جذبے کسی کے بس میں نہیں (دوسری قسط)

آفتاب:امی میری بات تو سن لیں ،پلیز سن لیں نا،آفتاب پیچھے پیچھے کمرے سے نکل آیا تھا۔اس دنیا میں وہ اپنی ماں سے ہی سب سے زیادہ محبت کرتا تھا،لڑکیوں کو نظر بھر کر دیکھنا بھی اس کی شان میں گستاخی تھی تو وہ کسی دوسری لڑکی کو کہاں سے لاتا جس سے شادی کا مشورہ اس کی امی غصے میں اُسے دے رہی تھی۔آفتاب نے امی کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر ہی دیا۔ان کی شادی بڑی دھوم دھام سے 2011میں جنوری کے مہنے میں ہوئی۔شادی کے پہلے ہی دن آفتاب کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا،وہ جس قدر نایاب کو بگڑی ہوئی اور نخرے والی سمجھتا تھا وہ اس سے بھی ذیادہ اسے محسوس ہوئی۔
آفتاب :(کمرے میں داخل ہوتے ہی چونک گیا)تم نے کپڑے تبدیل کر لیے؟
نایاب: ہاں مجھے بہت چبھن محسوس ہو رہی تھی۔
آفتاب : پورا دن جو رسمیں ہوتیں رہیں تب بھی تو پہن کر رکھا تھا کچھ دیر اور پہن لیتی۔
نایاب:کیوں؟
آفتاب: کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آفتاب نے اس کے لیے لی ہوئی منہ دیکھائی کی انگھوٹی اُس کے ہاتھ میں دے دی ۔یہ تمہارے لیے۔۔۔۔۔۔وہ خاموش ہو گیا۔
نایاب:مجھے بھوک لگی ہے ،تم کچھ کھانے کے لیے لا دو گئے۔
آفتاب:ہاں۔ لیکن اب میں تمہارا کزن نہیں ہوں ، شوہر ہوں اور شوہر کو تم نہیں کہتے ،آپ کہتے ہیں ،اس نے جس قدر ہو سکتا تھا نرمی سے بات کی ،اگرچہ اسے اس کی کھانا مانگنے والی حرکت پر بھی غصہ آیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کسی اور کو بھی تو کھانا لانے کے لیے کہہ سکتی تھی ،گھر میں کافی مہمان ولیمہ کے لیے رکے تھے ۔وہ کسی بھی کزن سے کہہ کر اس کے آنے سے پہلے کھالیتی۔
نایاب: نایاب نے بڑی بے نیازی سے اچھا کہاتھا۔
احمر:بھائی ،آفتاب بھائی سو گئے ہیں کیا؟
وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا،اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ کب وہ دیوار کے ساتھ بیٹھا تھا۔وہ جاگتے ہوئے سب دیکھ رہاتھا یا سوتے ہوئے وہ خود نہیں جانتا تھا،اس نے احمر کی آواز پر چونک کر اپنی انکھیں رگڑی تھی۔
آفتاب:تم احمر،وہ اس سے ذیادہ کچھ بول نہ پایا۔
احمر:میں آپ کو ڈھونڈ رہا تھا،وہ حریم بہت رو رہی تھی ،ہادی بھی ،بہت تنگ کر رہا تھا ،سوچا آپ سے ہادی کی بات کروا دوں،مگر آپ اس وقت ملے ہی نہیں۔
آفتاب:اچھا۔ابھی کیا ٹائم ہو رہا ہے ،وہ موبائل دیکھ رہاتھا
احمر: صبح کے پانچ بج رہے ہیں۔ میں کچھ دیر کے لیے گھر جا رہا ہوں ،پھر آتا ہوں ۔
آفتاب :مشکل سے اچھا ہی کہا پایا تھا کہ وہ چلا گیا ،کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ،کیسے ہو سکتا ہے کہ نایاب مجھ سے اِتنا پیار کرتی تھی ،کبھی اس نے اس طرح ظاہر نہیں کیا،وہ کیسی بے نیاز تھی ۔آفتاب اپنی سوچوں میں گم وہیں کھڑا تھا کہ قریب سے گزرنے والوں کی باتوں نے اسے چوکنا کر دیا،ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا،اسفند صاحب کو بندوبست کر لیناچاہیے،صابر کے بچنے کے چانس بہت کم ہیں،جبکہ دوسرے نے کہا،ایک باپ کا دل نہیں مان سکتا نا،کہ اس کا جوان سالہ بیٹا اس کے ہاتھوں میں دم توڑ جائے گا۔آفتاب کو ہوا میں اکسیجن کی کمی کا احساس ہونے لگا۔وہ وہاں سے تیز تیز چلتا ہوا آئی سی یو کے باہر کھڑاہوگیا۔
ریسپشن پر جا کر ڈاکٹر سے بات کرنے کی درخواست کی ،پتہ چلا کہ ڈاکٹر صبح دس بجے رونڈ لگائیں گے۔تب تک انتظار کریں ،انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے بعد ابھی تک نایاب بے ہوش ہی ہے ،اسے انڈر آبزرویشن رکھا گیا ہے۔
