2016میں پانامہ کے حوالے سے حکمران اور سیاسی جماعتوں کے
مابین دنگل سجا رہا
مصطفی کمال کی زیر قیادت 23مارچ کو نئی پارٹی’پاک سر زمین‘ سامنے آئی
پاکستان مخالف نعرے لگانے سے ’را‘ کے ایجنٹ الطاف ’مائنس ‘ ہو ئے
پی ٹی آئی نے 2نومبر کو دھرنے کی بجائے بھرپور انداز میں یوم تشکرمنایا
2015کی نسبت 2016میں یو ٹرن پالیسی عمران کی مقبولیت میں کمی لائی
نیوز فیڈ کے معاملے پر حکومت نے پرویز رشید کو عہدہ سے ہٹھادیا
قوم کے ہیروراحیل شریف فوجی ذمہ داری قمر جاوید کو دے کر ریٹائر ہوئے
موروثی سیاست کو آگے بڑھانے بلاول بھٹو زرداری میدان میں آ گئے
وقت کی یہ خوبی ہے کہ اچھا ہو یا برا ،گزر ہی جاتا ہے اسی طرح 2016کا سورج
کچھ اچھی اور کچھ بری یادوں کے ساتھ غروب ہوا اور 2017کا سورج اچھی امیدوں
کے سہانے خواب لیے طلوع ہوا۔سال کے اختتام پر 365دن و رات کا احتساب کرنا
یقینا ایک فن ہے کیونکہ یہ ہمیں اگلے سال کو کامیاب بنانے کے لیے بہتر
منصوبہ بندی کرنے میں مدد گار ثابت ہوتاہے ،نیز یہ ہمیں غلطیوں سے سبق
سیکھنے میں مدد دینے کے ساتھ انہیں دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کرواتا ہے،اگر
ایسا نہ کیا جائے تو کسی بھی قوم کے لیے کامیابی و کامرانی محض خواب بن
جاتی ہے۔سیاست کے میدان میں اگر پاکستان کے شب و روز کا جائزہ لیا جائے تو
روز اول کی طرح آج بھی عوام سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار
ہے۔یہی وجہ ہے کہ سال 2016میں پانامہ لیکس نے ہنگامہ برپا کئے رکھا،عمران
خان اور نواز شریف کے دوران سیاسی رنجشیں ختم نہ ہو پائیں۔المیہ یہ ہے کہ
2016میں موروثی سیاست بلاول بھٹو کی شکل میں ایک بار پھرابھری ۔سال 2016
اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے لہذا نیا سال یعنی2017 سیاسی طور پر نہایت اہم
ہوگاکیونکہ 2018 میں عام انتخابات متوقع ہیں یہی وجہ ہے کہ نئے سال میں
سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی۔اسی لئے ہر سیاسی جماعت کی توجہ آنے والے
انتخابات پر ہے، انتخابی گہما گہمی کا آغاز نئے سال سے ہی ہو جائے گا۔
بھرپور انداز میں انتخابی مہمات بھی چلائی جائیں گی، پارٹی ٹکٹ دیتے ہوئے
کہیں رشتے داری کام آئے گی، کہیں وفاداری تو کہیں پیسہ اپنا جادو دکھائے
گا۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں انہی بنیادوں پر پارٹی ٹکٹ دئیے جاتے
ہیں اور اگر ان تمام تر خوبیوں کے باوجود بھی ٹکٹ نہ ملے تو آزاد حیثیت میں
انتخابات میں حصہ لیا جائے گا، جیتنے کے بعد بولی لگے گی اور جو جتنا زیادہ
بھاؤ دے گا وفاداری اس کے نام کر دی جائے گی۔ہمارے ملک میں جمہوری نظام ہے
مگر افسوس کے ساتھ ملکی تاریخ میں آج تک اقتدار مودی کی طرح کسی نچلے طبقے
سے آنے والے شخص کو دینا تو دور، کسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو
بھی نصیب نہیں ہوا۔ افسوس کے ساتھ سیاسی میدان میں برٹش راج کے بعد اشرافیہ
راج ہی قائم رہا ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کی بڑی جماعتوں کے
اندر ہی جمہوری عمل نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی روز اول سے بد نصیبی یہی رہی کہ اسے آج تک کوئی ایسا حکمران
نہیں ملا جو اس کی عوام کے نصیب روشن کرے،ہر حکمران بر سر اقتدار میں آنے
کے بعد صرف
اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کو سنوارنے کا مشن رکھتا ہے،ایک حکمران جب بر سر
اقتدار آتا ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ عوام کے بارے
میں سوچیں اور ان کے مسائل حل کرے ،دوسرا راستہ یہ کہ اپنا پیٹ بھرے،اب یہ
حکمران پر ہے کہ وہ دونوں میں سے کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں،وہ حکمران
جو اپنی بجائے عوام کا سوچ لیں تو اس قوم کی تقدیر روشن ستاروں کی طرح
چمکنے لگتی ہے اور اگر وہ اپنا ہی سوچیں تو پھر ان کی عوام کا حال و ہی
ہوتا ہے جورواں سال پاکستانی قوم کا ہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے حکمران
اور سیاسی جماعتوں کا آپس میں دنگل سجا رہا ۔اس کے علاوہ ہر روز ایک نیا
سیاسی بھونچال اور نئی سیاسی کہانی اخبارات اور نیوزچینل کی زبانی عوام میں
