کل کی دھند میں لپٹی حسین صبح کا آغاز بھی
حسب معمول بچوں کے رونے اور چیخنے کی آوازوں سے ہوا۔ کیونکہ اس وقت میرے
تقریباََ تین سالہ بھتیجے کو سکول کے لیے تیار کیا جا رہا ہوتا ہے اور وہ
بیچارہ گرم گرم رضائی سے نکل کر بھاری سا بیگ اٹھائے پوری طاقت سے رو رہا
ہوتا ہے۔ اس عمر میں جہاں بچے خود سے واش روم نہیں جا سکتے انہیں گلی گلی
کھلے مونٹیسری سکولوں میں میٹرک فیل استانیوں کے زیر نگرانی اعلیٰ تعلیم کے
حصول کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ میرے اس عمر میں بچے کو سکول نہ بھیجنے کے
اعتراض کو بڑے بھاری بھرکم دلائل سے دبا دیا جاتا ہے ۔ اس معصوم سے بچے کو
۶ ماہ میں بس ایک ـ (ا ) کی پہچان ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔ اکو الف تیرے درکار ۔۔۔۔۔
مونٹیسری تعلیم کا آغاز ایک اطالوی ماہر تعلیم اور ماہر نفسیات Maria Tecla
Artemisia Montessori نے کیا تھا۔اس نظام تعلیم کا ہمارے ہاں رائج مونٹیسری
سسٹم سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی
ہے۔ ہمارے ہاں یہ اچھا خاصا منافع بخش کاروبا ر بن چکا ہے۔یورپ میں جہاں
ماں باپ دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے وہاں تو شاید اس سے کوئی مثبت نتائج
نکلے ہوں مگر اپنے ہاں فائدہ تو مجھے ابھی تک کوئی نظر نہیں آیا البتہ بچوں
کی ماں باپ سے بغاوت کا رویہ نظر آتاہے۔ ممتاز مفتی نے لکھا ہے کہ جذبہ
احترام ہمارے ہاں اس قدر زیادہ ہے کہ باپ اور بیٹا آپس میں بات ہی نہیں
کرتے۔کہیں تربیت اور تعلیم کا یہ نظام ہمارے بچوں کو ماں باپ دونوں سے دور
نہ لے جائے۔
بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے تو سات سال کی عمر سے
پہلے نماز کا حکم نہیں دیا ہم تین سال کے بچے کو کتابوں کا ڈھیر دے کر سکول
چھوڑ آتے ہیں۔ بہرحال یہ میری ذاتی رائے جس سے آپ کومکمل اختلاف کا حق ہے۔
شیخ مرحوم کا قول اب بھی یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
|