بسم اﷲ الرحمن الرحیم
انسان روح اور جسم سے مرکب ہے ، جسم کی تخلیق مٹی سے ہے اور روح اﷲ کے حکم
کو کہتے ہیں ۔جسم اور روح کے امتزاج سے ایک چلتا پھرتا ، ہنستا کھیلتا ،
روتا رلاتا ، کامیاب اور ناکام انسان وجود میں آتا ہے ۔ ان دونوں کی
ضروریات اور تقاضے جدا جدا ہیں ، ان کی بے چینی اور راحت کے اسباب و ذرائع
باہم مربوط لیکن بظاہر مختلف نظر آتے ہیں ، جسم مادے سے بنایا گیا ہے
(’’اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں کھنکھناتے ہوئے گارے سے ایک بشر
بناؤں گا ‘‘ (الحجر ،۲۸)اس لیے مادی اشیا ء کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے ،
جسم کی غذا و نشو نما کا دار و مدار اجناس واثمار پر ہے ۔ جبکہ روح ایک
لطیف شے ہے ۔ اس کی غذا اور نشو نما کا انحصار بھی لطیف چیزوں پر ہے ، قرآن
پا ک میں روح کو اﷲ کا حکم کیا گیا ہے ’’اور تجھ سے روح کے متعلق پوچھتے
ہیں آپ کہہ دیں روح میرے رب کا حکم ہے اور تم کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے
‘‘۔(بنی اسرائیل ،۸۵)اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو روح کی غذا قرار دیا ہے ۔ وہ
لوگ جو ایمان لائے ان کے دل اﷲ کی یاد سے چین پاتے ہیں ،’’ آگاہ رہو اﷲ کی
یاد سے ہی دل سکون پاتے ہیں ‘‘ (الرعد ،۲۸)
ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے ، تخلیق انسانیت کا مقصد اﷲ کی عبادت اور
یا د الٰہی ہے ۔’’اور میں نے جن اور انس کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ‘‘(الذٰریات،
۵۶)یہ بندگی اور عبدیت ہی انسان کی معراج و منزل ہے ، اﷲ تعالیٰ کی عبادت
اور اس کے اسم ذات کے ورد میں جو برکت ، لذت ، حلاوت ، سرورو طمانینت ہے اس
کی اعلیٰ مثال حضرات صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں بکثرت ملتی ہیں ، اﷲ کے
نام کا ذکر دلوں میں طمانینت اور سکون پیدا کرتا ہے ۔دنیا اور آخرت میں خیر
و برکت کا باعث ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا مضبوط ذریعہ ہے
، نبی اکرم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے ذاکرین و مخلصین کے پا س بیٹھنے کا حکم دیا
۔’’آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے کا پابند کیجئے جو صبح و شا م اپنے
رب کو پکارتے رہتے ہیں ، وہ صرف اﷲ کی رضا کے طلبگار ہیں ،مگر آپ کی توجہات
ان (صحابہ کرام ؓ )سے ہٹنے نہ پائے ‘‘۔ (الکہف ۔۲۸)مسلمان جب رب کریم کے
نام کا ذکر کر تے ہیں تو ان کے ایمانوں میں ترقی ہوتی ہے ، دل میں تقویٰ
پیدا ہوتا ہے ، اﷲ کریم کی حضوری نصیب ہوتی ہے ،حضرت ابو ہریرہ ؓ آپ ْﷺ کا
ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’حق تعالیٰ عز
و جل ارشاد فرماتے ہیں کہ میں بندہ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا
کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے
ساتھ ہوتا ہوں ، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اپنے دل
میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا ذکر مجمع میں کرتا ہے تو میں اس کا تذکرہ
اس مجمع سے بہتر (فرشتوں کے)مجمع میں کرتا ہوں اور اگر بندہ میری طرف ایک
بالشت متوجہ ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ
ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ ادھر متوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف
چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر چلتا ہوں (متفق علیہ )اﷲ تعالیٰ کے
نزدیک محبوب ترین عمل ذکر ہے ۔ذکر اﷲ کے لیے کسی خاص ہیئت کی ضرورت نہیں
اور نہ ہی کسی وقت کی قید ہے ،بلکہ کھڑے ، بیٹھے ،چلتے پھرتے اور نرم و
ملائم بستروں پر ، جہا ں اور جس حالت میں ہو اﷲ کی یاد اور اﷲ کے نام کے
تکرار سے غافل نہ ہونے والوں کو قرآن پاک میں عقلمند کہا گیا ہے ۔
وہ ایسے لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی ، بیٹھے بھی ،لیٹے
ہوئے بھی اور آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں (غور کے
بعد یہ کہتے ہیں )کہ اے ہمارے رب آپ نے یہ سب بے کار تو پیدا نہیں کیا ، ہم
