خیبر کے یہودیوں سے جنگ کے اسباب
اسلام شروع ہی سے یہودیوں کی سازشوں اور کام بگاڑنے اور رخنہ اندازی کا
شکار تھا۔ یہودیوں کا ایک گروہ مدینہ سے ۱۶۵ کلومیٹر دور شمال میں خیبر
نامی ایک ہموار اور وسیع جگہ پر سکونت پذیر تھا کہ جہاں انہوں نے اپنی
حفاظت کے لیے نہایت مضبوط اور مستحکم سات قلعے بنا رکھے تھے۔ ان کی تعداد
بیس ہزار سے زیادہ تھی ان میں جوان اور جنگجو افراد بہت زیادہ تھے۔
صلح حدیبیہ نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا موقع دیا کہ
عالمی پیغام کا اعلان کرنے کے علاوہ اس جزیرہ میں یہودیوں کے آخری خطرناک
اڈہ کو بھی صاف کر دیں۔ اس لیے کہ پہلی بات تو یہ کہ سیاسی اور جنگی نکتہ
نظر سے خیبر ایک مشکوک اڈہ سمجھا جاتا تھا اور خیبر کے یہودیوں ہی نے جنگ
احزاب کی آگ بھڑکائی تھی اس لیے ممکن تھا کہ وہ دوبارہ مشرکین کو بھڑکا دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایران و روم ایسی بڑی طاقتوں سے یہودیوں کے بہت قریبی
تعلقات تھے۔ اور ہر لمحہ یہ اندیشہ تھا کہ ان بڑی طاقتوں کے ورغلانے یا ان
کی مدد سے یہ لوگ اسلام کی جڑ کھود دیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے یہودی یہ سوچنے لگے تھے کہ تیاری
کے لحاظ اور جنگی اعتبار سے کمزور ہونے کی بنا پر انہوں نے یہ صلح نامہ
قبول کیا ہے، لہٰذا وہ اس فکر میں تھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
تحریک اسلام کو ناگہانی چوٹ پہنچائی جائے۔ ہر چند کہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ
نے قریش و یہود کے جنگی اتحاد کے امکان کو ختم کر دیا تھا لیکن دوسرے قبائل
تھے جو یہودیوں کے امکانی حملہ میں اہم ثابت ہوسکتے تھے۔ یہ وجوہات تھے جو
اس بات کا سبب بنے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہودیوں کی سرکوبی کے
لیے پیش قدمی کریں اور آتش فتنہ کو خاموش کر دیں۔
لشکر توحید کی روانگی
یکم ربیع الاول ۷ ہجری قمری
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سو جاں بازوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے
اور ہمیشہ کی طرح دشمن کو غافل رکھنے کے یے مقام رجیع پہنچے۔ یہ ایک چشمہ
ہے جو کہ خیبر و غطفان کی سرزمین کے درمیان واقع ہے اور غطفان کی ملکیت ہے۔
چنانچہ اس طرح آپ نے دشمن کو بھی غافل بنا دیا اور دو جنگی ہم پیمان یعنی
خیبر کے یہودیوں اور غطفان کے اعراب کے درمیان جدائی ڈال دی۔
اطلاعات کی فراہمی
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے روانگی سے قبل لشکر اسلام کے آگے عباد
بن بشیر کو چند سواروں کے ساتھ دشمن کے لشکر کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ ان
لوگوں کو یہ کامیابی ملی کہ انہوں نے ایک یہودی جاسوس کو گرفتار کرلیا اور
اس کو دھمکا کے اس سے یہودیان خیبر کے جنگی اہم راز اور یہودیوں کی خوف
زدگی کی اطلاع حاصل کرلی۔ (مغازی و اقدی ج۲ ص ۶۴۰)
خیبر کا مضبوط قلعہ راتوں رات مسلمانوں کے محاصرہ میں آگیا۔ صبح سویرے خیبر
کے یہودی مسلمانوں کے حملہ اور محاصرہ سے غافل قلعہ سے باہر نکلے اور اپنا
بیلچہ وغیرہ لے کر اپنے کھیتوں اور نخلستانوں کی طرف چل پڑے کہ اچانک
مسلمانوں پر نظر پڑی جو خیبر کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ وہ لوگ ڈر کے
مارے قلعہ خیبر کی طرف بھاگے اور آواز دی ”محمد ہم سے لڑنے آئے ہیں۔“
(مغازی ج۲ ص ۶۴۲)
جنگی اعتبار سے مناسب جگہ پر لشکر گاہ کی تعیین
ابتدا میں لشکر اسلام نے خیموں کو نصب کرنے کے لیے ایک جگہ کا انتخاب کیا
لیکن یہ جگہ بہت زیادہ مرطوب ہونے کے علاوہ صحت و صفائی کے اعتبار سے بھی
نامناسب اور یہودیوں کے تیروں کی زد پر واقع تھی۔ جب یہ جگہ جنگی اعتبار سے
مناسب معلوم نہ ہوئی تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے
مشورہ کر کے نخلستان کی پشت پر مناسب ترین رجیع نامی جگہ کو لشکر گاہ کے
لیے معین فرمایا اور کچھ سپاہیوں کو اس جگہ کی حفاظت اور نگہبانی کے لیے
مقرر کر دیا۔ انہوں نے بھی باری باری لشکر گاہ کی نگہبانی کی ذمہ داری قبول
کرلی۔(حوالہ سابق)
لشکر کے لیے طبی امداد رسانی کا انتظام
زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے والی نسیبہ نامی عورت چند ایسی عورتوں کے ساتھ جو
اس فن سے آشنا تھیں مدینہ سے لشکر اسلام کے ہمراہ آئی تھیں اور لشکر گاہ کی
پشت پر جنگی مجروحین کی مرہم پٹی کے لیے ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا اور وہ
عورتیں اور جانبازوں کی مدد کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔(مغازی ج۲ ص ۶۸۵)
جدید اطلاعات
مقام رجیع میں ایک سپاہی نے جو بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا تھا اپنے کو لشکر
اسلام کے حوالہ کر دیا اور کہنے لگا کہ وہ اگر کچھ خبریں لشکر اسلام کو دے
تو کیا اس کو امان ملے گی؟ جب اس کو امان دی گئی تو اس نے بہت سے جنگی راز
فاش کر دیئے۔ اس نے بتایا کہ یہودیوں کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے۔ پھر ان
لوگوں کی رہنمائی اس نے قلعوں اور حصاروں تک کی۔
خیبر میں سات قلعے تھے جن کے نام ہیں۔ ناعم، قموص، کتیبہ، نظاة، شق، وطیح،
سلالم، ان قلعوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ رجیع کو لشکر گاہ کے عنوان سے منتخب
کرلینے اور وہاں سات دن ٹھہرنے کے بعد لشکر اسلام دن میں قلعوں پر حملہ
کرتا اور راتوں کو اپنی قیام گاہ پر واپس آجاتا تھا۔ جنگ کے پہلے دن
جانبازان اسلام کے پچاس آدمی تیروں سے مجروح ہوئے علاج کے لیے ان کو اس
خیمہ میں پہنچایا گیا جو اسی لیے نصب کیا گیا تھا۔بالآخر سات دنوں کے بعد
ناعم نامی پہلا قلعہ فتح ہوا اس کے بعد رفتہ رفتہ سارے قلعے لشکر اسلام کے
قبضہ میں آگئے۔ان قلعوں میں سے ایک قلعہ کی فلح میں وہ یہودی عورت اسیر
ہوئی جس نے لشکر اسلام کے لیے اطلاعات فراہم کرنے میں مدد دی تھی۔ رسول
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اس کے شوہر کے حوالہ کر دیا۔
سردار کے حکم سے روگردانی
جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حصار ناعم کے قریب پہنچے تو آپ نے لشکر
کو صف آرا کیا اور فرمایا کہ جب تک میرا کوئی حکم نہ پہنچے اس وقت تک اپنی
مرضی سے جنگ نہ کرنا، اس موقع پر ایک سپاہی نے خود سرانہ طور پر ایک یہودی
پر حملہ کر دیا لیکن یہودیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ جانبازوں نے آنحضرت سے
سوال کیا کہ یہ شہید محسوب ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ ”منادی بہ آواز بلند
اعلان کر دے کہ جو اپنے کمانڈر کے حکم سے سرتابی کرے بہشت اس کے لیے نہیں
ہے۔“ (مغازی و اقدی ج۲ ص ۶۴۹)
دوسری جنگی ٹیکنیک
سارے لشکر اسلام کی کمان رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں تھی
اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک عمدہ جنگی ٹیکنیک
کے ساتھ لشکر اسلام ایک ایک قلعہ کا محاصرہ کرتا جا رہا تھا اور اس بات کی
کوشش کرتا تھا کہ جس قلعہ کا محاصرہ ہوچکا ہے اس کا رابطہ دوسرے قلعہ سے
منقطع ہو جائے اور اس قلعہ کو فتح کرلینے کے بعد دوسرے قلعہ کا محاصرہ کرتا
تھا۔ وہ قلعے جن کا ایک دوسرے سے ارتباط تھا، یا وہ قلعے جن کے اندر کے
جنگجو زیادہ مقاومت کا ثبوت دیتے تھے وہ قلعے ذرا دیر میں فتح ہوتے تھے۔
لیکن وہ قلعے جن کا آپس میں رابطہ بالکل منقطع ہو جاتا تھا وہ کمانڈروں کے
رعب و خوف سے کم مقاومت کر پاتے تھے اور ان کو فتح کرنے میں قتل و خونریزی
بھی کم ہوتی تھی۔ (تاریخ التمدن الاسلام ج۱ ص ۶۱)
جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |