سلطان التارکین - حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ

اولیاء اﷲ کے حالات اور کمالات و کرامات پڑھنا سننا موجب نجات اور کفارۂ ذنوب و سیتات بلکہ ہے ان کے ذکر پر رحمت باری کا نزول ہوتا ہے ۔
حضرت قدرۃ السالکین ،سلطان العارفین حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ بھی بر صغیر پاک و ہند کے عظیم اولیاء اسلام میں سے ہیں ۔آپ نے علم و عمل ، اخلاق و کردار ،محبت و پیار اور عشق رسول ﷺ کے ذریعے دینِ اسلام کی عظیم الشان خدمات سرانجام دیں ۔کئی گمراہوں کو راہِ ہدایت پر گازن فرمایا آپ نے پوری زندگی اتباعِ رسول اور تزکیۂ نفس میں گزاری آپ نے احسن طریقے سے تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیئے۔
کھرل برادری:اگر چہ مقسوم ازلی ذات پات کا محتاج نہیں لیکن فطرت کا تقاضا ہے کہ بعض نیک اثرات پشتوں تک جاتے ہیں ۔کھرل برادری میں یوں تو بہت سے ہیرے جواہر روحانی ہوں گے لیکن ہماری معلومات کے مطابق چار بزرگ ایسے ہیں جن پر عالم اسلام نازاں ان میں۔
(1) حضرت حافظ عبد الخالق اویسی رحمۃ اﷲ علیہ بخشن خان ضلع بہاولنگر
(2) حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ خانقاہ شریف ضلع بہاولپوہ
(3) حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اﷲ علیہ چشتیاں شریف اور
(4) حضرت حافظ دائم رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
سیرانی بادشاہ کے آباؤ اجداد :کھرل برادری کی خوش قسمتی ہے اور ضلع اوکاڑہ کی بستی گوگیرہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہاں 1137ھ میں ایک قطب زماں نے جنم لیا۔ والدین نے عبد اﷲ نام رکھا لیکن طریقت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر محکم الدین صاحب السیر اور سیرانی بادشاہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔
آپ کے آباؤ اجداد ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کی نظرِ کیمیا کے اثر سے مسلمان ہوئے اور بزرگی کے بلند مرتبے پر پہنچے ۔ان میں سے ایک بزرگ محمد بخش کے نام سے مشہور ہوئے جن کی اولاد میں سے حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ پیدا ہوئے ۔
اس بزرگ کی مزار بگھیا (اوکاڑہ) میں اب بھی موجود ہے ۔
آپ کی کئی پشتوں میں اکثر حضرات نہ صرف عالم و فاضل تھے بلکہ آپ کی والدہ بھی حافظ قرآن تھیں۔ جس کا پتا ہمیں آپ کے شجرۂ اصلی سے ملتا ہے اور جہاں کھرل قوم کا بہادری اور دلیری میں کوئی ثانی نہیں وہاں اُسے یہ بھی فخر حاصل ہے کہ اس قوم نے سلسلۂ طریقت کے نامور و بزرگان دین حضرت خواجہ عبد الخالق ، خواجہ محکم الدین ۔حضرت خواجہ نور محمد مہاروی اور حضرت حافظ دائم جیسے با کمال انسانوں کو جنم دیا ۔(رحمۃ اﷲ علیہم)
اگر چہ آپ کی پیدائش بستی گوگیرا خاص ضلع اوکاڑہ میں ہوئی لیکن آپ نے بستی گوگیرا سے نقل مکانی فرما کر بستی صوحا شریف حضرت دیوان چاولی مشائخ سے پانچ میل مغرب کی جانب سکونت اختیار فرمائی ۔ آپ کے ایک چچا محمد فاضل صاحب وہاں رہ گئے چنانچہ محمد فاضل صاحب کی اولاد ابھی تک وہیں موجود ہے۔
حضرت محمد بخش رحمۃ اﷲ علیہ کے پوتے حضرت حافظ محمود صاحب کے سات بیٹے ہوئے جن میں سے تین لا ولد اور چار کی اولاد ہوئی۔
