ہر پربت ایک آگ -- ہر پتھر ایک شعلہ --- 1971 کی جنگ میں معرکہ جسڑ پل

میجر صغیر احمد

کیا کسی نے بھارتی فلم 'جاگرتی' کا یہ نغمہ سنا ہے - یہ فلم بھارت کی نئی نسل کو بھارت سے متعارف کرانے اور ان میں اپنے دیش سے محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے بنائی گئی تھی - اس میں اپنی تاریخی سورماؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے شاعر کوی پردیپ کہتا ہے

ہر پربت پر آگ جلی تھی -ہر پتھر ایک شعلہ تھا
شیر شیوا جی نے رکھی تھی لاج ہماری شان کی
اس مٹی سے تلک کرو یہ دھرتی ہے بلیدان کی
بندے ماترم -- بندے ماترم

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ 1965 اور 1971 کی جنگ میں ہمارے غازیوں نے شجاعت و دلیری داستانیں رقم کیں - شہدا نے جس ,بہادری اور جرآت کا مظاہرہ کیا اس کا اگر دنیا کو علم ہو جائے یا بھارت سچائیوں کو نہ جھٹلائے تو بھارت کے یہ تمام شاعر و گلو کار اپنے تخلیق کردہ نغموں کو سامنے رکھ کے بیٹھ جائیں گے اور تسلیم کریں گے ایسے شجاعت کی داستانیں تو پاکستان کی ان دو جنگوں میں جا بجا مختلف رزم گاہوں میں بکھری ہوئی ہیں - 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران پاکستان میں بھی ہر فرد میں جوش و جذبے کی آگ بھڑک رہی تھی اور اس کی حدت سے پتھر شعلے بنے ہوئے تھے -

آج سے ایک سال قبل جب میں نے ' ستمبر 1965 کی جنگ کا ایک غازی ' ہماری ویب میں چھپنے کے لئے ای میل کے سپرد کیا تھا تو یہ خیال‌آیا تھا کہ اس طرح کے مزید غازیوں کو ڈھونڈنا چاہیئے اور ہمارے بچوں کو ان سے روشناس کرانا چاہیئے - ہمارے شہدا نے ، ہمارے غازیوں نے نہ صرف ہماری عظمت و شان کی لاج رکھی بلکہ اسے اور اوپر بلند کر کے دنیا خصو صاً اسلامی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا لیا
میرے اس خیال کو بعد میں لوگوں کی ٹیلی فون کالوں سے مہمیز ملی جس میں انہوں نے ملک کے ادیبوں پر زور دیا تھا کہ ایسے شہدا اور غازی سامنے لائے جائیں - کچھ ریٹائرڈ فوجیوں نے کئی نام بھی بتائے - لیکن تفصیلات کا زیادہ علم نہ ہونے پر میں کچھ نہ کر سکا -
دسمبر 2016 میں سماجی میڈیا پر مختلف لوگ فوجیوں کے بارے میں 1971 کی جنگ کے حوالے سے خیالات کا اظہار کر رہے تھے تو ایک کمنٹ ( تبصرے ) نے مجھے چونکا دیا - اس میں کسی بنگلہ دیشی سابق فوجی حبیب ربانی نے ایک دوسرے پاکستانی فوجی صغیراحمد کی شجاعت و حکمت کے بارے میں تحسین کے کلمات کہے تھے- ایک بنگلہ دیشی فوجی کا ایک پاکستانی فوجی کی شجاعت کے سامنے سرجھکا دینا کچھ معنی رکھتا تھا اور اسی بات نے مجھے چونکایا تھا - جسڑ پل ( شکر گڑھ نزد سیالکوٹ ) کے محاذ کا تذکرہ تھا - یہ بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ جس پاکستانی فوجی ( صغیراحمد ) کی تعریف کی جارہی تھی وہ اس بنگلہ دیشی فوجی ( حبیب ربانی )سے انٹر نیٹ کے ذریعے رابطے میں ہے -