آپ کی تسبیح کرتے ہیں ، آپ ہمیں عذاب جہنم سے بچا لیجئے ،(سورہ آل عمرا ن
،۱۹۱)’’جب مسلمان آپ اﷲ تعالیٰ کی کائنات میں غور و فکر شروع کرتے ہیں اور
رب کریم کی قدرت و طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے یاد کرتے ہیں تو ر ب کے
خوف اور خشیت کی وجہ سے ان لوگوں کے جسم کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں ۔پھر ان
کے دل اور کھالیں اﷲ کی یاد پر نرم ہو جاتی ہیں ، یہ اﷲ تعالیٰ کا ہدایت
دینا ہے ۔وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور جس کو اﷲ راہ بُھلا ئے اس
کو کوئی بچانے والا نہیں ہے‘‘ ۔ (الزمر ۔۲۳)یعنیان پر خوف اور غبا کی کیفیت
طاری ہو کر ان کا قلب و قالب ، ظاہر و باطن اﷲکی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے
اور اﷲ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے ۔(تفسیر
عثمانی )پھر انسان معرفت الٰہی میں سفر طے کرتا ہے اور رب کریم کے انعامات
اور اس کی رحمتوں کا مستحق بنتا رہتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے
میرے ولی (دوست )کو تکلیف پہنچائی میرے اس سے اعلان جنگ ہے میرا بندہ میرے
قریب ہوتا ہے اس عمل کے ذریعہ جو مجھے اس پر فرض کیے ہوئے اعمال میں سب سے
زیادہ محبوب ہے ،نوافل کے ذریعہ میرا بندہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک
کہ میں اس بندے سے محبت کرنے لگتا ہوں ، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو پھر
میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنے ، اور اس کی آنکھ بن جاتا
ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ پکڑے
اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے
تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے میں اس کو پناہ
دیتا ہوں ‘‘۔(صحیح بخاری )
انسان قلب کی موت و حیات اﷲ کے ذکر پر منحصر ہے ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ
روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اﷲ کا ذکر کرتا ہے اور جونہیں کرتا ، ان دونوں کی
مثال زندہ اور مردہ کی سی ہیکہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا
مردہ ہے ۔ (متفق علیہ )اچھی عادات و اخلاق ، علوم و معارف کا مرکزیہ دل ہے
۔ کیفیات و تجلیات الٰہیہ کو صرف ذاکر اور زندہ دل ہی جذب کر سکتا ہے ۔ جو
اﷲ کے ذکر کی وجہ سے نرم اور تر ہو چکا ہوتا ہے ۔ اور جب دل اﷲ کے ذکر سے
خالی ہو تا ہے تو نفس کی گرمی ،شہوت کی آگ اور معاصی کی نحوست کی وجہ سے دل
سیاہ اور سخت ہو جاتا ہے جس کا اثر پورے بدن پر پڑتا ہے ، طبیعت سے اطاعت
شریعت کا جذبہ مفقود اور کمزور ہونے لگتا ہہے ، نیکی کے بجائے بدی کی طرف
میلان پیدا ہونے لگتا ہے ، یہاں تک کہ دین اور شریعت کی بات کو سمجھنے کی
صلاحیت کو ان سے سلب کر لیا جاتا ہے ، ’’وہ دل رکھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں
ہیں ، آنکھوں کے ہوتے ہوئے دیکھتے نہیں ہیں ، کانوں کے ہوتے ہوئے سنتے نہیں
ہیں ،وہ چوپائیوں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ہیں۔ (الاعراف ،۱۹۹)یہ
لوگ قلبی بے چینی اور ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں ، موسیقی اور لہو ولعب
میں سکون کے متلاشی یہ لوگ اپنی قلوب و صدور میں ہر آن و ہر گھڑی ایک خلاء
محسوس کرتے رہتے ہیں ، ہر موقع پر طمانینت اور سرور کے درپے ہوتے ہیں مگر
سکون ، طمانینت ، ذہنی اور قلبی تازگی صرف اور صرف اﷲ کریم کے نام کے تکرار
اور شریعت کے احکام میں ہے ،انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطے ، قانون اور طریقے
عارضی اور فانی ہیں لیکن اﷲ کا حکم ابدی اور مسلم ہے کہ دلو ں کا اطمینان و
سکون اﷲ کے ذکر سے ہے ،قلبی اور روحانی حیات کا دار و مدار ذکر الٰہی پر ہے
۔
ایمان و اعمال کی قوت و ضعف کا انحصار بھی اﷲ کریم کے نام کے بار بار تکرار
پر ہے گویا ذکر الٰہی کی قلت و کثرت جسم اور روح دونوں کو متاثر کرتی ہے جس
کا اظہار احکام شریعت اور نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ پر عمل کی صورت میں ہوتا
ہے ۔
|