ڈاکٹر انوار احمد خان بغدادی
شام کے حالات یقینا قابل افسوس ہیں اللہ تعالی اہل شام کی مدد فرمائے، شامی
حکومت کی طرف سے حلب فتح کئے جانے پر فتح مکہ والے سلوک وبرتاو کی امید
نہیں کی جاسکتی ہے، مگر اس خون وخرابہ کی جتنی ذمہ دار شامی حکومت ہے اتنی
ہی ذمہ دار باغیوں کے وہ مسلح گروپ بھی ہیں جو بیرونی طاقتوں کے اشارے پر
ناچتے ہیں، جنھوں نے پر امن احتجاج کی بجائے خون خرابہ کو ترجیح دیا اور
ترقی کی راہ پر گامزن ملک کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک دیا، ورنہ یورپ ،
امریکہ اور ہندوستان سمیت کتنے ایسے ایشیائی ممالک بھی ہیں جہاں پر امن
احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق مانگے جاتے ہیں اور حاصل بھی کئے جاتے ہیں۔
عرب بہاریہ کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹیونیشیا سے
شروع ہونے والے احتجاجات اور بغاوتوں کے سیلاب نے دیکھتے دیکھتے لیبیا ،
مصر اور شام کو جلد ہی اپنی چپیٹ میں لے لیا تھا، اور کچھ جگہوں پر بغاوتیں
کامیاب بھی ہوئیں ، عرب حکمرانوں پر ان بغاوتوں کا ایک مثبت اثر بھی پڑا کہ
بہت سے حکمرانوں نے آزادی اور اصلاحات کے فارمولے پر عمل کرنا شروع کردیا
، کیوں عرب حکمرانوں پر نہایت تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات کا زبردست
دباو تھا ، اسی دباو کے نتیجے میں شام کے صدر بشار الاسد نے بھی باغیوں کے
بہت سے مطالبات تسلیم بھی کئے تھے اور اصلاحات کا وعدہ بھی کیا تھا ، مگر
باغیوں نے بجائے اس کے کہ بشار کو اصلاحات کا موقع دیں ، تبدیلی کا انتظار
کریں ، اور سیاسی حکمت عملی سے مسائل سلجھائیں ، انھوں نے ایسا کچھ بھی
نہیں کیا بلکہ بیرونی طاقتوں کی شہ پر ایک منظم سازش کے شکار ہوتے ہوئے
بشار کی تختہ پلٹ پر مصر ہوگئے ، ان کے اس غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ
اقدام کا ہی نتیجہ ہے کہ آج لاکھوں شامی مسلمان بے گھر ہوگئے اور ہزاروں
لقمہ اجل بن گئے ۔
بلکہ اپنے سوا کسی اور کو مسلمان نہ سمجھنے والی باغیوں کی بعض جماعتوں نے
تشدد کی راہ اختیار کرلیا ، مسلمانوں پر شرک وبدعت کے فتوے لگا کر اپنے ہی
بھائیوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کردیا ، اور جس کسی نے ان کے تشدد پسندانہ
نظرئے کی مخالفت کی اسے بھی زندہ نہیں چھوڑا ، انھیں عناصر نے شام کے جلیل
القدر سنی عالم دین شیخ سعید رمضان بوطی علیہ الرحمہ کو مسجد کے اندر بم
بلاسٹ کر کے صرف اس لئے شہید کردیا کہ انھوں نے ان کی حمایت نہیں کی ۔ یہ
ایک مثال ہے ورنہ باغیوں نے کتنے بے گناہوں کا خون بہایا ہے اس کی بھی
رپورٹ کوئی پیش کر رہا ہے ؟ کیا وہ جانیں نہ تھیں جو باغیوں کے پر تشدد
نظرئے کی بھینٹ چڑھ گئیں؟
اس کے علاوہ یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ باغیوں کے پاس
خوں ریز بغاوت کے لئے اسلحے کہاں سے آئے تو یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ
سمیت مغربی ممالک کھلے طور پر پشت پناہی کررہے تھے ، ایسی صورت میں بشار
الاسد نے اپنی حکومت بچانے کے لئے روس کا سہارا لیا اور اس طرح ہم مسلمانوں
کی غیر دنشمندانوں حرکتوں کی وجہ سے سوریا کی سرزمین دو بڑی طاقتوں کا
میدان جنگ بن گئی، امریکہ اور روس دونوں کے اپنے مفادات وابستہ ہیں ، ہر
کوئی موقع پرستی میں لگا ہے، جب کہ واضح طور پر خسارہ صرف اور صرف مسلمانوں