واقعہ جو بنگلہ دیشی فوجی افسر نے سنایا تھا کچھ ایسا تھا کہ 1971 کی جنگ کے دوران جسڑ پل کے محاذ پر دشمن کا ایک طیارہ سرحد پار کر کے پاکستان میں گھس آیا تھا - اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا - کیوں کہ نزدیک ہی فضامیں دشمن کے جہازوں کا ایک ٹولہ الگ سے آگیا تھا اور پاکستان کی طیارہ شکن توپوں کے گولے ان کا تعاقب کر رہے تھے اور یہ جہاز ان سے الگ ہو کر خاموشی سے اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہا تھا- یہ غالباً بھارت کی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا - راہ میں ایک نہایت ہی دشوار گذار علاقے میں فوج کی توپ خانے خانے کی ایک بیٹری ( نمبر 121 ) تعینات کی گئی تھی - اس کی کمانڈ یہی کیپٹن صغیر احمد کر رہے تھے - یہ بیٹری کچھ اس طریقے سے چھپائی گئی تھی کہ نزدیک کے ٹیلوں سے دشمن کا جہاز آئے تو اسے اس بیٹری کا ایک دم پتہ نہ چل سکے - اس بیٹری نے بھارتی جہاز کی حرکت دیکھ لی - یہ صورتحال دیکھ کر کیپٹن صغیر نے اپنے دستے کو حکم دیا کہ جہاز بچ کے جانے نہ پائے - اس کے لئے وہ خود کھلے میدان میں آکر ایک ٹیلے پر چڑھ گئے - اس چھوٹے سے فوجی دستے کے پاس جو ہتھیار تھا وہ اس قسم کے کام کیلئے اتنا موزوں نہیں تھا لیکن ایک جذبہ تھا جو کیپٹن صغیر نے فوجیوں کے دل میں پیدا کردیاتھا -فوجی دیکھ رہے تھے کہ ان کا کمانڈر خود کھلی جگہ کھڑا ہے اور دشمن کی زد میں ہے - انہوں نے ہر قسم کے ہتھیاروں کا رخ جہاز کی جانب کر دیا - جہاز کے پائلٹ نے یہ صورتحال دیکھی تو جہاز سے متواتر لگاتار گولیوں کی فائرنگ کی بوچھاڑ کی تکنیک استعمال کی - اب خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی تھی - لیکں اس چھوٹے سے دستے کے پورے عملے نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنی فائرنگ جاری رکھی - جہاز کے پائلٹ نے واپس ٹرن لینے کی کوشش کی ہی تھی کہ نیچے سے جانے والی گولیوں سے طیارے کو آگ لگ گئی اور اس کا رخ زمیں کی جانب ہو گیا - ایسے عالم میں دیکھا کہ جہاز کے پائلٹ نے طیارے سے پیرا شوٹ کے ساتھ چھلانگ لگادی - فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی - ہر پربت پر آگ لگی تھی ہر جوان ایک شعلہ تھا کی عملی شکل یہاں نظر آرہی تھی -جوانوں کا جوش اور غیظ و غضب اب انتہا کو پہنچ چکاتھا- ان کے ہتھیاروں سے گولیاں اب بھی نکل رہی تھیں لیکن اب جہاز کی جانب نہیں بلکہ اب ان کا رخ جہاز کے پائلٹ کی طرف تھا -یہی تو پائلٹ تھا جو پاک فوج کی توپوں ' بندوقوں اور مشین گنوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی جان لینا چاہتا تھا - لیکن جنگ انتقامی کارروائی کا نام نہیں - یہ صبر اور تحمل کا بھی نام ہے - چنانچہ ایسے عالم اور جذباتی فضا میں کیپٹن صغیر کی زور دار آواز گونجی --رک جاؤ - ہمارا کام ختم - فوجی رک تو گئے لیکن ایسے لگا کہ یہ روکنا انہیں اچھا نہیں لگا - آہستہ آہستہ ان کا جوش کم ہوا تو تب ایک فوجی جس کے بال کنپٹی کے قریب سفیدی کی جانب مائل تھے نے آہستہ سے کہا - کیپٹن صاحب نے صحیح کیا - اس پائلٹ نے نے گرفتار تو ہونا ہی تھا - ہو سکتا ہے کہ کچھ راز بتادے -صحیح کیا ہے -
فوجیوں نے دیکھا کہ وہ پائلٹ کہیں اندر کھیتوں میں اتر گیا تھا - جنگ کے سب گاؤں خالی ہو چکا تھا - انہوں نے دوربیں لگا کر دیکھا تو ایک پاکستانی جیپ نظر آئی جو پائلٹ کی جانب بڑھ رہی تھی - یہ ایک بڑی کامیابی تھی -

