عبید اللہ سندھی کی فکر۔۔۔۔۔۔۔۔سیاسی نظام کی تبدیلی کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
مولانا عبیداللہ سندھی ایک عملی انقلابی
تھے، یقیناً انہوں نے دینی علوم و افکار بھی پڑھے ان پہ تحقیق بھی کی،لیکن
ان کی زندگی کا سب سے اہم پہلو ان کی عمل پسندی ہے وہ صرف مفکر، صوفی یا
مولوی بن کر فکر کا پرچار یا تزکیہ تک محدود رہنے کی بجائے عملی سیاسی
انقلابی جدو جہد پہ یقین رکھتے تھے۔ان کے افکار بحیثیت مجموعی بغیر کسی شک
و شبہ کہ دو پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ایک ’’اجتماعیت‘‘ اور دوسرا’’
جدو جہد‘‘ وہ بحیثت مجموعی انسانی ارتقاء کے داعی اور اس ارتقاء میں رکاوٹ
نظام اور طبقات کے خلاف جدو جہد کرنے کے نظریے کے داعی تھے۔
وہ انسانی معاشرے میں معاشی طبقات کو انسانوں کے لئے زوال کا باعث قرار
دیتے ہیں،ان کے نزدیک انسانوں کا فطری ارتقاء معاشی طبقات کی وجہ سے رک
جاتا ہے۔اور اس کا نتیجہ پورے انسانی معاشرے میں تباہی کی صورت میں نکلتا
ہے۔مولانا سندھی فرماتے ہیں
’’جس تمدن میں کمانے والے کم ہوں اور کھانے والے زیادہ ،وہ تمدن فاسد ہو
جاتا ہے ہر انسان کو بغیر کسی معقول عذر کے اپنی روزی خود کمانی
چاہئے۔دوسروں کی محنت پر جینا،جینا نہیں بلکہ گلچھڑے اڑانا ،یہ زوال کا
راستہ ہے۔اسی طرح اگر کمانے والے تو محنت سے کمائیں،لیکن ایک شخص یا چند
اشخاص جن کے ہاتھ میں انتظام ہو،وہ ان کمانے والوں کی کمائی کا بڑا حصہ
اپنے انتظام کے عوض مار لیں۔تو ایسا تمدن بہت دنوں نہیں جی سکتا اور
انسانیت کو اس سے کبھی فلاح نہیں ملتی۔انسانیت کی تباہی اور زبوں حالی کا
اکثر یہ سبب ہوتا ہے کہ عام جمہور کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔وہ فاقے پر
مجبور ہوتے ہیں اور اس طرح انہیں محتاج رکھ کر ان کو معاشی اور اخلاقی
حیثیت سے تباہ کیا جاتا ہے معاشی تباہ حالی سے یہ بھی ہوتا ہے کہ خالی پیٹ
کو بھرنے کی فکر میں انسانوں کو کسی اور چیز کی سدھ بدھ نہیں رہتی۔انسانی
زندگی کی جو اعلیٰ ضرورتیں ہیں،وہ سب بہم نہیں پہنچتیں اور اس طرح انسانیت
ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔‘‘(۱)
مولانا سندھی ایسے تمدن کو انسانی معاشرے کے لئے مفید قرار دیتے ہیں جو
پورے معاشرے کے اجتماعی مفادات اور ان کی ضروریات کا کفیل ہو۔ایسا تمدن جو
مخصوص طبقے کی آبیاری کرتا ہو اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو اسے وہ
فرسودہ اور ظالمانہ قرار دیتے ہیں اور اسے معاشرے سے فنا کرنے کا نظریہ
دیتے ہیں۔اور اس کے لئے ایک ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی کو ناگزیر قرار دیتے
ہیں مولانافرماتے ہیں
’’تمدن اس وقت تک اچھا رہتا ہے جب تک یہ انسانوں کی اجتماعی اور حیاتی
ضروریات پورا کرتا ہے لیکن جب کسی قوم میں انسانوں کا ایک مخصوص طبقہ تو
تمدنی لحاظ سے بہت آگے بڑھ جائے اور دوسرے لوگ جو تعداد میں بہت زیادہ
ہوں،بہت پیچھے رہ جائیں تو پھر اس تمدن کو گھن لگ جاتا ہے اور قدرت یا