حافظ محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک بیٹے حافظ طاہر رحمۃ اﷲ علیہ میں سے سلطان العاشقین خواجہ عبد الخالق رحمۃ اﷲ علیہ پیدا ہوئے جن کی مزار بخشن خاں تحصیل چشتیاں میں ہے اور سجادہ نشین حضرت خواجہ صالح اویسی ہیں ۔حافظ محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے دوسرے بیٹے حافظ محمد طیب رحمۃ اﷲ علیہ کی اولاد شاہ کرم تحصیل منچن آباد میں مقیم ہے اور ان کے سجادہ نشین حضرت میاں غلام رسول اویسی ہیں ۔حضرت حافظ محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے کے تیسرے بیٹے خواجہ محمد فاضل رحمۃ اﷲ علیہ کی اولاد گوگیرہ (اوکاڑہ) میں رہائش پذیر ہے ۔
حافظ محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے چوتھے صاحب زادے حضرت قبلہ حافظ محمد عارف رحمۃ اﷲ علیہ کی اولاد میں سے حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی بادشاہ رحمۃ اﷲ علیہ ،حضرت خواجہ امان اﷲ ،عنایت اﷲ اور ہدایت اﷲ پیدا ہوئے اور ان کی اولاد خانقاہ شریف ضلع بہاولپور میں مقیم ہے ۔حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کے تین بھائیوں میں سے صرف حضرت خواجہ امان اﷲ کی اولاد ہوئی اور خواجہ امان اﷲ چاولہ مشائخ کی مزار پر چلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔ان کی مزار دربار چاولہ مشائخ میں ہے ۔
حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ تمام عمر مجرد رہے اور آپ نے ساری عمر شادی نہ کی ۔بلکہ تمام زندگی خدمت خلق اور فیض رسائی میں بسر کر دی۔
القاب:آپ کے پیرو مرشد کی بیعت روحانی طور پر امام العاشقین ،خیر التابعین حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ سے تھی ۔اسی لئے سلسلہ روحانیہ کا نام اُویسیہ اور آپ کے نام کے ساتھ اُویسی لکھا جاتا ہے اسی لئے آپ کے مریدین بھی اپنے آپ کو اُویسی لکھتے ہیں آپ نے کئی حج کئے اسی لئے آپ کوحاجی بھی کہا جاتا ہے آپ کو زہر دیا گیا تھا اسی لئے آپ شہید بھی کہلاتے ہیں آپ قرآن مجید کے حافظ اور عالم بھی تھے اورباطنی علوم کے امام تھے اس لئے آپ کو حافظ اور فقیری کی وجہ سے میاں صاحب اور تارک الدنیا ہونے کی وجہ سے سلطان التارکین کہا جاتا ہے ۔
سیرانی اور صاحب السیر کے القاب کی وجہ:آپ کے القاب بہت ہیں لیکن آپ زیادہ سیرانی بادشاہ اور حضرت صاحب السیر کے نام سے مشہور ہیں اور آپ کی درگاہ درگاہِ صاحب السیر لکھی جاتی ہے۔ آپ کو صاحب السیر یا سیرانی لکھا اور بولا جاتا ہے اس کی کئی وجوہ ہیں۔
(1) آپ نے اپنی تمام زندگی سفر میں بسر کر دی تھی اور کبھی بھی ایک جگہ قیام نہ فرمایا ہمیشہ سفر میں رہا کرتے تھے ۔
(2) آپ نے جب حضرت چاولہ مشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار پر ریاضت کی تھی تو آپ غیب سے قد سیرانی الارض کی آواز سنا کرتے تھے ۔اس آواز کا ذکر جب آپ نے اپنے مرشد خواجہ عبد الخالق رحمۃ اﷲ علیہ سے کیا تو آپ کے مرشد نے آپ کو سفر پر رہنے کی ہدایت کی تھی ۔
(3) بزرگان دین کا مشن دین کی حفاظت کرنا اور اس کی اشاعت کرنا تھا ۔اشاعت اسلام ایک جگہ بیٹھنے سے نہیں ہو سکتی اس لئے مختلف مقامات کا سفر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ سفر پر رہا کرتے تھے اور کسی جگہ پر ایک رات سے زیادہ قیام نہ فرماتے تھے یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی معتقد آپ کو کسی جگہ ایک رات سے زیادہ قیام کے لئے مجبور کرتا تو آپ اس کے گھر میں دوسری رات دوسرے کمرے میں بسر فرماتے تھے ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک جگہ رہنے سے فقیر کا دم گھُٹتا ہے۔
