نادان لڑکیاں ( ساتویں قسط)

ہر کوئی ایک ہی سوال وہ اوکے نہیں تھی یہ کیسے بتاتے اپنے جان سے پیاروں کو- اس کا دل دل چاہا کہ کہے بھاگ کر ایسی جگہ جائے جہاں کوئی نہ ہوں اور وہ خوب چیخ چیخ کر روئے - اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی سانس بند ہو رہی ہے اور وہ مر رہی ہے بس اور وقعی مر ہی جاتی اگر رات بارہ بجے حماد کا فون نہ آتا-
کہاں تھے آپ؟ اس نے پیلا سوال یہی کیا تھا-
سوری سویٹ ہارٹ آج بہت بزی تھا اور موبائیل میں چارج بھی نہیں تھا -ابھی ابھی فری ہوا ہوں
آپ مجھے چھوڑ رہے ہو نا- روتے ہوئے پوچھا گیا-
تم پاگل ہوگئی ہو کیا- وہ چلایا - حماد کو پہلی بار اس پر شدید غصہ آیا-
پاگل ہو جاؤگی اگر آپ نے چھوڑا پلیز مجھے کبھی بھی نہ چھوڑنا ورنہ میں مر جاؤگی-
وہ تیز تیز رونے لگی تھی
کہا نا بزی تھا سارا دن میں تمہیں ایک پل کو بھی نہیں بھولا ہوں - موبائیل میں بلکل بھی چارج نہیں تھا ورنہ میں ایک مسیج ضرور ہی کر لیتا اور پلیز اب رونا دھونا بند کرو -مجھے تمھارے رونے سے بہت تکلیف ہوتا ہے حماد کی جان-
حماد اس سے دور تھا بہت دور مگر اس لمحے اسے خود سے بہت قریب محسوس ہوا تھا اس نے ہاتھ کی پشت سے بھیگا چہرہ صاف کیا - سارا مرنا مارنا اڑنچھو ہوگیا ڈر خوف دائیں بائیں نکل گیا- صرف حماد کے جان حماد کہنے سے
حماد نے اس سے کہا وہ ان دنوں بہت بزی ہے ویزے کے سلسلے میں اور اس کے ممی ، بابا عمرے کو جانے والے تھیں اس کی تیاری بھی وہ کر رہے تھے سو اب پہلے کی طرح چوبیس گھنٹے رابطہ نہیں کر سکو گا اور مسیج یا کال نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں تم سے بے وفائی کر رہا ہوں میں تم سے بات کروں یا نہ کرو تم ہر پل میرے ساتھ ہوتے ہوں اوکے اور اگر دوبارہ ایسا سوچا بھی تو میں اڑ کر آؤں گا اور تمہیں اٹھا کر لاؤں گا اسی وقت اوکے جان-
حماد کی باتوں سے پریشے مطمئن ہوگئی-- لیکن یہ اطمینان ذیادہ وقت کے لیے نہ تھا پری کوئی دودھ پیتی بچی نہ تھ اس کو صاف لگ رہا تھا کی حماد اس سے بھاگ رہا ہے - بہانوں پر بہانے اور بہانے بھی ایسے جس پر کوئی بچہ بھی یقین نہ کرے - حماد کے بدل جانے سے پری مر رہی تھی راتوں کو جاگ جاگ کر وہ اس کے رپلائی کا انتظار کرتی - موبائیل ہاتھ میں لیے لیے سو جاتی مگر کوئی رپلائی نہ آتا - تو کیا وہ رات کو بھی بزی ہوتا تھا کیا؟
پری بہت چڑ چڑی ہوئی تھی اس سب سے اس کے امتحان بھی تھے مگر اب اس کا دھیان ہی قائم نہیں رہا تھا امی بولتی پری پڑھ لو- پہلے انہیں کہنا نہیں پڑتا تھا - وہ کیسے پڑھتی کتاب کھولتے ہی حماد حماد لکھا نظر آتا تھا - امتحان ختم بھی ہوئے کیسے ہوئے وہ اس سے بے خبر تھی جب رزلٹ آیا تو وہ بری طوح فیل تھی ہمیشہ ٹاپ کرنے والی فیل ہو ئی اور وہ بھی بری طرح - یہ جو عورت ہوتی ہے نا وہ اس مرد کو اور اس مرد کی محبت کو اتنا سر پر سوار کیوں کرتی ہے کہ فیل ہی ہوجاتی ہے- ایک غیر مرد کی محبت کے لیے وہ فیل ہوئی صد ے افسوس -- امی ، بابا اور بھائیوں کو دلی صدمہ ہوا اس کے فیل ہونے کا ان کے سارے امیدیں خاک ہوگئیں - خود پری کو تو بلکل بھی چپ لگ گئی تھی -سب اس سے باتیں کرتے وہ ہوں ہاں بھی نہیں کرتی- بس کمرے میں ہر وقت بیٹھی رہتی- سب سوچتے فیل ہونے کا صدمہ لے لیا ہے کسی کو یہ نہیں پتا تھا کہ اس نے خود کو کیا روگ لگایا ہے۔ ( جاری ہے)
umama khan
About the Author: umama khan Read More Articles by umama khan: 22 Articles with 55072 views My name is umama khan, I love to read and writing... View More