زمانے کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس تمدن کو جو فرسودہ ہو گیا،برباد کر دیا
جائے ۔قوم کے ایک محدود طبقے کی اس طرح غیر فطری ترقی کا لازمی نتیجہ یہ ہے
کہ لاکھوں اور کروڑوں انسان تو معمولی معاش کو ترستے ہیں اور چند ایک کے
پاس بہت دولت جمع ہو جاتی ہے۔ان حالات میں قوم کو روگ لگ جاتا ہے۔افراد کی
صلاحیتیں بے کار ہو جاتی ہیں۔عیش پرستی عام طور پر پھیلنے لگتی ہے عمومی
مفاد کا کسی کو خیال نہیں رہتا ،نفسی ٰنفسی کا معاملہ ہوتا ہے ہر شخص کی یہ
کوشش ہوتی ہے کہ اپنا پیٹ بھرے اپنی خواہشات کو پورا کرے خواہ ہمسایہ فاقوں
کے مارے مرتا مر جائے ۔جب کوئی ادبار کے اس نرغے میں گرفتار ہو جاتی ہے تو
پھر انقلاب کا آنا ایک حتمی امر ہوتا ہے۔‘‘(۲)
مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنے دور کے معاشرے کو موضوع بناتے ہوئے
فرمایا’’ہمارے حالات بھی اس رخ پہ جا رہے ہیں ہمارے شہروں میں رہنے والے
آرام طلب ہیں۔وہ مخنث ہو گئے ہیں،ان میں جان نہیں رہی۔یہ عورتوں کے غلام بن
چکے ہیں۔ان کی زندگی کا مقصد بس اچھا کھانا،اچھا مکان اور ہر طرح کا آرام
ہو گیا ہے۔ان کی تہذیب بھی کھو کھلی ہو چکی ہے۔‘‘(۳)
مولانا عبید اللہ سندھی اس ظالم طبقے کے قائم شدہ ظالمانہ اور استحصالی
نظام پر مزید تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یہ لوگ اندر سے بالکل کھو کھلے
ہیں ان کے جسموں میں زندگی کا خون ہے،نہ ان کے تمدن میں کوئی صلاحیت اور
توانائی باقی ہے اور نہ ان کے مذہب ،فکر اور فلسفہ میں جان ہے۔یہ سب تباہ
ہونے اور تباہ کئے جانے کے قابل ہیں۔ان کا تمدن ،ان کی تہذیب اور ان کا
فکری نظام فرسودگی کے ہاتھوں دم توڑنے کو ہیں۔‘‘(۴)اگرچہ یہ اس وقت کی
معاشرے کے بارے میں تجزیہ ہے لیکن اگر آج بھی پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیا
جائے تو صورتحال کچھ مختلف نہیں۔پر تعیش زندگی میں مگن معاشرے کے اکثریتی
طبقے کا خون چوسنے والا طبقہ اپنے مخصوص علاقوں میں سوسائٹیاں آباد کر کے
نہایت اطمینان سے زندگی گذار رہا ہے اور دوسری طرف ملک کی اکثریتی آبادیاں
ہر طرح کی بنیادی ضروریات سے محرومی کی زندگی گذار رہی ہیں جہاں مایوسیوں،
محرومیوں اور بد نصیبیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔
مولانا کے در ج بالا الفاظ یقیناًاپنے اندر بہت گہرائی اور جامعیت رکھتے
ہیں۔آپ تمدن، مذہب،فکر اور فلسفہ کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہیں۔یعنی جب
ظالم طبقہ ریاستی نظام پہ قابض ہو جاتا ہے تو پھر وہ ہر شعبہ زندگی کو اپنے
مفادات کے تحت ترتیب دیتا ہے،سب سے پہلے جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے وہ
فکر اور فلسفہ کی تبدیلی ہے،ریاستی اداروں کو ظلم کی آبیاری کے لئے استعمال
اس وقت ہی کیا جا سکتا ہے جب ان اداروں کو چلانے والے دماغوں کی بنیادی فکر
میں تبدیلی لائی جاتی ہے،فکر اور فلسفہ کی تبدیلی معیشت اور سیاست کو اپنے
