سال دوہزار سترہ کا سورج طلوع ہو چکا ہے اس سال کے ساتھ
بھی پاکستانیوں کی با الخصوص امیدیں جڑی ہوئی ہیں کہ یہ سال پچھلے سالوں کی
نسبت کچھ بہتر ہو گا۔لیکن بہتر کیسے ہو گا کیونکہ ہمارے طریقے تو وہی پرانے
ہیں پرانےطور طریقوں سے کوئی نئے سال میں کیسے بہتری لا سکتا ہے۔اس کے لیے
سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لانا ہو گی اور اپنے ذات سے شروعات کرنا ہوں
گی۔سب ہم خو د ٹھیک ہوں گے تو کسی کو ٹھیک کرنے کے قابل بھی ہو جائیں
گے۔اگر کچھ بات کی جائےسیاست کی تو سال کے ابتدا میں ہی ملک کی سب سے بڑی
عدالت میں اس وقت کے سب سے بڑے کیس پانامہ لیکس کی بھی سماعت شروع ہو جائے
گی۔جس کے لیے نیا بینچ بھی تشکیل دیا جا چکا ہے۔اب اس نئے بینچ کے سامنے
کیس پھر سے کیس رکھا جائے گا۔اب دیکھنا ہو گا کہ عمران خان اور نواز شریف
میں سے دونوں میں سے عدالت کے سامنے کون ثبوت پیش کرتا ہے کیونکہ پچھلی
سماعتوں میں تو بات دونو ں طرف سے ثبوتوں کی بجائے مفروضوں اور کہانیوں سے
کام لیا گیا۔اب پھر بات کرتے ہیں ،ملکی سیاست کی تو سال زرداری صاحب اور
بلاول بھٹو نے بھی پارلیمنٹ میں آنے کا ارادہ کر دیا ہے ساتھ ہی ساتھ انہوں
نے حکومت کو ٹف دینے کے لیے سیاسی مارچ اور ملک گیر دوروں کا بھی عندیہ دے
دیا۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا بلٹ بروف گلاس کے پیچھے سے خطاب کرنے کی
بجائے حقیقی معنوں میں عوام کے بیچ میں آئیں گے یا اب بھی کام ٹویٹر پر ہی
چلے گا۔اب کچھ بات کر لیتے ہیں خان صاحب کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ
عوام کو جمع کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں کررکھتے اور انہوں نے جتنا نواز
حکومت کو ٹف ٹائم دیا ہے شاید ہی کسی اور نے دیا ہو۔لیکن خان صاحب کان کے
ہیں کچے اور جو کوئی بھی انکے کان میں کچھ کہے تو وہ اسےاپنی پریس کانفرنس
یا بیان کا حصہ بنا دیتے ہیں۔یا بطور ثبوت اسکو عوام کے سامنے پیش کردیتے
ہیں دیکھنا یہ ہے اس سال بھی خان صاحب کی یہ روایت قائم رہے گی۔ بات کی
جائےمیاں صاحب کی تو نئے سال کا آغاز بھی ہو گیا ہے لیکن الیکشن کے دورران
کیے ہوئے وعدوں کے پورا ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی عوام نہ بجلی، نہ
گیس اور نہ ہی پانی پھر بھی دل ہے پاکستانی کی عملی مثال بن گئے ہیں۔ہماری
برآمدات انتہائی نچلی سطح پر آ گئی ۔صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انہتر سال
گزرنے کے باوجود بھی بہتری نہیں آسکی کئی بار بار حکمرانی کرنے والے لیڈران
اپنا علاج کروانے بیرون ملک جاتے ہیں ۔صرف سڑکوں اور پلوں پر ہی نظر مرکوز
کی ہوئی ہیں۔ سڑکیں اور پل تو بنائے گئے لیکن نہ ہی کوئی پودا لگایا گیا
اور نہ ہی کوئی درخت ۔ اور تاریخ میں پہلی دفعہ داتا کی نگری لاہور کو
آلودگی اور دھند کے مرکعب لاہور کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کچھ بات کرتے ہیں
کھیلوں کی تو پاکستانی عوام میں سب سے مقبول کھیل کرکٹ میں تو پاکستان کا
حال پھر سے برا ہوتا جارہا ہے۔ دوسری دفعہ مسلسل پانچ ٹیسٹ ہار چکے ہیں۔اور
ون ڈے میں تو ہم ویسے بھی آخری نمبروں پر ہیں۔اوراب کچھ بات کر لیتے ہیں
شوبز کی تو کئی اچھی فلمیں بنیں جو بہتری کے لیے ایک قدم ہے۔اور جاتے جاتے
موسم کی بات کر لیتے ہیں تو سال دو زہزار سولہ صدی کے گرم ترین سال رہا۔جو
کہ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اب پھر نیا سال نئی امیدیں،نئی دعویں اور نئے
وعدے۔۔ویلکم سال 2017 |