دسمبر روٹھ کر چلا گیا۔۔ ؟
(Ajmal Malik, faisalabad)
بچپن کا دسمبر سائبیریا جیسا برفیلا ہوتا تھا۔ٹھنڈ ۔مارچ تک لگتی ۔بہار اپریل میں پھوٹتی ۔تب گھروں میں سانجھی رضائی ہوتی تھی۔آگ تاپنے کے لئے مٹی کی انگیٹھی ہوتی۔کوئلے۔کٹی سٹرابری جتنے لال کرکے ۔خون ِآتش ۔ جوان رکھا جا تا تھا۔ساتھ ڈرائی فروٹ بھی چلتا ۔ جوان ہوئے تو ڈرائی فروٹ کا نیا مفہوم پتہ چلا کہ’’سرد موسم میں محبوب کی دید ۔ ڈرائی فروٹ جیسا لطف دیتی ہے‘‘۔ڈرائی فروٹ۔ میں تب چلغوزے بھی ہوتے تھے۔ اب توچلغوزے۔۔الغوزے کی طرح سننے کو ہی ملتے ہیں |
|
|
گوگل سے لی گئی گرمی کی تصویر |
|
میں تو پہلے ہی شوگر کا مریض ہوں فراز
اور وہ کہتی ہے۔ پیار دی گنڈیری چوپ لے
خباثت سے لبریز یہ جملے عہد حاضر کے اُن بدذوقوں کے ہیں۔جنہوں نے ادب میں
شرارتوں، خباثتوں اور حماقتوں کو متعارف کروایا۔ ذوقِ آوارگی کی ندائی کے
لئے نیا اسلوب ڈھالا۔ شعروں کی ماں بہن ایک کی۔ فراز صاحب کی زمین چونکہ
خاصی ہموار تھی اس لئے کھیتی بھی وہیں پر اُگائی گئی۔ ستم یہ کہ’’ فصل
گُل‘‘ بیساکھی کے ڈھول کی طرح چرچا کرکے کاٹی گئی۔ احمد فراز محبوبی شعروں
کے دیوتا ہیں۔لیکن شریروں نے تشنہ آرزوں کا پوسٹ مارٹم کر کے چھوڑا۔حُسنِ
جاناں کی چیرپھاڑ بھی ہوئی۔کچے مکان کی دیوار گرنے پر موٹر وے بنانے والے
کوہ کن۔یونہی موسم کی ادا دیکھ کرتبدیلی کے خواہش مند منچلے۔ محبوب کو
آنکھ بھر کے دیکھنے والے’’شکم سیر‘‘۔ فرازصاحب کاآہنگ رومانیت سے لبریز
ہے اور کہیں کہیں رجز۔بھی ہے۔ لیکن ۔تسکین دل کی خاطر’شوخوں‘ کے دماغ میں
جو بھی ہم وزن قافیے آئے۔ اُس کا طرہ مصرعہ بنا دیا۔بندر کے ہاتھ بندوق آ
گئی۔یا شائد ماچس ۔بے ذوقوں کا اپنا ہی ’’موک سٹوڈیو‘‘ ہے۔جس میں سارامترنم
کلام ۔ اپنی کمپوزیشن سمیت نزاعی ہچکیاں لے رہا ہے۔ خواہ مخواہ ۔ بے سُری
چسکے لئے جا رہے ہیں۔ بےدم حسرتیں، شکستہ خواہشیں اورنادم آرزوئیں اتنی ہم
وزن ہیں کہ چالاک عہد کے جن بچوں نے فراز صاحب کو نہیں پڑھا ۔ شائد وہ ۔
پیار کی گنڈیری کو سچی مچی چوپنے لگیں۔کیونکہ بیشتر کلام نمکین ہو چکا ہے۔
جیسے
ضبط لازم ہے مگر ، دکھ ہے قیامت کا فراز
ایسے حالات میں وہ کیسے سکوں پائے گا ۔
آٹھویں بار ہے بے چارے کی منگنی ٹوٹی
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا۔
اس تمثیل کا مقصدمحض اتنا بتانا ہے کہ لوگوں نے احمد فراز کی شاعری کا
جوحشر کیا ہے۔ دسمبر کی شاعری اس سے بری پوزیشن میں ہے۔ دسمبر میں ۔ ناکام
عاشقوں کی حسرتوں کاسالانہ میلہ لگتا ہے۔فراق کا سالانہ عرس۔ہجو گوئی