تابع کرتی چلی جاتی ہے اور پھر یہاں تک کے ریاست میں مذہب بھی ان کی دست
برد سے محفوظ نہیں رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مذہبی طبقات بھی اسی
استحصالی فکر سے اپنی فکر کو ہم آہنگ کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر مذہب بھی
اسی فکر و فلسفہ کے تابع ہو جاتا ہے۔اور اس طرح ایک مخصوص تمدن وجود میں
آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس پہلو کی مزید وضاحت کے لئے اپنے معاشرے کا جائزہ
لینا ازحد ضروری ہے،آج سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ اپنی معاشی طاقت اور
اثر رسوخ سے ملکی نظام پہ قابض ہے،تمام ریاستی ادارے ان کے مفادات کے امین
ہیں،کوئی پالیسی یا حکمت عملی ایسی نہیں بنائی جاتی جو اس بالادست طبقہ کے
مفادات کے خلاف ہو،پالیسی بنانے والے اداروں میں ان کا اثر رسوخ اس قدر ہے
کہ تمام مشینری ان کی استحصالی فکر کی روشنی میں چلتی ہے۔عام افراد معاشرہ
ان کے ہتھکنڈوں کے سامنے بے بس ہیں،نظام کے تمام سیاسی ادارے مثلاً مقننہ،
عدلیہ، سول بیورو کریسی،فوجی بیوروکریسی سب ان ہی سرمایہ داروں اور
جاگیرداروں میں سے ہیں،اور ریاست کے نظام کو اپنے ہی مفادات کے تحت ترتیب
دیا ہوا ہے،مثال کے طور پہ شعبہ تعلیم میں طبقات پیدا کر کے اچھا معیار صرف
بالا دست تک محدود کر دیا گیا ،شعبہ صحت میں طبقات پیدا کر کے مخصوص امراء
طبقہ کے لئے ہر طرح کی سہولیات اور عام غریب طبقات کے لئے ہر طرح کی
سہولیات سے محرومی،اسی طرح سب سے اہم معاشی وسائل کی اس قدر ظالمانہ تقسیم
ہے کہ اکثریتی طبقہ نان وجویں کا محتاج بنا دیا گیا اور مخصوص بالادست
طبقات نہ صرف قومی وسائل کو اپنے قبضے میں رکھ کر اسے لوٹ رہے ہیں بلکہ
عالمی سامراجی نظاموں سے گٹھ جوڑ کر کے انہیں بھی معاشرے کے استحصال میں
برابر شریک کیا ہوا ہے،قوم کے نام پہ قر ضے لے کر نظام چلانے والے یہ تمام
طبقات سب کچھ خود ہڑپ کر جاتے ہیں ، سارا لوٹ کھسوٹ سے حاصل کیا ہوا مال
بیرون ملک سامراجی ممالک میں جمع کر کے وہاں جائدادیں بنائی جاتی ہے، اپنے
خاندانوں کو وہاں پہ رکھ کر تربیت کرتے ہیں اور پھر پرانی نسل کی جگہ نئی
نسل بیرون ملک سے تربیت لے کر نئے انداز سے معاشرے کے استحصال میں مصروف ہو
جاتی ہے۔اس کی مثالیں جاننے کے لئے اب زیادہ تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں،
ملک کے تمام سیاستدانوں، فوجی و سول بیوروکریٹس، اور افسر شاہی سے تعلق
رکھنے والے تمام داروں کے افسران کی جائدادیں امریکہ، برطانیہ وغیرہ میں
ہیں، اپنے ملک اور قوم کو لوٹنے والے یہ طبقات عیش و عشرت کی زندگی گذارتے
ہیں،فوج، پولیس ،عدلیہ میڈیا سب ان ہی طبقات کے بنے ہوئے ہیں، سرمایہ داروں
کے یہ طبقات اپنے معاشی مفادات کے لئے ریاست کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز
نہیں کرتے، عام عوام کی حالت زار یقیناً جانوروں سے بھی بدتر ہے،ہر آنے
والا دن ان کو مایوسیوں میں دھکیل رہا ہے،نہ جان نہ مال، نہ معیشت، نہ صحت
نہ تعلیم نہ عزت نفس،بس ہر طرف عدم تحفظ کا احساس اور مایوسی کی فضا نظر
آتی ہے۔ اس صورت حال میں مذہبی طبقات بھی معاشرے کے اس ظلم اور طبقات کے
خلاف جدو جہد کی بجائے بالوسطہ یا بلا واسطہ ایسے افکار کا پرچار کرتے ہیں
جن سے نظام ظلم کو تحفظ ملتا ہے۔
درج بالا نقشہ پہ اگر غور کیجئے تو مولانا عبید اللہ سندھی کے الفاظ کی
صداقت سمجھ میں آتی ہے۔سرمایہ داریت کی فکر معاشرے کو استحصالی ڈحانچے پہ
جب استوار کرتی ہے تو طبقات پیدا ہوتے ہیں اور جب طبقاتی کشمکش معاشرے میں
شروع ہو جاتی ہے اور اس سے پیدا شدہ تمدن بھی فرسودگی کا شکار ہو جاتا
ہے۔کیونکہ یہ تمدن فقط انسانی معاشرے کے ایک مخصوص حصے کی نمائندگی کرتا
ہے۔ اسی لئے ایسا تمدن، ایسا نظام اور ایسے افکار ونظریات چاہے ان کا تعلق
کسی مذہب سے ہو یا فلسفہ سے، اسے معاشرے سے نیست ونابود کر دینے میں ہی
انسانی معاشرے کی بھلائی ہوتی ہے۔
ایک اہم نقطہ جس کی طرف مولانا نے اشارہ کیا وہ یہ کہ یہ تمدن اور طبقات
کھوکھلے ہو چکے ہیں ۔یقیناً ایسا تمدن جس کی بنیاد انسانوں کی معاشی لوٹ
کھسوٹ اور سیاسی و سماجی استحصال ہو، اس کے مدنظر صرف اور صرف اپنے گروہی
مفادات ہی ہوتے ہیں اور ان میں اتنی صلاحیت موجود نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے
کے ارتقاء کے لئے کچھ کر سکیں، وہ جب بھی کوئی شعبہ تشکیل دیتے ہیں اس سے
ان کے اپنے گروہی یا انفرادی مفادات ہی پورے ہوتے ہیں، اجتماع کو اس سے
کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ،یقیناً ایسی حالت میں وہ تعیش اور حرام خوری کے
گرداب میں پھنس جاتے ہیں اور رفہ رفتہ معاشرے کو تباہی کی طرف لے جانا شروع
ہو جاتے ہیں،نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں بلکہ اجتماع کو بھی ترقی سے
دور کر کے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔اس کی عملی تصویر آج ہمارے معاشرے میں
دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ کہ مولانا سندھی ایسے نظام تمدن کو تباہ کر دینے
کی بات کرتے ہیں، کیونکہ اس نظام فرسودہ کو ختم کئے بغیر انسانی معاشرے کے
ارتقاء کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔
تاریخ گواہ ہے انسانوں نے انسانوں کو طرح طرح کی غلامی میں مبتلا کیا،
انسانوں کے مخصوص طبقوں نے معاشی و سیاسی طاقت کے بل بوتے پر ایسے ایسے
مظالم کئے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔لیکن تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ
جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو ظلم سہنے والے اس کے خلاف منظم ہو کر قربان ہو
جاتے اور معاشرے کو ان کی چنگل سے نجات دلاتے ہیں۔ یقیناً معاشرے کو بھوک،
افلاس، جہالت، قتل وغارت، خوف، محرومی، روٹی، کپڑا ، مکان سے محرومی، صحت
سے محرومی، جیسی سزا دینے والے طبقے پہ رحم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف
اٹھنا اور اس کی طاقت کو کمزور کرنا اور اس کا تسلط معاشرے سے ختم کرنا