ساتویں جماعت میں تھا تو میرے ایک کلاس فیلو شبیر احمد جو پسرور سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے اپنے ارد گرد کے علاقوں کے بارے میں بتاتے رہتے تھے - ان کی معلومات کافی وسیع تھیں اسی لئے ہم انہیں گروجی کہا کرتے تھے - بہت ہی شریف اور مرنج مرنجاں طبیعت کے مالک تھے - وہ جسڑ سے متاثر تھے اور میں ان سے - ان کا کہنا یہ تھا کہ جسڑ تاریخ میں ایک مقام رکھتا ہے - سب سے پہلے تو یہ جسڑ مقام ہی عجیب ہے - پاکستان کے پانچ دریاؤں میں دریائے راوی ہی ایک ایسا دریا تھا جو سانپ کی طرح لہراتا ہوا بل کھاتا ہوا زمیں پر بہتا ہے - کشمیر سے نکلتا ہے بھارت میں سے گزرتا ہے اور اٹھلاتا ہوا پاکستان میں داخل ہو تا ہے - جسڑ کے مقام پر اٹھکھیلیاں بھرتا ہوا دوبارہ بھارت میں داخل ہو جاتا ہے -
اس بنگلہ دیشی فوجی افسر سے کافی خط و کتابت کے بعد آخر اس دلیر پاکستانی غازی کا پتہ وغیرہ مل ہی گیا - ان سے ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی اور ان سے ملاقات کا پروگرام بنایا -ان کا قیام کراچی میں ہی تھا - آج کل خط و کتابت کا مطلب ای میل - واٹزاپ وغیرہ ہے