تعلیم و تربیت:آپ کا تمام کنبہ حافظ قرآن تھا ۔لہٰذا آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اورتقریبا ً 15سال کی عمر میں ابتدائی درسی کتب ختم کیں ۔آپ کا بچپن اور تعلیم کا اکثر زمانہ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت خواجہ عبد الخالق اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ گزرا۔
لباس :حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ صافہ باندھتے تھے کبھی کبھی صوفیائے کرام کی مخصوص ٹوپی بھی پہنا کرتے تھے ۔شلوار بھی پہنتے تھے ۔سردی کے موسم میں ایک گرم کمبل اکثر کندھے پر رکھ کر سفر فرماتے تھے ۔مسنون لباس سے عمر بھر تجاوز نہیں فرمایا ۔سادگی ہمیشہ ملحوظ خاطر رہتی تھی ۔
غذا:حضرت سیدنا خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ بہت سادہ غذا پسند فرماتے تھے نہ کبھی تکلف کرتے تھے اور نہ کسی تکلف کرنے والے میزبان کے ہاں مہمان ہوتے ۔ مریدوں مہمانوں ،میزبانوں اور خدام کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے اُبلے ہوئے چاول اکثر کھایا کرتے تھے ۔
اوقات عبادت:ولایت گھر بیٹھے نہیں ملتی بلکہ اس کے لئے بہت بڑی ریاضت کرنی پڑتی ہے ۔حضرت خواجہ سیرانی سائیں بسااوقات ساری رات ذکر الہٰی میں مشغول رہتے اگر کبھی سوتے تو تہجد کبھی قضانہ ہوتی ۔صبح بہت سویرے جاگتے ہی ذکر جہر میں اور مراقبہ میں مصروف رہتے ۔ذکرجہر کے متعلق ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ذکر جہراگر کر لیا جائے ۔تو کم از کم اس طرح ہو کہ ہر مسامِ جان سے ذکر کی آواز سنائی دے یا خون کے فوارے نکلیں۔
ایک دفعہ ذکر میں مشغول تھے تو درخت کے پتوں سے بھی اﷲ اﷲ کی آواز سنائی دی ۔آپ ہر وقت اور ہر شے سے ذکرِ الہٰی سنناپسند فرماتے تھے نمازفجر کے بعد اشراق چاشت وغیرہ ادا کرکے قصیدہ امالی دعائے مغنی کا وظیفہ ظہر کی نماز کے بعد قرآ ن پاک کی منزل تلاوت فرماتے ۔فرائض مغرب کے بعد اوابین سے فارغ ہو کر قصیدہ غوثیہ پڑھا کرتے تھے ۔رات کا اکثر وقت نوافل میں گزار دیتے تھے ۔ہر وقت با وضو رہا کرتے تھے ۔
سنت نبوی ﷺ کا پورا پورا احترام اور پابند ی کرتے آداب شرعیہ سے ہر گز تغافل نہ کرتے تھے ۔
حضرت سیرانی بادشاہ کا علمی مقام:حضرت سیرانی بادشاہ خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ جہاں روحانی اعتبار سے بلند درجے پر فائز تھے وہاں علمی دنیا میں بھی ان کا مقام بہت ارفع و اعلیٰ تھا ۔چنانچہ جب وہ علمی نکات بیان کرنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ ایک بحرناپید کنارہے جوٹھا ٹھیں ماررہا ہے ۔اس سلسلے میں اس کی تصنیف ’’تلقین لدنی ‘‘ ان کے علم و فضل کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں تصوف کے رنگ میں علمی نکات بیان کئے گئے ہیں۔
