کسی کی شہرت ان کے نمایاں کارنامے ہائے کی وجہ سے ہوتی ہے
دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد گزرچکے ہیں اور سینکڑوں اب بھی
موجود ہیں جن کو کسی نا کسی طور پرمعاشرے نمایاں حیثیت حاصل ہے کوئی کھیل
کا میدان مار کر سلطان بنا توکوئی دولت کے انبار لگا کر پیسے کا تاج سر
پرسجابیٹھا تو کوئی سیاست کے میدان سے حکمران بن گیا آج اپنے کالم میں جس
شخصیت کا ذکر کر رہا ہے اس کا کھیل شوبز سیاست ادب فن جرم اور بزنس ان میں
سے کسی سے دور کا نہ واسطہ ہے نہ تعلق بلکہ اس شخصیت نے اپنی شہرت بنانے کے
لئے کس قسم کی کوئی محنت نہیں کی بلکہ یہ اپنے روزمرہ زندگی کے کام کاج ا
نجام دینے میں مصروف رہتا ہے بس اس کا ان اموار کو اپنے انداز سے سر انجام
دینے کی وجہ سے اپنے علاقے میں کسی سیاست دان شاعر ادیب فنکاراور بزنس مین
سے زیادہ شہرت رکھتاہے علاقے کے بچے سے لے کر بڑے تک سب کے سب ان شخصیت سے
واقف ہیں بلکہ سب طبقات میں مقبولیت رکھتے ہیں ان کا تعارف اور ان کے زندگی
کے کارنامہ ہا ئے سے پہلے کچھ اس علاقے کا تعارف کر وانا چا ہتا ہو ں تا کہ
تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کے دل میں ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہو تو پھر ان
کو ڈھونڈتے ڈھونڈ تے کہیں آپ بوڑھے نہ ہو جائیں پنجاب کا دور افتاد ضلع
راجن پور جوپنجاب کے آخرمیں ہے اس کے بعد سند ھ اور بلوچستان کی سرحدیں
شروع ہو جاتی ہیں راجن پور کے جنو ب میں تقریباً سات کلومیٹردور انڈس ہائی
وے پر یو نین کو نسل کوٹلہ نصیر ہے ایک چھوٹا سا قصبہ جس کا نام بھی کو ٹلہ
نصیر ہے وہ شخصیت اس گاؤں کے باسی ہیں اور میرے لئے فخرکی بات یہ ہے کہ میں
بھی اسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہوں یہاں پر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے
زمینی پا نی کڑوا ہے پا نی کے حصول کے لئے یہاں کیمقامی افراد تھر کے
باسیوں کی طر ح میلوں دورکٹھن مصافت طے کرنے کے بعد پانی لانے میں کامیاب
ہوتے ہیں یہاں پر بھٹہ خشت بڑی تعداد میں ہیں جن کی وجہ سے علاقہ اکثرمری
وشمالی علاقہ جات کی طرح دھند کی لپیٹ میں رہتا ہے قصبے کی قریب کاٹن
فیکٹریاں چھ سات کی تعد اد میں ہیں ان سے اڑنے والی دھول اور کپاس کے ریشے
سے سنوفال کی کمی بھی پوری ہو جاتی ہے دوعددفلورملزہیں علاقے کے غیریب اور
مساکین آٹابازار سے اپنے پیسوں سے خرید کر روٹی کھاتے ہیں وہ ایسا شوقیہ
طورپر کر تے ہیں ضلع راجن پور کی سب سے بڑی انڈسٹری شوگرمل بھی قصبہ کوٹلہ
نصیر میں ہے جس کی کرامات سے عوام الناس کو ٹرالیوں سے مفت گنے چوسنے کو مل
جاتے ہیں ساتھ ہی ٹرالی سے گنا کھنچے کے ساتھ جاگینگ بھی ہو جاتی ہے او
راپنی جو انی کا بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کتنے پا نی میں ہے اور یہاں پر ہفتے
میں دودن مو یشی منڈی سرکارکی نگرانی سے منعقد کروائی جاتی ہے جو بالتریب
اتوار اور منگل کے دن ہوتی ہے جس میں زندہ جانور لائے جاتے ہیں پریہاں پر
قصاب کبھی زندہ جانور دستیاب نہ ہو نے پر مردہ جانور ذیبح کر کے عوام کو
گوشت کھیلانے سے محروم نہیں کرتے جس کے لئے پورا قصبہ ان کا شکر گزار رہتا
ہے عموماً منڈی میں جانوروں سے زیادہ موٹر سائیکل ہوتے ہیں جس سے ٹریفک