میں غازی صغیر احمد کی قیام گاہ کی طرف یونیورسٹی روڈ پر رواں دواں تھا - اور سڑک تباہی کی طرف - نہ جانے متعلقہ بلدیاتی اداروں کو کب اس طرف دیکھنے کی فرصت ملے گی - میں سوچوں میں گم تھا - یہ بھی عجب تماشہ ہے کہ اپنے ملک کے جانبازوں اور غم گساروں کی خبر ہمیں باہر سے ملے - انکی شجاعت و دلیری کے بارے میں دوسرے ممالک والے ہمیں بتائیں - عجب المیہ ہے - میرا ذہن ایک دم اپنے ایک کالم کی جانب چلا گیا -ایک دفعہ پناہ بھی تو غیروں نے ہی دی تھی - میں نے اپنے اس کالم میں لکھا تھا “ یہ 16 دسمبر1971ء کا دن تھا وقت تھا تین بجے اور چار بجے کا جب بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا نے اعلان کیا اے مغربی پاکستان کے لوگو! جو مشرقی بازو میں قیام پذیر ہو ‘ نہ گھبراؤ۔ اب تمھاری حفاظت پاکستانی جنرل عبداللہ نیازی نہیں بلکہ بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کریں گے۔ یا اللہ امان ملی بھی تو کہاں ملی -یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 16 دسمبر 1971 کے معاہدے کی عبارت تھی “ -- میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اوپر نگاہ کی سامنے ملیر چھاؤنی میں داخلے کا راستہ نظر آیا - میں نے اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی اور اپنا شناختی کارڈ پہلے ہی اسکین کر کے بھیچ چکا تھا - اس سبب اندر داخلے کے سارے مراحل آسانی سے حل ہو گئے-
غازی صغیر احمد ، انکی اہلیہ عذرا صغیر اور صاحبزادے سعد احمد سے ملاقات ہوئی - ڈرائنگ روم میں بیٹھے گرم مہک دار چائے پیتے ہوئے ایک راحت کا سا احساس ہوا اور راستے کی ساری کلفت دور ہوگئی - میں اپنے آپ کو تازہ محسوس کر نے لگا - میں نے ارد گرد نظر ڈالی - ایک خاص قسم کے پیتل کے پائپ نظر آئے - جس میں سوراخ کئے ہوئے تھے - میری نظر ان پر جم گئی - غازی صغیر احمد صاحب نے کہا یہ توپ کے گولے ہیں اور اس کے بعد ان کے بارے میں بتانے لگے - کچھ سمجھ میں آئی اور کچھ نہیں -
1971 کی جنگ کی باتیں شروع ہوئیں - باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ ان کا نام تمغہ جراءت کے لئے تجویز کیا گیا تھا -
ایک مرتبہ حکیم محمد سعید شہید نے کہا تھا کہ میں اپنی بیگم سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق بات کرتا ہوں - وہ خالص گھریلو خاتون ہیں چنانچہ میں ان سے نمک مرچ کی ہی بات کرتا ہوں - یہی بات میں نے غازی صغیر احمد میں دیکھی - وہ بھی اپنے ملنے والوں کی ذہنی رسائی کا خیال رکھتے ہیں - یہی معاملہ میرے ساتھ ہوا - آہستہ آہستہ گزشتہ زندگی کے ابواب میری ذہنی اپروچ کے مطابق کھولتے رہے - محاذ پر کیا ہوا - کیسے دشمن کی پیش قدمی روکی گئی - کیسے دشمن کو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ اگلا قدم کیا اٹھایا جائے اور ان کے اسی ذہنی پریشانی کا کتنا فائدہ اٹھایا - یہ بھی بتایا کہ کیسے افسران بالا نے انکی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کے لئے تمغہ جراّت کی تجویز پیش کی -غازی صغیر احمد کے مطابق ان کے اوپر موجود افسر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے اور تمغہ جراءت کی تجویز کرتے ہوئے کہا کہ

اس چودہ روزہ جنگ میں پی اے 10569 کیپٹن صغیر احمد نے بحیثیت 121 بیٹری -میڈیم توپ خانہ ( آرٹلری) افسر نہایت ہی دلیرانہ اور منفرد انداز سے اپنی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا- 5 دسمبر کی شب ، جسڑ کے محاذ اور پل پر جس ماہرانہ انداز سے دشمن کے کمین گاہوں کو مسمار کر کے اس کے دریا پار کرنے کے منصوبے کو ناکام کیا وہ قابل تعریف ہے - اس سبب دشمن اپنے زخم چاٹتے ہوئے الٹے قدم واپس جانے پر مجبور ہو گیا -

اس افسر اور اس کی بیٹری کی اچھی کارگردگی مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک اور خطروں اور مسائل سے بھرپور مہم پر 11 دسمبر 1971 کو جنگ کے دوران بھیجا گیا- وہ کام تھا جنگ کے دوران میدان جنگ کے اندر ہی رات کے وقت اسلحہ بارود اور جوانوں کو کسی قسم کی زک پہنچائے بغیر دوسرے مقام پر پہنچانا -یہ سہل کام نہیں تھا - اندھیری رات میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا- دھند نے مصائب میں مزید اضافہ کیا ہوا تھا - کہاں کھائیاں ہیں کہاں کڈھے ہیں کچھ پتہ نہ چل رہاتھا - سرکنڈے کے قد آدم جھاڑیاں الگ رکاوٹ ڈال رہی تھیں - اور ان سب سے زیادہ دشمن متواتر گولہ باری کرہا تھا اور جہاز تھوڑی تھوری دیر حملہ آور ہو رہے تھے - یہ کام نہایت ہی مہارت کا طلب گار تھا - ان کڈھوں - گڑھوں سے بچاتے ہوئے اس افسر نے نہایت کامیابی سے کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر یہ معرکہ سرانجام دیا اور اسلحہ بارود اور جوانوں کو منزل مقصود تک پہنچایا -