فیض عام: حضرت سیرانی بادشاہ کے روحانی کمالات کے فیضان عام کی داستان ایسی حیرت افزا ہے کہ اس کو سپرد قلم کرنے کے لئے بھی ایک بہت بڑی ضخیم کتاب مطلوب ہو گی ۔سلسلہ اویسیہ کی ریاضتیں اور پابندیاں اگر چہ دوسرے شیوخ سلاسل کی ریاضتوں کی طرح مشکل اور دشوار نہیں ہیں ۔مگر چونکہ خود خواجہ سیرانی بادشاہ نے ان نعمتوں کو نہایت ہی دشوارمشقت ریاضت اور سخت محنت کے بعد حاصل کیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس قدر محنت ہر شخص کے بساط سے بالا تر ہے ۔اس لئے وہ اس دولت جاوید کو اپنے روحانی اثر کے ساتھ دنیا میں پھیلانا ضروری سمجھتے تھے ۔اس لئے جس قدر لوگوں کو وہ اپنے نظر کیمیا اثر سے فائدہ پہنچاتے تھے ۔اُسی قدر ان کے لئے خوش ہوتے تھے ۔
تقریباً دو سو سال سے زیادہ عرصہ حضرت خواجہ سیرانی بادشاہ رحمۃ اﷲ علیہ کے انتقال کو ہو گیا ۔مگر ان کے فیضان عام کی داستانیں اسی طرح زبان زد عام ہیں ۔یہ گمان ہوتا ہے کہ کل کی بات ہے خانقاہ کی عظمت اور جلال کا نور اس وقت بھی جو کیفیت دربار پر بالخصوص عرس مبارک کے دِنوں میں لوگوں کو وارفتگی کی نظر سے گذرتی ہے ۔اس کو دیکھ کر تمام خیالات جو سُنے جاتے ہیں ان کے لئے نہایت ہی وسعت کے ساتھ خلوص اور عقیدت کا ہیجان پیدا ہوجاتا ہے ۔
حضرت سیرانی بادشاہ جس راستے سے گذرجاتے ۔اس راستہ میں بے شمار اہل حاجت کے مقصود پورے ہو جاتے ۔مرادیں بر آتیں اس لئے لوگ مدتوں تک ان کی تشریف آوری کے انتظار میں منتظر رہا کرتے تھے ۔اس فیضان عام سے صرف انسان ہی فیضیاب نہیں بلکہ جانور پرندے اور درختوں تک پربھی یہ فیض عام آب یاری کرتانظر تھا ۔
منقول ہے کہ کچھی میں حضرت سیرانی سائیں ایک باغیچہ میں فروکش تھے جب باغبان باغ میں گیا تو اس کے باغ کے ہر ہر پتے سے اسم ذات کا ذکر سنائی دیا۔حیرت زدہ ہو کر اس نے دیکھا کہ حضرت سیرانی بادشاہ ایک درخت کے نیچے مراقبہ میں ذِکر اسم ذات میں مصروف ہیں۔
ایک مرتبہ کوئے کی کائیں کائیں سُن کر ارشاد فرمایا کہ اﷲ اﷲ کہو چنانچہ وہ اُسی وقت اﷲ اﷲ کا ذکر کرنے لگ گیا۔
ملتان کی مسجد افغاناں میں حضرت سیرانی بادشاہ تشریف فرما تھے وہاں چڑیاں جمع ہو کر چوں چوں کر رہی تھیں ۔چڑیوں کی چل چل سُن کر فرمایا کہ اﷲ اﷲ کہو۔چنانچہ اسی وقت چڑیاں ’’اﷲ اﷲ ‘‘کرنے لگیں۔
حضرت راجو شاہ حضور سیرانی بادشاہ کو دبار ہے تھے ۔آپ کو خوش دیکھ کر عرض کی ۔میرا ہاتھ پکڑ لیں جب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا تو عرض کی۔
آپ جس طرح اب میر اہاتھ پکڑے ہوئے ہیں ۔اسی طرح ہی مجھے خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیں آپ جوش میں آگئے ۔راجو شاہ کا ہاتھ چھوڑ کر فرمایا سید تنہا تم ہی نہیں بلکہ میں تو تمام امت محمدیہ علی صاحبہا السلام کی دستگیری کا ارادہ رکھتا ہوں۔کیونکہ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی بادشاہ ،امام العاشقین حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کا مظہرا تم جو تھے اسی لئے جو چاہیں کر دکھائیں ۔
شیخ کا ادب:آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت خواجہ حافظ عبد الخالق قدس سرہٗ آپ کے رشتہ میں کیا ہیں ۔اگر چہ آپ مرُشد کے عم زاد تھے لیکن آپ نے ازراہ ادب کہا کہ وہ میرے آقا و مولیٰ ہیں اور ہماری تمام برادری کے سردار۔
شیخ کی اولاد کا ادب: آپ وہ شادی نہ کرنے کا سبب پوچھا تو آپ نے عرض کی حضور !مجھے ادب اجازت نہیں دیتا کہ میری اولاد پیدا ہو تو پھر وہ کہیں بے ادب ہو کر آپ کی اولاد کا مقابلہ نہ کربیٹھے ۔یہ کلمات سُن کر شیخ کو جلال آگیا اور فرمایا ۔اگر یہی بات ہے تو میری اولاد کی پہچان بھی صرف تیرے نام سے ہو گی۔