مقبول ہو تی رہی مگر اس سب کے باوجود ہر سال کی طرح 2016 میں بھی پاکستانی
عوام کی نہ قسمت بدلی نہ عوام پر کسی حکمران کو رحم آیا ،ہر کوئی اپنے مفاد
کے حصول کی دوڑمیں اول آنے کی کوشش میں رہا۔ایک سروے کے مطابق 2015 کی طرح
2016میں بھی نواز شریف ہی تمام قومی رہنماؤں میں بہتر رہے۔مگر پانامہ کی
وجہ سے اہمیت کم ہوئی۔اسی طرح عمران خان کی مقبولیت دوسرے نمبر پر تھی
مگر2016 میں یو ٹرن و جذباتی ردعمل کے باعث عمران کی مقبولیت میں اچھی خاصی
کمی واقع آئی۔ اسی طرح 2016میں بھی یہ سیاسی شخصیات وہیں ہیں جہاں 2015میں
تھی لوگوں کی سوچ میں تھوڑی بہت کمی بیشی کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی نہیں
آئی۔
سال 2016میں کچھ سیاسی واقعات ایسے ہیں جو اس سے پہلے کبھی رونما نہیں ہوئے
جیسے ایم کیو ایم کی تقسیم کے عمل کے پہلے باغی و ہیرو ’’مصطفی کمال‘‘
رہے۔الطاف حسین کی قیادت میں 1978سے2016تک کا طویل سفر طے کرنے والی
’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی وجہ سے مزید
مشکلات و چینلجز کا شکار رہی اور ان کے سامنے آنے کے بعد سے ہی مائنس الطاف
حسین فارمولے پر کام شروع ہوگیا،کراچی میں مائنس الطاف حسین کی گونج جو ایک
عرصہ سے سنائی دے رہی تھی ،اس کا عملی آغاز اس روز ہوا جب سابق میئر کراچی
اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما سید مصطفی کمال نے 3مارچ 2016،جمعرات
کی سہ پہر دبئی سے وطن واپسی پر ڈیفنس کے علاقے میں ایک ہنگامی پریس
کانفرنس کی جس میں ان کے ہمراہ متحدہ کے سابق رہنما انیس قائم خانی بھی
تھے۔ایم کیو ایم کی تقسیم کے عمل کے دوسرے باغی’’انیس قائم خانی ‘‘تھے
جومتحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے اہم رکن رہ چکے تھے،اس روزمصطفی
کمال اورا نیس قائم خانی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے
اپنی ایک الگ جماعت بنانے کا اعلان کیاتھا۔لہذا23مارچ 2016کو ایک نئی پارٹی
’’پاک سر زمین ‘‘ کے نام سے ابھری۔2016الطاف حسین کے لیے نہایت نا مناسب
ثابت ہوا۔کیونکہ الطاف حسین جن کا شمار پاکستانی سیاست کی ایک متنازع شخصیت
کے طور پر ہوتا تھا ایک عرصہ سے انہیں ’’را‘‘ کا ایجنٹ بھی قرار دیا جا
رہاہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ پاکستان مخالف پسندوں کے دوست ہیں اور اس
کا ثبوت بھی انہوں نے 22اگست کی شام واشگاف الفاظ میں دے دیا پریس کلب کے
باہر 'کارکنوں کی گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل' کے خلاف احتجاجاً بھوک
ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کارکنوں سے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرتے
ہوئے الطاف حسین نے نہ صرف پاکستان مخالف نعرے لگائے بلکہ ملک کو پوری دنیا
کے لیے ایک’ناسور‘ بھی قرار دیابلکہ انہوں نے پاکستان مردہ بادکے نعرے بھی
لگائے ۔اس تقریر کے بعدہر طرف مائنس الطاف حسین کا ڈرامہ رچایا گیا جن کے
کرداروں میں عامر لیاقت حسین بھی شامل تھے۔اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے
قائد فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی رجسٹر سیاسی جماعت
ہے اوروہ یہاں کے قانون اور آئین کا احترام کرتی ہے تو اس کا انتظام بھی
پاکستان سے چلنا چاہیے،نیز پارٹی کے فیصلے پاکستان میں ہونگے‘‘۔پاکستان کے
وزیراعظم نواز شریف نے 22ستمبر2016کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں
اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کیخلاف آواز اٹھائی
۔مگر نواز شریف کو جس بنیادپر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ
وزیراعظم نے بھارتی جارحیت اور پاکستان سے ’را‘ کے گرفتار ایجنٹ کے بارے
میں دنیا کو آگاہ نہیں کیا۔حتی کہ مودی سرکار تو ہٹ دھرمی اور جارحیت میں
اس قدر اندھا ہو گیا تھا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی
دیتارہا مگر اس میں بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ۔جہاں اور بہت سے
معاملات تھے جو ملکی سیاست کوپوری دنیا میں ہائی لائٹ کرنے میں معاون ثابت
