ایک دیا ، ایک درخت!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
ایک نجی سکول کی خبر آئی ہے کہ وہاں
بچوں سے فیس وصول نہیں کی جاتی، بچوں کی تعلیم تو مفت ہے، مگر والدین کو
ایک چیز کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، بات صرف بندوبست پر ہی تمام نہیں ہو جاتی،
جس چیز کا والدین سے تقاضا کیا گیا ہے، اس پر برسہا برس توجہ دینا پڑتی ہے
اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اور وہ چیز ہے درخت۔ بچوں کو
سکول داخل کرواتے وقت والدین سے ایک پودا لگوایا جاتا ہے، جس کی دیکھ بھال
بھی والدین کے ذمہ ہوتی ہے۔ کتنی خوبصورت کہانی ہے، ایک طرف ننھے، معصوم
بچے تعلیم حاصل کریں گے، ان کی صلاحیتوں کی آبیاری ہوگی،ان کو اچھا شہری
اور انسان بنانے کے لئے سکول کوشا ں ہوگا، بچے بہتر شہری بنیں گے تو آنے
والے وقت میں خوبصورت معاشرہ وجود میں آئے گا۔ دوسری طرف انہی بچوں کے
والدین اپنے ہی ہاتھوں سے لگائے گئے پودے کی دیکھ بھال کریں گے، اس کو پانی
دیں گے، اس کی کانٹ چھانٹ کریں گے، اس کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں گے۔
درخت بڑا ہونے کی صورت میں اس کا سایہ کام آئے گا، اس کی لکڑی استعمال ہو
سکے گی، وہ پھل دے گا۔ گویا سکول والے اور والدین دونوں مل کر دو قسم کے
درخت تیار کریں گے، جو آنے والے وقت میں گل وگلزار کے روپ میں سامنے آئیں
گے۔ یہاں یہ وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ جس سکول کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، یہ
پاکستان میں نہیں، بھارتی ریاست’’ چھتیس گڑھ‘‘ میں ہے۔یقینا اس سکول کے پاس
اس قدر زمین ہوگی، جس میں یہ پودے لگائے جاتے ہیں، اور والدین ان کی آبیاری
کا ذمہ نبھاتے ہیں۔
یہ عزم کی داستان ہے، کسی معاشرے میں لوگ مل کر بہت سے اچھے کام کر سکتے
ہیں، مگر اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک خاندان کی طرح رہیں، وہ
ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شرکت کرنے والے ہوں، ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے
والے ہوں، دوسروں کا احساس کرنے والے اور ان کی مدد کرنے والے ہوں، عزت و
احترام میں پہل کرنے والے ہوں،کمزوروں کو ساتھ لے کر چلنے والے اور مشکل
میں دوسروں کے کام آنے والے ہوں، قانون اور اخلاق کی پابندی کرنے والے ہوں،
اچھے برے حالات میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں، مل کر مسائل حل کرنے
والے اور مصائب سے ٹکرانے والے ہوں، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر
مصیبتوں کو پیچھے دھکیلنے والے ہوں۔ مل جل کر آگے بڑھنے کی تڑپ رکھتے ہوں،
محنت ، لگن اور خلوص جیسی صفات سے مالا مال ہوں، تو ایسا معاشرہ مثالی
معاشرہ بن سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسا کرنے سے دیکھتے ہی دیکھتے معاشرہ
تصوراتی اور خیالی معاشرہ بن جائے، اس کے لئے برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔
مگر سب کچھ کرنے کے لئے کسی چیز کا آغاز کرنا پڑتا ہے، صرف باتوں اور
خواہشوں سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ اس کے لئے لگتی ہے محنت زیادہ۔
اپنے ہاں نجی سکولوں کی بے شمار اقسام ہیں، کوئی ڈالروں میں فیس وصول کرتے
ہیں، توکوئی سہ ماہی فیس لیتے ہیں، کچھ کی فیس دسیوں ہزار روپے ماہانہ ہے،
ان سے ساتھ بہت سی رقم دیگر مدات میں بھی دھر لی جاتی ہے۔ کچھ کی عمارتیں
ذاتی ہیں تو کچھ بڑی کوٹھیوں وغیرہ میں اپنا کام چلا رہے ہیں۔ کچھ کی
عالیشان عمارتیں اور فیس کے مطابق سہولتیں موجود ہیں۔ کچھ سکول درمیانے ہیں
اور کچھ گلی محلے کے سکول ہیں، جو چند سور وپے لے کر اپنے وسائل کے ساتھ
سکول چلا رہے ہیں۔ اِ ن میں سے اکثر سکولوں کی ایک چیز مشترکہ ہے، کہ ان کی
زیادہ توجہ اپنے کاروبار اور آمدنی پر ہوتی ہے۔ جو جس درجے میں ہے، اسی کے
حساب سے اس کے معاملات اور مسائل ہیں۔ اپنے ہاں مخیر حضرات کی کمی نہیں،
بہت سے لوگوں نے مفت تعلیم کے لئے سکول کھول بھی رکھے ہونگے، مگر ان لوگوں
کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مفت تعلیم بھی نہیں، ہر سال شجر کاری کے
نام پر پودوں کا جو ستیاناس کیا جاتا ہے، وہ الگ داستان ہے۔ کروڑوں پودے
لگائے جاتے ہیں، ان میں سے قسمت سے چند سو بچ جاتے ہیں۔ نجی سکولوں میں تو
اس قدر جگہ نہیں ہوتی کہ درخت لگائے جائیں، سرکاری سکولوں سے کسی تعمیری
کام کی توقع رکھنا بھی ایک مذاق ہی ہے۔ اب ہم لوگ اپنے حصے کا دیا جلانے کی
بات تو ہر محفل میں کرتے ہیں، مگر عمل کی نوبت نہیں آتی، آیئے ایک دیا بھی
جلائیں اور ایک درخت بھی لگائیں۔ باوسیلہ لوگوں کو فرصت کے اوقات میں اس
بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ |
|