ٍکرامات اولیاء حق:اسلامی عقائد میں یہ عقیدہ بھی از بس ضروری ہے کہ ولی اﷲ کی کرامت حق ہے ۔اس کا انکار گمراہی اور بے دینی ہے اس لئے کہ ولی اﷲ کی کرامت در اصل نبی علیہ السلام کی نبوت کی جھلک ہوتی ہے اور نبوت قدرت ایزدی کا عکس اس معنیٰ پر کرامت کا انکار در حقیقت قدرت ایزدی کا انکار ہے ۔
بالخصوص ہمارے نبی اکرم ﷺ کی امت کے اولیاء کرام کی کرامات کا اقرار اس لئے از بس ضروری ہے کہ آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ۔آپ کے بعد کسی بھی نبی کا آنا محال و ناممکن ہے ۔لہٰذا نبی کریم ﷺ کی امت کے ولی اب اشاعت دین کا فریضہ سر انجام دیں گے۔
رسول اﷲ ﷺ کی امت کے ان ولیوں نے اپنے ان فرائض کی ادائیگی میں نہ صرف ہزاروں میل کی مسافت طے کی بلکہ خدمتِ خلق اور اصلاحِ معاشرہ کے لئے اپنے بال بچوں اور وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ۔
سیرانی بادشاہ کی کرامات:آپ کی تمام زندگی سادگی اور سفر میں گذری اِس تمام علاقہ میں جو کہ پنجاب اور سندھ کی حدود پر مشتمل ہے حضرت خواجہ سیرانی بادشاہ کو لوگ اس محبت اور اعتقاد کے ساتھ دیکھتے تھے ۔جس طرح مرشد اور رہنما کی عزت کی جاتی ہے ۔اگر چہ حضرت سیرانی بادشاہ کے مریدوں کا سلسلہ بھی ان علاقوں میں بہت ہی وسیع تھا لیکن جو لوگ مرید نہ تھے وہ بھی حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کا پورا احترام اور عزت کرتے تھے ۔
رُؤ سا اور زمینداروں سے لیکر ادنیٰ طبقہ کے ساتھ بھی حضرت سیرانی بادشاہ کا جو خلوص اور ملنے جُلنے کا طریقہ تھا وہ مساوات حقیقی کا بہترین نمونہ تھا ۔خوش عقیدہ مریدوں کے لئے ہر ایک واقعہ پیر اور راہنما کی کرامت سمجھا جاتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر ایک با صفا مُرید اپنے روشن ضمیر پیر میں کسی مافوق الفطرت اور خرق عادات پر اعتقاد نہ رکھتا ہو تو وہ اس زمانہ میں حلقہ وارادت مندی میں داخل ہونے کے نا قابل سمجھا جاتا ہے ۔(لطائف سیریہ)میں اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٭حضرت کو رجال الغیب کھانا کھلاتے تھے ۔٭مریدوں کے مصائب اور مُشکلات میں خود پہنچکر امداد فرماتے تھے ۔٭حضرت کی دعا ،پس خوردہ ،لُعاب یا دستِ شفقت یا ارشاد وظیفہ یا نظر کیمیا سے مرض جاتا رہتا تھا ۔٭بہت لمبا سفر جلدی طے فرماجاتے ۔٭ڈاکو چور تائب ہو جاتے ۔٭کافر مسلمان ہو جاتے ۔٭زخم اچھے ہو جاتے ۔٭زبان کی لُکنت درست ہو جاتی۔٭غیبی امداد سے رزق ملنے لگ جاتا۔٭بچھو سانپ کے کاٹے کا آرام آجاتا ۔٭کوئے اور چڑیاں ذکر الہٰی میں مست ہو جاتے ۔٭باغ میں درختوں کے پتوں میں ذکر جہر کی آواز آنے لگتی ۔٭درخت کے نیچے آرام کرنے سے درخت سبز اور خوشبودار ہوجاتا ۔٭تھوڑے سے طعام میں ایسی برکت ہوئی کہ وہ بہت عرصہ تک اور بہت لوگوں میں تقسیم ہو کر وافر رہا ۔مردے زندہ کر دئیے خود موت کے بعد زندہ ہوئے ۔بعد وصال فیوضات و برکات سے نوازنا وغیرہ وغیرہ ۔اس قسم کے روحانی جذبات اور تصرفات کی وجہ سے حضرت سیرانی بادشاہ مرجع خواص ہو گئے تھے اور دور دور سے بزدگان ملت آپ کی تلاش کرتے ہوئے لطف زیارت اور سعادت صحبت حاصل کرتے تھے ۔
اکثر حاجت مند اور اہل ضرورت بیمار اور طالبان صادق حضرت سیرانی بادشاہ کی راہ تکتے رہ جاتے تھے اور حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی بادشاہ رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مقصود دین و دنیا حاصل کرتے تھے ۔