ایک مرتبہ دشمن صرف پندرہ سو گز کے فاصلے پر تھا اور کیپٹن صغیر احمد کے سوا کوئی اور دوسرا سینیئر افسر وہاں موجود نہیں تھا - لیکن اس افسر نے کسی خوف و پریشانی کا اظہار کئے بغیر اپنی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی بیٹری کے سامنے والے حصے سے دشمن پر مشین گنوں سے فائرنگ کرتے رہے اور اپنی رجمنٹ کے عقبی توپ خانہ بیٹریوں سے گولہ باری کرواتے رہے - دشمن کو اتنا بے جگری والے مقابلے کی جو صرف پندرہ سو گز کے فاصلے سے جاری تھا کی توقع نہیں تھی اور اب وہ ایسے مقام پر آگیا تھا کہ نہ جائے رفتن نہ پائے مائدن -نتیجتاً دشمن کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا -
قربانی کے جذبے سے معمور وہ ایک اعلیٰ مثال ثابت ہوئے - یہ امر بھی قابل تحسین ہے کہ اس عالم میں بھی کیپٹن صغیر احمد سینیئر افسران کو صحیح صورتحال سے متواتر آگاہ رکھتے تھے جس کے سبب سینیئر افسران کو اپنی منصوبہ بندی میں کسی قسم کی دشواری نہیں پیش آتی تھی
-اس جنگ میں اپنی بیٹری کے جوانوں میں جوش و خروش کا جذبہ بیدار کرنے اور اسے نفسیاتی طور پر برقرار رکھنا اور ایک لحظہ بھی مایوسی کی لہر نہ آنے دینا کیپٹن صغیر کی طرف سے ایک اعلیٰ مثال ہے

سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جانا یہ محاورہ بچپن میں پڑھا کرتا تھا -اسے جب بھی جملوں میں استعمال کر نا پڑتا تو جملہ لکھنے سے پہلے ایک خیالی سا امیج یا تصویر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی تھی جس میں ایک نہایت ہی کڑیل مضبوط جوان ،ہاتھ میں تلوار لئے اور سینے پر بڑی سی گول ڈھال باندھے گھوڑے کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑا ہے اور دشمن کو شعلہ بار آنکھوں سے دیکھ رہا ہے - لیکن اس کی عملی تصویر تو یہ واقعات سنکر سامنے آئی جو غازی صغیراحمد سنارہے تھے اور کاغذ پر تحریر ان کے افسر اعلیٰ کے تعریفی کلمات اس کی شہادت دے رہا تھا -
( مجھے یاد پڑتا ہے جنرل فضل مقیم نے بھی اپنی کتاب میں شاید اس محاذ کا تذکرہ کیا تھا - اسی طرح نیٹ پر ایک آرٹیکل بھارتی میجر جنرل سکھ ونت سنگھ کا بھی اس جنگ کے بارے میں موجود ہے )

میں شجاعت و عزم کے اس نشان کو دل ہی دل میں سلوٹ کیا اور ہماری گفتگو مزید آگے بڑھی -
غازی صغیر احمد نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم سبی ، نوشکی بلوچستان سے حاصل کی - اسلامیہ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا - گورئمنٹ سائنس کالج کوئٹہ سے ایف ایس سی پاس کی - وہ اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں جو انہیں اچھے اساتذہ اور والدین کی کے توسط سے ملی -
جب والدین کا ذکر آیا تو ایک بار پھر چونک گیا - وہ بتارہے تھے کہ والدین کا تعلق میسور سے تھا - میسور کا نام سنتے ہی دلیر شہید ٹیپو سلطان یاد آجاتے ہیں - شاید یہ ٹیپو سلطان کی شجاعت کا ہی پرتو تھا کہ غازی صغیر احمد 1971 میں دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے تھے -