آفتاب نے آفس فون کیا اور اپنے دوست کو سارے حالات سے اگاہ کیا۔اس نے رات سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا،لیکن اسے قطعاْب ھوک کا احساس نہیں تھابلکہ اس اندر خوف اور امید کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔عجیب عجیب سے خیالات ذہن کو گرفت میں لیتے اور وہ ان سے لڑ رہا تھا۔پھر وہ کیفے ٹیریا میں گیا اور چائے کا ایک کپ لے کر ایک سائیڈ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
موت کیسی ناگوار حقیقت کا اس کا احساس وہ دوسال پہلے بھی کر چکا تھا اپنی امی کی موت پر،اسے آج امی کی بہت یاد آرہی تھی ۔اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ امی کی گود میں سر رکھ کر جی بھر کر روئے۔ماں دنیا کی وہ نعمت ہے جس کے ہوتے ہوئے کبھی کوئی تنہاٗ نہیں ہو سکتا ،اگرچہ وہ پاس نہ بھی ہو۔ایسے ہی جیسے کوئی خزانہ کا مالک اپنے خزانے کو ہاتھ میں نہیں رکھتا پھر بھی وہ جہاں بھی جائے امیر ہوتا ہے ،اُسی طرح جس کی ماں زندہ ہوتی ہے وہ امیر ہوتا ہے،وہ اپنا ہر درد ماں سے کہہ سکتا ہے ،وہ بے اختیار رو رہا تھا ،اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے یا نہیں۔
عمارہ:ایکسکیوزمی، مسڑ ،آپ ٹھیک ہیں۔ عمارہ نے سر نیچے کر کے ہچکیاں لیتے ہوئے آفتاب سے قریب آ کر پوچھا
آفتاب:جی کون
عمارہ:مائی نیم اِذ ڈاکڑ عمارہ،آپ کافی دیر سے یونہی رو رہے تھے ،آپ ٹھیک ہیں؟
آفتاب :جی
عمارہ:آپ کی چائے تو ٹھنڈی ہو گئی ہے۔آفتاب نے اپنی بازو سے اپنی انکھوں کو صاف کرنے کی کوشش کی ۔
آفتاب:جی
عمارہ:چائے کے دو کپ لے کر آتی ہے،ویل مسڑ آفتاب ،کیا ہوا؟ایک کپ چائے کا آفتاب کے سامنے رکھتے ہوئےاپنی چائے پینے لگتی ہے۔
آفتاب :کچھ دیر خاموش ہی رہتا ہے۔اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ نایاب کے لیے رو رہا تھا یا امی کے لیے ،یا پھر شائد اپنے لیے،کہ کہیں وہ اپنی ماں کو کھونے کے بعد اب نایاب کو بھی نہ کھو دے۔شاہد یہ خوف ہی اسے رونےپر مجبور کر رہا تھا۔
عمارہ:آپ نے جواب نہیں دیا۔ہوسپیٹل میں کون ہے آپ کا؟
آفتاب:میری بیوی،
عمارہ: عمارہ حیرت سے آپ اپنی بیوی کے لیے یوں رو رہے تھے ،یقین نہیں آرہا،اس طرح بھی کوئی رو سکتا ہے کیا اپنی بیوی کے لیے ،اس کے لہجے میں تمسخر نہیں شرارت تھی۔
آفتاب:خاموش ہی رہا تھا
عمارہ:کیا ہوا ہے آپ کی بیوی کو
آفتاب :گولی لگی ہے
عمارہ:سنجیدگی سے بولی ،اب کیسی ہیں وہ
آفتاب :کریٹکل سچویشن ہے ،ڈاکٹر نے کہا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا،وہ پھر خاموش ہو گیا تھا
عمارہ:مسڑ آفتاب ہم ڈاکٹر انسان ہی ہوتے ہیں ۔اصل ڈور تو رب کے ہاتھ ہے،وہ جس کو چاہیے موت دے اور جس کو چاہیے زندگی۔اچھا اب میں چلتی ہوں ،راونڈ کا ٹائم ہو رہا ہے،رب سے اچھی امید رکھیں ،سب اچھا ہی ہو گا ۔رب سے دعا کریں وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔
آفتاب:جی شکریہ بہت بہت،وہ عمارہ کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔شاید رب نے اسےاسی لیے بھیجا تھا کہ وہ مجھے تسلی دے یا پھر میری ماں کی روح کو تکلیف ہوئی ہو گی اور اس سے رب سے فریاد کی ہو گی کہ میرا بیٹا رو رہا ہے مجھ سے نہیں دیکھا جا رہا تو اسے تسلی دے،ورنہ وہ جانے کب تک روتا رہے گا۔آفتاب نے اپنے ہاتھ میں لیے کپ کو دیکھا جو اس نے آدھا ہی پیا تھا فوراْ اسے یاد آیا کہ ڈاکٹر عمارا کہہ رہی تھی رونڈ پر جانا ہے ،ضرور نایاب کے ڈاکٹر بھی رونڈ پر آئیں گئے،اس نے کپ کو ویسٹ پلیز پر رکھا اور کیفیٹیریا سے نکل گیا۔
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281111 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More