اورالم کا عرس ۔جہاں ’دسمبری‘ دھمال ڈالی جاتی ہےاور حال بھی چڑھتے ہیں۔
چوکیاں بھری جاتی ہیں۔مجذوبانِ عشق ، محرومانِ عشق کا سالانہ مشاعرہ ۔
دسمبر کی ماں بہن ایک کرنے کے لئے ۔ویسے تودسمبر برفباری کا مہینہ ہے ۔
لیکن عاشق نالے بہاتے ہیں۔ارمانوں پر کورا۔ پڑنے کا مہینہ، گذرتے سال کی
آخری گھڑیوں میں ۔ایک بار پھر ۔کوئے جاناں ، سوئے جاناں اورپہلوئے جاناں
کی حسرت کا مہینہ۔چور نہیں تو لنگوٹی ہی سہی کےنظرئیے پر کار بند عاشوں
کامہینہ، حسرتوں اور امیدوں کے بستر مرگ پرپڑے بیماروں کا مہینہ۔بقول پروین
شاکر ۔
اب اداس پھرتے ہو۔سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے۔ اس طرح کے کاموں میں
اس شعر میں پروین شاکر نے دسمبر کا تذکرہ ویسے ہی کیا ہے جیسے انو ملک
نے’’ایک گرم چائے کی پیالی ہو ۔کوئی اس کو پلانے والی ہو‘‘۔والے گانے میں
کیا ہے۔ سالوں پہلے پیمائش عشق کے پیمانے الگ ہوتے تھے ۔پھول کی پتی پتی
توڑ کر۔He loves me, he loves me not سے وفا جانچتے تھے۔ کانچ کی چوڑی توڑ
کرلعاب سے تر کرکے ماتھے سے چھونا اورپھر ہتھیلی پرتوڑ کر جُوڑ نکالی جاتی
تھی۔لیلی کی آڑ میں کُتے سے پیار ہو جاتا تھا ۔ تھل میں برہنہ پا میرتھن
ہوتی تھی۔ چناب میں گھڑے پرکشتی رانی ہوتی تھی۔لیکن اب تو سارے مرزے بنے
پھرتے ہیں۔ روزانہ ۔نت نئی صاحباں ۔؟۔بنئےکا بہی کھاتہ۔ عشاق کی فہرست اب
ایکسل شیٹ میں بننے لگی ہے۔ مائنس اور پلس ون جو کرنا ہوتا ہے۔پیار کی
پیمائش کے لئے لو(love) کیلکولیٹر نکل آئے ہیں۔عہد حاضر کاعشق چائنا کےمال
جیسا ہو چکا ہے۔ ناپائیدار۔ فوم کے علاوہ کسی چیز کی گارنٹی نہیں۔ پیار کی
گڈیریاں ۔ جگہ جگہ بک رہی ہیں۔عاشقوں میں سقراط بننے کی سکت نہیں رہی۔ کم
بخت جب تک ۔ زندہ رہیں گے۔ زنداں میں ر ہیں گے۔
عشقِ قدیم ۔ خود احتسابی سکھاتا تھا۔عاشقوں نے آئین کا آرٹیکل 62 اور 63
خود پر نافذ کر رکھا تھا۔صادق اور امین ہونے کا حلف باربار دیناپڑتا
تھا۔چوڑی کا جُوڑ کم نکلنے پر قسمیں کھانا پڑتی تھیں۔ لیکن آج کل دسمبر
میں’’محبتی‘‘ اچانک عدو جاں بن جاتے ہیں۔اپنے ہی رقیب۔سگی محبوبہ کے سوتیلے
عاشق۔فراق کی بھٹی میں دانوں کی طرح اُبڑ اُبڑ جاتے ہیں۔ شب وصل کے لئے
ٹمٹماتے تاروں کے بجائے کھمبے گنتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موسمی نوحے لکھتے
ہیں۔ وہاں کئی ماتمی سنگتیں ساتھ مل جاتی ہیں۔ پھر دسمبر کی ماں بہن ایک کی
جاتی ہے۔بقول ماتمی۔
دسمبر آگیا جاناں
سنو، سردی سے مر جانا۔!