جب گھر سے چلا تھا تو دو باتیں ذہن میں بٹھا کر چلا تھا -اول یہ کہ سیاست پر کوئی بات نہیں ہوگی چاہے وہ 1971 کی جنگ سے متعلق ہو یا موجودہ زمانے کی کیونکہ میرے نزدیک موجودہ دور میں پاکستان میں سیاست کے انداز بھی نہایت عجیب سے ہیں -یہاں گونگوں سے بہروں کو پکارنے کے لئے کہا جاتا ہے اور بے بس عوام یہ سب برداشت کرنے پر مجبور ہیں -دوسری بات جس سے اجتناب کرنے کا سوچا تھا وہ یہ یہ کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کر رہے ہیں - انٹرویو کے دوران یہ عزم برقرار رہا- سامنے ہی ان کی ایک تصویر نظر آرہی تھی جس میں وہ پاک سوزوکی کمپنی میں کسی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے - اور جاپانی ہمہ تن گوش تھے - تصویر دیکھ کر دوسری بات پر زیادہ عمل نہیں کر سکا - زبان نے دل کا ساتھ نہیں دیا اور منہ سے بے اختیار نکل گیا یہ تصویر کیسی ؟
انہوں نے بتایا کہ وہ پاک سوزوکی کمپنی اور بلوچستان وہیلز میں بطور ڈائرکٹر کام کر چکے ہیں - سوزوکی میں وہ اکلوتے پاکستانی ڈائرکٹر تھے باقی سب جاپانی تھے - ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سوزوکی کمپنی نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کردی تھی پاکستان میں اداروں کے نظم و نسق سے متعلق کافی معلومات ملیں - لیکن یہ اس کالم کا موضوع نہیں ہیں اس لئے ان سب باتوں کو کسی اگلے کالم کے لئے محفوظ کر لیا ہے -

کھڑکی سے باہر نظر ڈالی تو دیکھا کہ سورج کی کرنیں اب سنہری ہونے کی طرف مائل تھیں اور درختوں کے سائے لمبے ہو چکے تھے -دور دو بچے کھیلتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے ںظر آئے - اتنی دیر گزر گئی لیکن غازی میجر صغیر احمد کی باتوں میں ایسا کھویا ہوا تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا

ان سے رخصت چاہی - میجر صاحب اور ان کا بیٹا خود ہی گیٹ تک چھوڑنے آئے -

ملیر چھاونی کے گیٹ کے باہر ایک ٹی وی چینل کی گاڑی نظر آئی - وہ شاید کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے کہیں جارہی تھی - میرے دل میں آیا کہ ان سے کہوں کہ جب بھی 1971 یا 1965 کی جنگ کی بات ہوتی ہے تو بیدیاں ، واہگہ ، چونڈہ ، فاضلکا ,چھمپ ، کھیم کرن میں ہمارے جوانوں کی سرفروشی کی داستانیں سنائی جاتی ہیں - اس جسڑ پل کے 1971 کے معرکے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاتی جہاں 32 میڈیم رجمنٹ کی ایک چھوٹی سی بیٹری کے جوان و افسر ، دشمن کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹنکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے اور ان کی شجاعت و جان نثاری کے جذبے کے سامنے دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی -
گاڑی آگے نکل گئی اور پھر چھوٹی ہوتی گئی اس بعد ایک نقطہ بن کر غائب ہو گئ
میں سر جھٹک کر اپنی یونیورسٹی روڈ کی طرف چل پڑا جہاں بڑے بڑے کھڈے میرا انتظار کر رہے تھے
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355007 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More