ضروری ہو جاتا ہے۔
مولانا عبید اللہ سندھی ایک سچے انقلابی تھے وہ مظلوموں کی بے بسی اور ان
پہ ہونے والے مظالم کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، انہوں نے ظالم نظام اور
طبقات کے خلاف ایک طرح کا اعلان جنگ کرنے کا نظریہ دیا ہے، وہ چاہتے تھے کہ
معاشرے کے مظلوم طبقات کی تنظیم کی جائے اور پھر انہیں اس ظالمانہ نظام کے
خلاف متحرک کیا جائے، مولانا اس حوالے سے سخت رویے کا اظہار کرتے ہوئے
فرماتے ہیں
’’میں سندھ کے ہاریوں کو شہروں میں لاؤں گا۔یہ دراصل انسان کی جبلی درندگی
کی تنظیم ہو گی اور سچ پو چھو تو انقلاب نام ہی درندگی کی تنظیم کر کے اسے
محرک و فعال بنانا ہے۔اس میں شہر والوں کے چمڑے اتریں گے۔ان کو جلا کر ناس
کیا جائے گا،وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوں گے ان کی عورتیں ماری ماری پھریں
گی۔یہ ہو گا اور ہو کر رہے گا۔یہ دوسروں کے خون پر پلنے والی انسانی جونکیں
اپنے کیفر کردار کو پہنچیں گی۔یہ انقلاب کے ہاتھوں ہو گا۔روس میں یہی
ہوا۔ترکی میں یہی ہوا۔سندھ میں بھی یہ ہو کر رہے گا۔بے شک آج حالات بے حد
ناسازگار ہیں اور ہمارے پاس مادی وسائل نہیں،لیکن میرے فکر میں ذرا بھی
تذبذب نہیں ہے میرے فکر کے سامنے نہ گاندھی ٹھہر سکتا ہے اور نہ انگریزی
حکومت انقلاب آ کر رہے گا۔‘‘(۵)
مولانا عبید اللہ سندھی کے درج بالا الفاظ میں میں یقیناً ایک انقلاب کی
تڑپ اور مظلوم طبقات کے لئے عملی جدو جہد کرنے کا جذبہ نظر آتا ہے اور ظلم
اور ظالموں کے انتہا درجہ کی نفرت کا بھی اظہار ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر
گز نہیں کہ آپ متشدد سیاست کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے، بلکہ انہوں نے اس
انقلاب کا نقشہ کھینچا ہے جب وہ پرپا ہو جاتا اور ظالم طبقات اپنے انجام کو
پہنچتے ہیں، اگر دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو عوامی انقلاب کے بعد
کی ہمیشہ یہی صورتحال رہی ہے، جب ظلم میں پسے ہوئے لوگ اپنا حق لینے کے لئے
سڑکوں پہ نکلتے ہیں تو پھر ان کے راستے میں ظلم وہ جبر کی کوئی دیوار نہیں
ٹھہر سکتی اور ظالم اپنے انجام کو پہنچتے ہیں، اور دوسری طرف سب سے اہم
پہلو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ’’ افراد معاشرہ کی تنظیم کرنا اور ان کی اس
نظام ظلم کے خلاف تربیت کرنا‘‘ یقیناً اگر معاشرے کے اکثریتی طبقے کی اس
نظام کے خلاف شعوری تربیت اوٍر ان کی تنظیم موجود ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہم
آج بھی اپنے معاشرے کو اس درندہ صفت نظام سے پاک کر سکتے ہیں۔
(حوالہ جات)
۱۔ محمد سرور ،پروفیسر،مولانا عبید اللہ سندھی حالات ،تعلیمات،سیاسی افکار،
لاہور،المحمود اکیڈمی،۱۹۶۷ ء ص۱۸۶تا۱۸۷
۲۔ایضاً،ص۱۸۳تا۱۸۴
۳۔محمد سرور،پروفیسر،افادات و ملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ
سندھی،لاہور،سندھ ساگر اکادمی،۱۹۹۶ء،ص۴۷۲
۴ ۔ایضاً،ص۲۲۲
۵۔ایضاً،ص۴۷۲ |
|