حجام کا لڑکا واپس:ایک حجام کا بیٹا خراسان سفر پر گیا ہوا تھا ۔حجام بے حد پریشان تھا کہ اس کا بیٹا کِس طرح واپس آئے گا حجام حضرت خواجہ نور محمدمہاروی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے فرمایا یہ کام فقیر کا نہیں اگر شہباز وقت یہاں آجائیں تو وہ تمہارے لڑکے کو منگا سکتے ہیں ۔
ایک دن حضرت سیرانی بادشاہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اﷲ علیہ نے حجام کو بتایا کہ یہی شہباز وقت ہے ۔ان سے جاکر عرض کرو ۔حجام آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اگر اجازت ہو تو حجامت بناؤں ۔آپ نے اجازت دیدی ۔حجام ڈر کیوجہ سے کچھ عرض نہ کر سکا ۔لیکن دوران حجامت دردِ فراق کی وجہ سے حجام رو رہا تھا ۔آپ نے پوچھا کیوں روتا ہے حجام نے تمام ماجرا سُنا یا ۔آپ نے فرمایا ذرا رُک جاؤ۔آپ مسجد کے حجرہ تک گئے اور پھر واپس آگئے اور حجام نے اپنا کام شروع کر دیا ۔ابھی حجام حجامت بنا ہی رہا تھا ۔کہ ایک شخص نے آکر اُسے خوش خبری سنائی لڑکا گھر واپس آگیا ہے حجام فارغ ہو کر جب گھر پہنچا تو بیٹے سے حال دریافت کیا ۔لڑکے نے بتایا کہ میں کابل کے بازار میں سودا خرید نے جا رہا تھا کہ ایک آدمی جس کا آدھا سر مونڈا ہوا تھا آیا اور مجھے بازو سے پکڑ کر ایک ہی جھٹکے سے گھر پہنچا دیا ۔رقم اور رومال بھی لڑکے کے ہاتھ میں تھا جس سے وہ سودا خرید نے جا رہا تھا ۔
سن وصال:حضرت سیرانی بادشاہ کے سن وصال میں اختلاف ہے ۔خزینۃ الاصفیاء حدیقۃ الاسرار فی اخبار الابرار اور لطائف سیریہ ۔پہلی تین کتابوں میں سن وفات حضرت خواجہ سیرانی بادشاہ کا 1197ھ یا1198ھ درج ہے ۔
دربار حضرت سیرانی قدس سرہٗ :حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی بادشاہ کا دربار (مزار شریف)ریلوے اسٹیشن سمہ سٹہ (ضلع بہاولپورصوبہ پنجاب پاکستان) سے بجانب جنوب تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔یہاں حضرت سیرانی بادشاہ کے عرس کی تقریبات ہر سال 5.4.3ربیع الثانی کونہایت تزک و احتشام سے ہوتی ہیں۔ آپ کی موجودہ اولادجو روحانی مدارجِ اعلیٰ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی افق پر بھی بحثیت آفتاب و ماہتاب جگمگارہے ہیں بلکہ تحصیل ناظم، ایم پی اے، ایم این اے اور وزراء بھی ہیں تقریبات عرس کی صدارت کرتے ہیں جن میں حضرت خواجہ میاں نجیب الدین اویسی سرفہرست ہیں اور ملک پاکستان کے جید علمائے کرام سیرت حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی بادشاہ پر خطابات کرتے ہیں ۔ہزاروں زائرین اپنے روحانی فیض کے حصول کے لئے قافلہ در قافلہ آتے ہیں ۔دربار عالیہ اویسیہ علی پو رچٹھہ شریف سے عالمی مبلغ اسلام حضرت قبلہ پیر غلام رسول اویسی سجادہ نشین اور نارووال مرکز اویسیاں سے تحریک اویسیہ پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ حضرت علامہ پیر اویسی کی زیر قیادت عرس مبارک میں شرکت کیلئے قافلے روانہ ہوتے ہیں جبکہ چیف ایگزیکٹو ماہنامہ تاجدار یمن جناب محمد یعقوب اویسی سیرت حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی بارشاہ رحمۃ اﷲ علیہ پر خصوصی مضامین شائع کرواتے ہیں ۔

 

Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 85 Articles with 165335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.