پاکستان کی آپ بیتی نمبر2
(Muneer Ahmad Khab, RYKhan)
|
میں پاکستان جس کے بارے میں مفکرین کا کہنا
ہے کہ میں تو اس دن قایم ہو گیا تھا جب پہلا شحص برصغیر میں مسلمان ہوا تھا
انگریز جو برصغیر میں تجارت کی غرض سے آے تھے اٹھارہ سو ستاون میں ہندووں
اور مجھے حاصل کرنیوالوں نے جنگ لڑی جسے جنگ آزادی کا نام دیا گیا انگریزوں
نے اقتدار مجھے حاصل کرنیوالوں سے چھینا تھااور اسے خوف تھا کہ مجھے حاصل
کرنیوالے ہی انگریزوں سے ٹکر لے سکتے ہیں اور مجھے حاصل کرنیوالوں بے ایک
ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی. مگر اب ہندوو مجھے حاصل کرنیوالوں پر
حکومت کرنے کا سوچ رہے تھے جنگ آزادی میں فتج کے بعد انگریزوں نے ہندوو سے
اچھے تعلقات رکھے مگر مجھے حاصل کر نیوالوں پر معاشی دروازے بند کر دیے گے
دوبوں قوموں کا مجھے حاصل کرنیوالوں کے خلاف اتحاد ہو گیا اور مجھے حاصل
کرنیوالے پسماندگی میں چلے گے اور ان پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے گے اور
مزہبی آزادی تک نہ دی گی مجھے حاصل کرنیوالے جب عبادت کرتے تو ہندوو کی
طریقوں سے انکو تنگ کرتے مجھے حاصل کر نیوالے ان دونوں قوموں کے رویے سے
تنگ آگے اور روز بروز انکی. حالت خراب یوتی چلی گی اور انگریز برصغیر کے
وسایل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے اور یہاں کے مقامی لوگوں کی حالت
خراب سے خراب تر ہوتی چلی گی اور مجھے حاصل کرنیوالے آہستہ آہستہ منظم ہونا
شروع ہوئے اور سرسید احمد خان کی شکل میں مجھے حاصل کرنیوالوں کو ایک ر
ہنما ملا مجھے حاصل کرنیوالے انگریزی تعلیم سے نفرت کرتے تھے مگر سر سید
اجمد خان نے میرے لوگوں کو سمجھایا کہ انگریزی تعلیم کے بغیر ان دوبوں کا
مقابلہ نہیں کیا جا سکتا چناچہ اس عظیم مفکر نے علی گڑھ کے نام سے ایک سکول
کی بنیاد رکھی جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی دی جانے لگی
اور پہلے تو سرسید احمد خان یندو مسلم اتجاد کے داعی بنے مگر بہت جلد انہیں
احساس ہو گیا کہ مسلم ہبدو دو الگ الگ قومیں ہیں اور سب سے پہلے دو قو می
نظریہ کا لفظ سرسید احمد خان نے ہیش کیا اور اس عظیم معلم نے مجھے حاصل
کربیوالوں کی بڑی رہنمای کی اور ابگریزوں کو باور کرایا کہ مسلمان بھی ایک
الگ قوم ہیں انگریز جکومت کو انھیں بھی حقوق دینے پڑیں گے سر سید احمد خان
تعلیمی میدان میں بہت سر گرم ہوگے اور مجھے حاصل کرنیوالوں کی کچھ حالت
بہتر ہوی اور اس دوران آہستہ اہستہ ہندوستان میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز
ہوا اور ہندوستان میں پہلی سیاسی جماعت اندین نیشنل. کانگریس کے نام سے
اٹھارہ سو پچاسی میں بنیاد رکھ دی گی اور اس طرح یندوستان میں سیاسی
سرگرمیوں. کا آغاز ہوا اور مجھے حاصل کر نیوالے بھی پہلے اس جماعت میں شامل
ہوتے رہے مگر بہت جلد انہیں احساس ہو گیا کہ یہ تو صرف ہندوو کی جماعت ہے
جو صرف ہندوو کا مفاد سوچتی ہے مسلمانوں کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے اور
اسکے بعد مجھے حاصل کرنیوالے بھی اپنے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت
محسوس کرنے لگے اور اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی سوچ لی اور آہستہ آہستہ منظم
ہونا شروع ہوگے- |
|