مغلیہ سلطنت نے پاکستانی ثقافت پر بڑی حد تک اپنے اثرات
مرتب کیے ہیں- یہاں تک کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود بھی مغل آرٹ اور فنِ
تعمیر آج بھی ہمیں کسی نہ کسی انداز میں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے- اور
پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود روایتی مغل باغات٬ قلعے اور یادگاریں
عوام کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں- ہم یہاں پاکستان میں موجود مغل دور کے
چند پرکشش باغات کا ذکر کر رہے ہیں اور ہماری یہ تجویز ہے کہ آپ کو زندگی
میں جب بھی موقع ملے ان باغات کی سیر کو ضرور جائیں- |
چوبر جی
چوبر جی ایک وسیع پیمانے پر پھیلا مغل دور کا باغ ہے جو کہ لاہور کی ملتان
روڈ پر واقع ہے- اس باغ کے اسٹرکچر میں مغلیہ روایات اور قدیم اسلامی طرزِ
تعمیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے-چوبر جی دراصل مغلیہ باغات میں انتہائی
ممتاز اور وسیع ترین باغ کا دروازہ تھا جو مغل شہزادی زیب النساء سے منسوب
ہے۔ اس یادگاری دروازے کے چار مینار ہیں اور اسی مناسبت سے اس کا نام چو
برجی رکھا گیا تھا، یعنی کہ چہ : چار اور برجی: برج یا مینارے۔ اس یادگار
پر انتہائی نفیس کام کیا گیا ہے۔ یہ مینار اس حد تک منفرد ہیں کہ ایسے
مینار پورے برِصغیر میں کہیں اور نہیں دکھائی دیتے- یہ یادگار اپنے بڑے
درازوں٬ کھڑکیوں اور لال اینٹوں کے کام کی وجہ سے بھی مشہور ہے-
|
|
ہرن مینار
یہ مغلیہ دور کی یادگار شیخو پورہ میں واقع ہے اور یہ گارڈن شہنشاہ جہانگیر
نے اپنے پالتو ہرن کی یاد میں تعمیر کروایا تھا- منس راج شہنشاہ جہانگیر کا
ایک پالتو ہرن تھا جو کہ انہیں بہت عزیز تھا- اس اسٹرکچر کی خاصیت اس کا
100 فٹ بلند مینار ہے جہاں سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے- اس کے
علاوہ اس تاریخی عمارت کا طرزِ تعمیر اور ڈیزائن دیگر تاریخی عمارات کے
مقابلے میں انتہائی جداگانہ ہے-
|
|
مغل گارڈن واہ
یہ پاکستان کا سب سے قدیم مغل گارڈن ہے جو کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب
کے شہر واہ میں واقع ہے- یہ گارڈن مغل بادشاہ اکبر کے دور میں تعمیر کیا
گیا تھا- یہ گارڈن ایک بڑے پانی کے ٹینک٬ شفاف چشمے٬ بارہ دری اور ایک ایسے
باغ کا مالک ہے جہاں صنوبر کے درخت بھی موجود ہیں- 1996 میں پاکستان کے
آثارِ قدیمہ کے محکمہ نے اس باغ کی بحالی کے احکامات جاری کیے تھے- یہ
پرکشش باغ دنیا بھر کے سیاحوں اور محققین کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے-
|
|
حضوری باغ
حضوری باغ لاہور میں واقع ہے اور یہ باغ مشرق میں قلعہ لاہور، مغرب میں
بادشاہی مسجد، شمال میں رنجیت سنگھ کی سمادھی اور جنوب میں روشانی دروازے
تک پھیلا ہوا ہے۔ اس باغ کے مرکز میں ایک بارہ دری بھی موجود ہے جو کہ
رنجیت سنگھ نے تعمیر کروائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب 1813 میں مہاراجا رنجیت
سنگھ کوہ نور ہیرا اپنے قبضے میں لیا تھا تو اپنے اس کارنامے کا جشن منانے
کے لیے فقیر عزیزالدین کو اس روایتی مغلیہ باغ کی تعمیر کے لیے احکامات
جاری کیے تھے-
|
|
شالامار گارڈن
ہر پاکستانی نے لاہور میں واقع مغلیہ دور کی اس نشانی کے بارے میں ضرور سن
رکھا ہوگا- اور یہ مغلیہ گارڈن نہ صرف مقبول ترین مقام ہے بلکہ انتہائی
خوبصورت بھی ہے- یہ گارڈن 16ویں صدی میں مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر
کروایا تھا-یہ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے اور اس باغ کو ایک نہر سیراب کرتی
ہے۔ اس میں 410 فوارے، 5 آبشاریں اور آرام کے لئے کئی عمارتیں ہیں اور
مختلف اقسام کے درخت ہیں۔یہ باغ 3 حصوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر حصے کی بلندی
دوسرے حصے سے مختلف ہے۔ ایک حصہ دوسرے سے 4.5 میٹر تک بلند ہے۔ ان حصوں کے
نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔
|
|