ہو رہے تھے انہی میں سے ایک تھا ’سرل المیڈاکی قومی سلامتی کے حوالے سے خبر
فیڈ کرنیکا معاملہ‘ ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ 3اکتوبر سے لے کر آنے والے دنوں تک
یہ واقعہ ملکی سالمیت کو خطرے سے دوچارکر رہا تھا اور یہ بھی قیا س آرائیاں
سامنے آ رہی تھیں کہ کہیں وزیراعظم استعفیٰ نہ دے دیں کیونکہ اس وقت حکومت
اس معاملے کو لے کر بہت پریشان تھی۔پہلے سرل المیڈا کا نام ای سی ایل یعنی
ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا اور پھر اسے لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔پھر اس
خبر کو فیڈ کرنے کے پیچھے پانچ دماغوں کا ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا جن
میں وزیراعظم کا نام بھی شامل ہونے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھی۔ خیر اسی
متنازعہ خبرکی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف نے29اکتوبر2016کووزیر اطلاعات
پرویز رشید کو عہدہ سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ مریم اورنگ زیب وزیر اطلاعات
مقرر ہوئیں۔پانامہ ہنگامہ کے باعث اسلام آباد میں حکومت نے دفعہ144کا نفاذ
کیا چونکہ عمران خان کرپشن اور پانامہ کے خلاف2نومبر کو اسلام آباد بند
کرنے کا اعلان کرچکے تھے ۔حکومتی رکارٹوں کے باعث پی ٹی آئی کے کارکنوں کو
اسلام آباد آنے سے روکا گیا اور کئی چند مقامات محاذ جنگ بھی بنے اور اسی
دوران شیخ رشید کا کردار کوئی بھلا نہیں پائے گا وہ پولیس سے آنکھ مچولی
کرتے ہوئے عوام سے خطاب کرنے کی کوشش میں کافی مشہور ہوئے اور اس دوران ان
کو ہیرو جیسے القابات سے بھی نوازا گیا۔2نومبر پاکستانی عوام کے لیے نہایت
اہم تھا کیونکہ ہر طرف بے چینی کا عالم تھا کہ اس دن کیا ہو گیا ؟مگر پی ٹی
آئی نے اس دن یوم تشکرمنایا۔عوام کی بہت بڑی تعداد عمران خان کے 2نومبر کے
دھرنے کو یوم تشکر میں تبدیل کرنے پر مایوس ہوئی اور اس معاملے پر عمران
خان کو کڑی تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا اور اب پانامہ معاملے سپریم کورٹ
میں چل رہا ہے۔عالمی ہیرو اور دنیا کی عظیم فوج کے عظیم سپہ سالار جنرل
راحیل شریف بطور آرمی چیف اپنی تین سالہ آئینی مدت پوری کر کے 29نومبر
2016کو ریٹارئر ہوئے تھے ان کی ریٹارمنٹ سے پہلے یہ بھی سننے کو مل رہا تھا
کہ وہ مدت بڑھا دیں گے بلکہ پاکستانی قوم جنرل (ر)راحیل شریف کو اپنا ہیرو
سمجھتے ہوئے مزید ایکسٹنشن لینے یا اقتدار پر قابض ہونے کا کہتی رہی مگر
انہوں نے باوقار انداز میں فوج کی ذمہ داری جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد
کی۔ امید ہے 2017میں وہ بھی قوم کے ہیرو ثابت ہونگے۔گڑھی خدا بخش میں بے
نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی
زرداری نے نواب شاہ سے جبکہ بلاول بھٹو نے لاڑکانہ سے اپنی والدہ کی نشست
سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میرے
بزرگوں نے بڑوں کی عزت کرنا سکھایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی
سیاست سے اتفاق کروں، آپ چاہتے ہیں کہ سی پیک کو متنازع بنایا جائے اور میں
چپ رہوں، آپ چھوٹے صوبوں کے حقوق چھین لیں، آپ پانامہ میں پکڑے جانے کے
باوجود احتساب سے بھاگیں، آپ کی پالیسی سے صنعت تباہ ہوجائے، کارکن ایک اور
لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں، بلاول بھٹو میدان میں آگیا ہے، ہمیں سیاسی لانگ
مارچ کی تیاری شروع کرنی ہے، ہر صوبے ہر شہر ہرگاؤں میں آرہا ہوں اور اپنے
4 مطالبات منوانے کے لیے پورے ملک کا دورہ کروں گا۔لہذا2017میں ایک اور
ڈرامہ ہونے والا ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے۔2016کے پہلے دن سے آخر تک عوام
مہنگائی ،بے روزگاری،بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ،بنیادی ضروریات کی عدم
دستیابی جیسے مسائل سے دوچار رہی مگرحکمرانوں نے عوام کو اس دلدل سے نکالنے
کے لیے کوئی خاص لائحہ عمل اختیار نہ کیا،2017میں معمول کے مطابق عوام اپنے
حکمرانوں سے بہتری کی امید کر رہی ہیں ،حکمرانوں سے اپیل ہے کہ وہ عوام
الناس کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات اپنائیں۔ |