دسمبر کے علاوہ بھی ۔
مجھے تم زہر لگتے ہو۔
بچپن کا دسمبر سائبیریا جیسا برفیلا ہوتا تھا۔ٹھنڈ ۔مارچ تک لگتی ۔بہار
اپریل میں پھوٹتی ۔تب گھروں میں بڑے سائز کی سانجھی رضائی ہوتی تھی۔آگ
تاپنے کے لئے مٹی کی انگیٹھی ہوتی۔کوئلے۔کٹی سٹرابری جتنے لال کرکے ۔خونِ
آتش ۔ جوان رکھا جا تا تھا۔ساتھ ڈرائی فروٹ بھی چلتا ۔ جوان ہوئے تو ڈرائی
فروٹ کا نیا مفہوم پتہ چلا کہ’’سرد موسم میں محبوب کی دید ۔ ڈرائی فروٹ
جیسا لطف دیتی ہے‘‘۔ڈرائی فروٹ۔ میں تب چلغوزے بھی ہوتے تھے۔ اب توچلغوزے
۔۔الغوزے کی طرح سننے کو ہی ملتے ہیں۔میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ ’’موسم
انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔دسمبر کو جون جتنابرہنہ کیا جاتا ہے۔
سالوں پہلے ۔موسم سرما۔ نسلِ نو کی پنیری کا موسم ہوتا تھا۔ ہم سے پچھلی
نسل کےبیشتر لوگ۔اسی لئےجون ، جولائی میں پیدا ہوئے کیونکہ وہ دسمبر میں
شاعری نہیں کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ عشق میں ناکامی کے بعد لڑکیاں شادی کر تی ہیں اور لڑکے شاعری
۔اسی لئےجاڑے کی خُنک شامیں اپنے ساتھ ۔یادوں کی نشاۃ ثانیہ لاتی ہیں۔ابرار
الحق کو دسمبر بھیگا بھیگا لگتا ہے۔امجد اسلام امجد پر’’آخری چند دن دسمبر
کے۔ ہر برس ہی گراں گذرتے ہیں‘‘۔اور ۔محسن نقوی تو کہتے ہیں۔
مرے ملنے والو!
نئے سال کی مُسکراتی ہوئی صبح ۔ گر ہاتھ آئے
تو مِلنا!!
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہُوا دل۔۔دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں۔۔ دسمبر مجھے راس آتا نہیں ۔۔۔
دسمبر کے لچھن ہمیشہ سے ہی خراب ہیں۔ برف پر لکھی محبت کی داستاں۔ جلد ہی
پانی بن کر بہہ جاتی ہے۔ یہ عاشقوں کی مایوسی کا استعارہ ہے۔جب ارمانوں کا
الاؤ۔ جلتا ہے۔بے بسی کےآبلے بنتے اور پھوٹتے ہیں۔ وصل کا پیاسا دسمبر۔ اس
مہینے نے سارے شاعروں کا دل خراب کیا ہے۔لیکن موجودہ عاشقوں نے اس کا دماغ
ٹھیک کر دیا ہے۔جواں آتشوں نے دسمبر کی حئیت بدل ڈالی ہے۔ دسمبر میں جون
اترتا جا رہا ہے۔ عاشق اب فراق میں برگ ِ زرد نہیں ہوتے۔چائنا کے عشق کی
تڑپ سوہان روح نہیں ہوتی ۔شائد نامراد ۔ بے مراد ہی رہیں گے۔ مجھے تو پیار
کی گنڈیری یاد آ رہی ہے۔لیکن مرید کہتا ہے کہ دسمبرکو روکنے کی بہت منتیں
ہوتی ہیں۔ محبوب کی منتیں کوئی نہیں کرتا۔ دلوں کی خشکی کولڈ کریم سے ختم
نہیں ہوسکتی۔محبوب ۔ دسمبر کی دھوپ۔کی طرح ہمیشہ اچھے لگتے ہیں۔ لیکن دسمبر
ہم سے روٹھ کرچلا گیا ہے کیونکہ اس سال برسا بھی نہیں اوربرفا بھی نہیں۔
|
|