیات تنگ کر دیا گیااور اب چالیس برس کے لمبے عرسے کے بعد بھی پاکستان سے محبت کے جرم میں انہیں ایک ایک کر کے تختہ ٔ دار پہ لٹکایا جا رہا ہے ۔ اور یہاں سکون ہے ۔ ہمارے ارباب ِ اختیار کے لبوں پہ کوئی حرف شکایت نہیں ۔ شیخ حسینہ واجد نے پاکستان دشمنی میں انسانی حقوق ، بین الاقوامی قوانین، پاک بنگلہ معاہدوں اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی ہیں لیکن ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ ہم نے کسی بھی بین الاقوامی فورم پر ان کے لیے آواز نہ اٹھا کر اپنے محسنوں سے احسان فراموشی کی بد ترین مثال قائم کی ہے ۔ ہمارے دل اپنے ان محسنوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن شاید ہمارے ارباب اختیار نے الحاد کے زیر سایہ اس امر کو حقیقت مان لیا ہے کہ ہزار ہا میل پہ محیط دشمن کی دوسری جانب بسنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں کوئی واسطہ نہیں ۔

بچپن میں نظر آنے والے ٹوٹے پُل کی جگہ ایک پختہ پُل تعمیر ہو چکا ہے لیکن دلوں کو دلوں سے جوڑنے والا پُل دوبارہ تعمیر نہ ہو سکا بلکہ دونوں کناروں کا فاصلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ ہر دیسمبر ایک نیا زخم دے جاتا ہے اور بغض اور عناد کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے تاہم اﷲ سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ پہ رحم فرمائے اوراتحاد بین المسلمین کی کوئی سبیل پیدا فرمائے۔۔۔۔آمین
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105300 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More