پولیس بہت زیادہ مصروف رہتی ہے اور ان موٹر سائیکلوں کو کنٹرول کرتے رہتے
بچارے بہت سخت ڈیوٹی کرتے ہیں اللہ ان کو جزائے خیر دے یہاں پر کپاس گندم
اور گناہ زیادہ اُوگیا جاتاہے ویسے توپرامن علاقہ ہے یہاں پر بڑے زامیندار
ہیں جن کے ڈرسے جرائم کم ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ چور یہاں چوری دن کو نہیں
کر تے کیونکہ ڈرلگتا ہے اس لئے نامراد رات کو چوری کرتے ہیں جو کبھی پکڑے
بھی نہیں گئے عجیب بات ہے چور بھی ہماری طرح کے انسان ہیں پر جنات کی طرح
نظر نہیں آتے اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تعارف شخصیت کا تھا اور جناب علاقے
کی خوبیاں گنوانے بیٹھ گیا ہے ان کا پورا نا م ہے پیر بخش پربہت کم لو گ اس
نام سے واقف ہیں کیونکہ مجھے بھی ان کا نام کچھ دن پہلے پتہ چلا ہے ہرکسی
کی زبان پر پیلا پیلا ہوتا ہے جناب یہ ان کا نام ہے کوئی رنگ نہیں آپ
YELLOW نہ سمجھ لینا جب میری اس سے تحریر کے حوالے سے ان سے بات ہوئی تو
بہت جلد میں تھے سٹرک پر چند منٹ مجھے دے پائے یہ حضرت پیشے کے اعتبارے
چرواہائے ہیں اور بچپن سے تقریباًچھ سال کی عمر سے یہ کا م کر رہے ہیں اب
شاید چالیس سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اسی پیشے سے وابسطہ ہیں بلوچ
قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں سادہ انسان ہنس موکھ ہیں زیادہ فیشن پر دھیان نہیں
دیتے ان کا اپنا سٹائل ہے مست ملنگ اور من موجی ہیں سر پر سندھی بلوچی مکس
ٹوپی جس کا رنگ تقربیاً تبدیل ہو تا رہتا ہے کپڑے بھی سادہ جو کئی کئی دن
چلتے ہیں جس کی بنیادی وجہ غربت ہے ملاقات پر جب ان کی خدمت میں کچھ سوالات
عرض کئے تو جنا ب نے جوابات خوب دیے ان ایک خوبی ہے کہ یہ حاضر جواب ہیں
میں پوچھ مویشی کب سے چراتے ہو جو اب ملا جب میں صرف قمیض پہنتا تھا میں
کہا وہ تو سب پہنتے ہیں عمر کیا تھی کہتے ہیں جب بچہ صر ف قمیض میں رہتا ہے
تو اس کی عمر کیا ہوتی ہے پھر مجھے سمجھ میں آیا اکثر دیہاتوں میں پانچ سال
کے بچوں کو صرف قمیض ہی پہنا تے ہیں شاید پیمپر(لنگوٹی ) نہ ہو نے کی وجہ
سے پیلا آپ کبھی سکول گئے ہو وہ بولے میری گائے سکول نہیں جاتی ہے تو میں
کیو ں جاؤں پھر پوچھ تمہارے پاس پیسہ بڑی تعداد میں آجائیں تو کیا کر وگے
بولے گھر بناؤں گا کیونکہ اس نے ساری زندگی گھاس کی بنی چھو نپڑی میں گزار
چکا ہے بولے ا چھے کپڑے اپنے لئے اور بچوں کے لئے لو ں گا میں نے پو چھا
کبھی آپ کے کان میں سونے کی بالیاں ہو تی تھیں اب کیو ں نہیں پہنتے ہو؟ وہ
بولے مجھے مولوی صاحب نے کہا ہے کہ یہ کا م غلط ہے مرد پر سونا حرام ہے اس
لئے اب اپنے بیٹے کو پہنا دی ہیں کیا آپ کے بچے بھی سکول جا تے ہیں؟ ان کا
جواب تھا نہیں وہ بھی چچا کے ساتھ مویشی چراتے ہیں ملک کے صدر وزیر اعظم
اور مشہور سیاست دانو ں کو جا نتیہو؟میرا سوال تھا وہ بولے میں ان کو جا
نتا ہو اس کا اشارہ گائے کی طر ف تھا میں ان کو جانتا ہو ں بولے اب مجھے
جلدی ہے میرے مو یشی فصلوں سے بھتہ خوری نہ شروع کر دیں پھر تھانیدار سے ان
کی کو ن جان چھڑوائے گا انٹرویو کی فیس نسوار کے پیسے لئے اورچل دیا پیلا
بلوچ علاقے میں بہت ہی زیادہ مشہور ہے یہ کسی سیاسی پارٹی کو نہیں ما نتے