کا ہواہے اور اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو مزید خسارہ ہوگا ۔
اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
یہاں میں بشار کی تائید نہیں کر رہا ہوں ، مگر صرف بشار کی تنقید کرنا کہ
اس نے روس کو ساتھ لے کر شامیوں کو ہلاک کروایا ہے ، اور باغیوں کی باغیانہ
حرکتوں کو نظر انداز کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟کیا باغیوں نے امریکہ کے
ساتھ شامیوں پر حملے نہیں کئے ؟ مجرم تو دونوں ہیں پھر ایک مجرم کو کلین چٹ
اور دوسرے مجرم کو گھیرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ ذرا سوچئے باغیوں نے امریکہ
اور مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر خونی بغاوت کرکے قتل وغارت گری اور خون
خرابے کے علاوہ شامیوں کو کیا دیا؟ شامیوں کا امن وامان اور چین وسکون چھین
کرآج شام کو جہاں پہونچایا ہے کیا بغاوت سے پہلے بھی ایسے ہی تھا؟
ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ حالات کے پیش نظر بشار کو استعفا دیکر ملک میں خانہ
جنگی روکنا چاہئے تھا کہ بیرونی طاقتوں کے منصوبے ناکام ہوتے اور ملک خون
وخرابہ سے بچتا مگر بشار ایسا نہ کرسکے ، شاید اس لئے کی کرسی چھوڑنے کے
بعد بھی ملک بچ ہی جائے گا یہ بھی تو ضروری نہ تھا ، شواہد اس کے بر عکس
ہیں، آج لیبیا قذافی سے تو نجات پا گیا مگر امن وسکون غارت ہے ، سچ کہیں
تو اب وہی ظالم ، خواہ صدام حسین ہوں یا قذافی ، اپنے ملکوں کے امن وشانتی
اور تعمیر وترقی کے لئے بہتر تھے، یہ میری زبان نہیں بلکہ اب انھیں ملکوں
میں رہنے بسنے والے ان قائدین کے مخالفین کی زبان ہے جو تجربے کے بعد اب
بدل چکی ہے ۔
بہر حال ربیع عربی کی ابتدا سے حلب کا کنٹرول سنبھالنے والے باغی آج
امریکہ اور نیٹو کے ہوتے ہوئے حلب سے کیوں جا رہے ہیں یہ ایک بہت بڑا سوال
ہے ، جس کا باغیوں کی طرف سے جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم مزید خون خرابہ نہیں
چاہتے ہیں، یہاں کوئی ان سے پوچھے کہ کاش یہی نظریہ آپ کا پہلے سے ہی ہوتا
، کاش ربیع عربی کی تعبیر پر امن احتجاج سے کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے
پڑتے کیوں کہ صدام حسین کے بعد شام کے بشار میں ایک عربی قائد کی تصویر
دکھائی دے رہی تھی جس کو بیرونی طاقتوں نے بغاوت کرواکے بری طرح کچل دیا
ورنہ محض ظلم وزیادتی کے خلاف لڑائی مقصود ہوتی تو کیا امریکہ کی حمایت
یافتہ عربی ممالک دودھ کے دھلے ہیں؟ پھر ان کے خلاف بیرونی طاقتوں نے بغاوت
کیوں نہیں کروایا؟
امریکہ کے ہوتے ہوئے آج جس آسانی کے ساتھ حلب میں باغیوں کی پسپائی ہوئی
ہے اس نے امریکہ اور مغربی ممالک کی سیاست پر بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے ،
کیا یہ کہا جائے کہ شام میں امریکہ روس سے ہار گیا ؟ تو یہ بات بھی لگتی
ہوئی نہیں ہے کیوں کہ امریکہ روس سے ہارنے والا کب ہے ؟ یا یہ کہا جائے کہ
شام کے تعلق سے امریکہ اور مٖغربی ممالک کے نظرئے میں تبدیلی آ گئی ہے ؟
تو یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی؟ یہ تمام پہلو قابل غور ہیں ۔
حلب کی صورت حال پر ہمیں سخت تکلیف ہے، اللہ تعالیٰ بے گناہوں کی حفاظت
فرمائے ، مگر جس طرح شام کے حلب کی اک طرفہ تصویر میڈیا کے ذریعہ پیش کی
جارہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ ایک بڑی سازش ہے ، اور بہت باریک کھیل
ہے ، بین الاقوامی میڈیا ہو یا پھر شوشل میڈیا اس مسئلے کو کچھ زیادہ ہی
بڑھا چڑھا کر پیش کرہا ہے جس سے یہ نتیجہ نکالنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ
حلب کی تصویروں کے ذریعہ سنی مسلمانوں کے جذبات بھڑ کا کر ایران کے خلاف
تیاری کی جارہی ہے کیوں کہ اب اسلام اور مسلمانوں کے نام پر ایک مضبوط ملک
وہی بچا ہے جو یقینا امریکہ اور مغربی ممالک کا اگلا ٹارگٹ ہے ۔
ورنہ ذرا سوچئے ہم مسلمانوں کے کتنے مسائل ہیں جن پر بین الاقوامی میڈیا
چیخ وپکار مچاتا ہے ؟ کیا امریکہ کی سربراہی میں عراق کے اندر سنیوں کی نسل
کشی نہیں ہوئی ؟ کیا اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں ہو رہی ہے
؟ کیا یمن کے اندر سب کچھ معمول کے مطابق ہورہا ہے ؟ عراق کا سنی شہر فلوجہ
کی حالت آج کے حلب سے کہیں زیادہ دل دوز تھی ، وہاں تو عورتوں ، بچوں اور
بوڑھوں پر مشتمل شہیدوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے لئے کفن بھی دست یاب نہیں
ہو پارہے تھے ، اس وقت میڈیا کہاں تھا ؟ حلب کی طرح فلوجہ کو کوریج کیوں
نہیں کیا گیا ؟ کیا اس لئے کہ وہاں امریکہ مارہا تھا اور یہاں روس مارہا ہے
؟ ذرا سوچئے ! کیا میڈیا یکساں طور پر سارے حادثات کو پیش کر رہا ہے ؟ غور
کرئے! یقینا ایسا نہیں ہے ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ شام کا مسئلہ اتنا ہائی
لائٹ کیا جارہا ہے؟
جی ہاں مقصد واضح ہے ، عراق اور لیبیا کی طرح اب ایران کے خلاف فضا ہموار
کی جا رہی ہے ، اور اگریہ مقصد نہ بھی حاصل ہوا تو میڈیا کی اس مشفقانہ
توجہ سے کم از کم عرب کے مفتخل دھڑوں میں مزید خون خرابے ہوتے رہیں گے ،
شیعہ سنی مزید دست وگریباں رہیں گے اور کسی طرح عالم اسلام میں چین وسکون
غارت رہے گا تو مغرب کے اسلحوں کا بازار کبھی سرد نہیں ہوگا ۔
لہذا ایسے نازک حالات میں تمام شیعوں اور سنیوں سے اپیل ہے کہ بیرونی
طاقتوں کے اشارے پر نہ چل کر آپس میں اتحاد پیدا کریں ، کسی ایسی پوسٹ کو
شیئر کرنے سے گریز کریں جس سے ایک دوسرے کے خلاف ہمارے جذبات بر انگیختہ
ہوں ، حکمت وتدبر سے کام لیں، آئے قبل اس کے کہ حالات مزید تباہ ہوں اپنے
مسائل کا تدارک کرلیں ، ورنہ ہماری حالت تو اس جذباتی اور جنونی بھائی کے
کی طرح ہے جو جنون میں اپنے ہی بھائی کو قتل کردیتا ہے ، پھر جب اس پر
مصیبت پڑتی ہے تو اسی بھائی کو یاد کرتا ہے کہ کاش میرا بھائی زندہ ہوتا تو
آج ایسا نہ ہوتا ، جیسے کہ صدام اور قذافی کا زمانہ آج کے مقابلے میں
اچھائی کے ساتھ یاد کیا جارہا ہے۔
ترکی میں روسی سفیر پر ہونے والے حملے کی پر زور مذمت کرتے ہیں ، یہ ایک
جذباتی اور غیر دانشمندانہ عمل ہے ، جس سے صلح ومصالحت اور جنگ بندی کی
تحریک کو نقصان پہونچ سکتا ہے ، انتقام کی آگ بھڑک سکتی ہے جس کے نتیجے
میں ہماری دو اک بستیاں اور جل سکتی ہیں ، ہمیں اس وقت پر امن سفارتی کو
ششوں کے ذریعہ خون خرابہ روک کر حلب کی تعمیر نو کے سلسلے میں عملی اقدام
کر نا چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور امن وامان کی فضا بحال رکھنے
کے لئے ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید
المرسلین، صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
|