کیوں کہ اس کا تعلق تما م سیاسی پا رٹیوں سے ہے تمام کے جلسے ریلیاں کارنر
میٹنگ میں سب سے پہلے یہ تشریف لے جاتے ہیں بلکہ جلسوں میں ڈانس جھمرکی
ابتدا ء انہوں نے ہی کی تھی دھرنے والوں نے ان کا فیشن اپنا یا ہے کسی فرقہ
واریت کے چکر میں نہیں پڑتے تمام مذہبی پروگراموں میں اپنی شرکت یقینی
بناتے ہیں علاقے کے سیاست دان اتنی شادیوں اور قل خوانیوں میں نہیں جاتے
جتنا پیلا بلوچ جا تا ہے اس کو ان تما م پروگراموں کی اطلا ع کیسے ہو جا تی
ہے علاقے کے لو گ آج بھی اس بات پر حیران اور پریشان ہیں شاید جنات ان کو
یہ سروس فراہم کرتے ہوں گے کھانے پینے کے معاملے میں شرمات ہیں ہی نہیں
اللہ تعالی نے ان کو کما ل کی ہضم کر نے کی صلاحیت دی ہے یہ بھی اللہ کی
خاص نعمت ہے بڑے لوگ کو بیماری کی وجہ سے کھانا نصیب ہی نہیں ہوتا شاید وہ
بڑے لوگ کھانے کے بدلے دوسروں کا حق کھا کر پیٹ بھر لیتے ہوں گے اس لئے ان
کو کھانے سے بد ہضمی ہوتی ہے اوربڑے لوگ زیادہ کھانے سے بیمار بھی ہوجاتے
ہیں پر پیلا بلوچ زیادہ کھانے سے صحت مند ہو تا ہے اگر بیمار ہو جائے تو
کسی میڈیکل سٹور سے گولی ما نگ کر کھا لیتا ہے اور فوراًٹھیک ہو جاتا ہے
کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا نہ کسی کا حق مارا ہے بس کسی نے خوشی سے دے دیا
یا کبھی گپ شپ لگا کر انعام وصول کر لیا لوگ اس کو روک روک کر اس کے ساتھ
گپ شپ لگاتے ہیں کسی بڑی گاڑی والے کو دیکھ کر اس کو بڑا آدمی تصور کر لیتا
ہے اور اپنے سچے من کی طر ح اس کو بھی سچا تصور کر بیٹھتا ہے پر اس بچارے
کو یہ پتہ نہیں چلتا اتنی بڑی گاڑی میں انسان تو چھو ٹا ہے پیلا آج سے پچاس
سال پہلے پیلا تھا اور اب بھی پیلا ہے وہ نیلا اور سرخ نہیں ہوااتنا عرصہ
گزرنے کے باوجودپیلابلوچ نے رنگ تبدیل نہیں کیالیکن اتنے عرصے میں کافی لوگ
بدل گئیجو اب تک کئی کئی رنگ بدل چکے ہیں پیلابرسوں پہلے کانوں میں سونے کی
بالیاں پہنتا ہے جب اس وقت بہت کم عورتوں کے پاس سونا ہوتا تھا لیکن آج اس
کے کانوں میں با لیاں نہیں ہیں پر آج ان گھر وں میں سونے کے انبار ہیں جن
گھر کچھ نہ تھا پیلابلوچ کے پاس اس وقت بھی مویشی تھے جب کچھ لوگ دوسروں کے
مو یشوں کی گھوبر جمع کر کے ایندھن کے طور پر استعما ل کر تے تھے پیلابلوچ
کا گھر آج بھی گھاس کے تنکوں کا ہے پیلابلوچ آج بھی وہی چرواہا ہے جو برسوں
پہلے تھا کیونکہ پیلابلوچ نے کوئی چورینہیں کی سودنہیں کھایا بنک کے قرضے
معاف نہیں کروائے ٹیکس نہیں کھایا چوروں کی پشت پناہی نہیں کی عوام سے
جھوٹے وعدے کر کے ووٹ نہیں لئے فصل اگانے والی زمین سے تیل نہیں نکالا اگر
پیلا یہ سب کچھ کرتا تو آج پیلا ایک سیاست دان ‘سائیں‘وڈیرا ‘گودا ‘خان‘
سردار ‘سٹھ ‘ملک ‘ چوہدری ‘اور نام کا حاجی ہوتااور ساتھ کسی بڑی جائیداد
کارکوٹھی اور فیکٹری کا مالک ہو تا لیکن پیلا اللہ توکل رہا اس لئے تو پیلا
ہی رہا پر دوسرے رنگ بدلتے رہے اور معزز بنتے گئے پر پیلا اس توکل سادگی
ملن سازی کی وجہ سے آج شہرت پر ہے جس شہرت کے لئے اوروں نے کئی کئی رنگ
بدلے اور اس شہرت کے لئے چوردروازے کا سہارالیا پر پیلابلوچ نے نہ تو رنگ
بدلہ اور نہ ہی چور داروازے کا سہارا لیا اس لئے آج پیلا بلوچ کی شہرت
بلندیوں پر ہے- |