صدی کے عظیم ادیب اور مفکر جناب الطاف حسن قریشی

 جناب الطاف حسن قریشی کو اﷲ تعالیٰ نے ایسی تحقیقی و تخلیقی کاوشوں سے نوازا ہے کہ وہ ہر منفی پہلو سے بھی مثبت پہلو نکال کر ہمت اور حوصلے کا سبق دیتے ہیں۔ یوں تو الطاف حسن قریشی صحافتی آسمان کے وہ درخشندہ چاند ہیں جن کی فہم و فراست و بصیرت اور پُرا ثر تحریروں و تجزیوں کے چشمے ہر جگہ پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم پاکستان کے زوال پذیر سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی حالات دل سے گرفتہ ہو کر جب جناب الطاف حسن قریشی کا تجزیہ پڑھتے ہیں تو جابجا روشنی کے چراغ جلتے محسوس ہوتے ہیں اور دل بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مایوسی گناہ ہے، امید کی کرنیں ابھی باقی ہیں۔

یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے دو مرتبہ ان کی سرپرستی میں کام کرنے کا موقع میسر آ چکا ہے۔ ایک مرتبہ ادارہ امور پاکستان میں بطور پرائیویٹ سیکرٹری اور دوسری بار ان کی ادارت میں شائع ہونے والے اردو ڈائجسٹ میں بطور سب ایڈیٹر/منیجر تعلقات عامہ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دونوں بار جناب الطاف حسن قریشی کو میں نے بہت صحافی، معتبر ادیب اورسلجھا ہوا انسان پایا۔ اس کے باوجود کہ اردو ڈائجسٹ میں میری ملازمت ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب طیب اعجاز قریشی کی مرہون منت تھی (جس پر میں ان کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار بھی ہوں)۔ میں نے اردو ڈائجسٹ کی صحافتی ذمہ داریوں کو اعزاز تصور کر کے اپنی استعداد سے بڑھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اردو ڈائجسٹ ایک جریدہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی صحافتی یونیورسٹی ہے جہاں سے سیکھ کر جانے والے صحافتی دنیا میں آج بڑے بڑے عہدوں پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں جناب مجیب الرحمن شامی، ضیا شاہد، اسد اﷲ غالب نمایاں ہیں۔جنا ب سجاد میر کا درج ذیل آرٹیکل جناب الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ پر ایک خوبصورت تاثر ہے۔ جو قارئین کی دلچسپی کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔

اس کتاب کی اشاعت پر میں جمہوری پبلی کیشنز کے روح رواں جناب سہیل فرخ گوئندی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ وہ اردو ڈائجسٹ میں 1960 ء سے لے کر آج تک جناب الطاف حسن قریشی کے سیاسی تجزیوں کو بھی اگر کتابی شکل میں شائع کر دیں تو اس کتاب کو پاکستان کی حقیقی تصویر اور بے لاگ تاریخ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج تک سرکاری یا پرائیویٹ کوئی ادارہ یہ کام نہیں کر سکا، حالانکہ یہ کام ہونا نہایت ضروری ہے۔

تاریخ سے ملاقات
ممتاز صحافی اور ادیب جناب سجاد میر کا جناب الطاف حسن قریشی کی شخصیت ، طرز تحریر اور انٹرویو پر مشتمل کتاب پر ایک دقیع تجزیہ پیش خدمت ہے۔ جو کتاب کا حصہ بھی ہے اور نوائے وقت میں بھی شائع ہوا تھا۔

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ قلم کاروں میں ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ ان میں صحافت سے تعلق رکھنے والے بہت ہی کم ہوں گے جنہوں نے وقت کی باگیں تھام کر واقعات کا رخ موڑا۔ گاہے تاریخ کی منہ زور موجوں کے تموج پر سوار ہو کر بنجر قدیم پر نئے دریا بہا دیئے۔ الطاف حسین قریشی کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے اس وقت جب میں ان کے انٹرویوز ایک کتابی مسودے کی شکل میں دیکھ رہا ہوں، تو گزشتہ نصف صدی کا سارا منظر نامہ میری آنکھوں میں گھو م جاتا ہے۔ آج کی اودھم مچاتی صحافتی ہڑبونگ میں شاید یہ نسل بہت کچھ بھول چکی ہے اور نہیں جانتی کہ ان کا نک سک درست رکھنے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر قریشی صاحب جیسے لوگ نہ ہوتے تو جانے ہم کس عالم میں جی رہے ہوتے اور وہ تو اس قبیلے کے سردار تھے، اس کارواں کے قافلہ سالار۔ اس ٹیکسال سے کتنے ہی سکے ڈھل کر نکلے ہیں جو اپنے اپنے مقام پر سکہ رائج الوقت ٹھہرے۔ ان کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان کے مخالف ان سے غلط سلط باتیں منسوب کر کے بھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مخالف کے اثرات کتنے گہرے اور دور رس ہیں کہ ان کا تعاقب مشکل ہے۔ انہوں نے ایک زمانے پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں کیا زمانہ تھا جب ان کا نام نہ صرف عام پڑھنے والوں میں مقبول ہو رہا تھا بلکہ اس ملک میں اقتدار کے سرچشموں پر قابض لوگ بھی ان کی تحریروں کے انتظار میں رہتے تھے۔ عوام میں وہ ہر دلعزیز، سیاست دان ان کے عاشق، افسر شاہی ان کی مداح اور فوج میں انکی پذیرائی۔ یہ پذیرائی تو اس حد تک تھی کہ ضیاء الحق کو گمان گزرا کہ اس شخص کے ایک آدھ اشارے سے کہیں فوج میں اس کے خلاف ’’بغاوت‘‘ نہ ہو جائے۔ اسی خوف کے طفیل انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بھٹوکے بعد ضیاء الحق کی جیل بھی کاٹنا پڑی۔ وہ اس لحاظ سے کامیاب رہے کہ ان کے نظریات و افکار آج بھی ہمارے خون اور گودے کا حصہ ہیں جنہیں کوئی بھی ہمارے جسد سیاست و ثقافت سے ہزار جتنوں کے باوجود الگ نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ سرزمین ایسی نہ ہوتی اگر اس کی آبیاری ایسے لوگوں نے نہ کی ہوتی۔ وہ بلاشبہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں عبقری (Legend) کہا جاتا ہے۔

اس مرحلے پر میرے لیے ایک مشکل تو یہ ہے کہ اس قسم کا تجزیہ آسان نہیں ہوتا جہاں آپ کو وقت کی تہوں کے اندر اتر کر دیکھنا پڑے۔ پھر ایک ایسے شخص کے لیے تو اور بھی مشکل ہے جس نے اپنے سفر کے آغاز ہی اس شخصیت کے زیر سایہ ہی کیا ہو۔آپ چاہیں بھی تو خود کو اس سائے سے الگ نہیں کر سکتے۔۔۔ چاہے آپ کا اپنا قد کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے۔ مگر یہ ایک قرض بھی ہے او رفرض بھی جسے ادا کرنا اپنی ہی ذات کے بعض گوشوں سے پردہ اٹھانے اور اپنے عہد کے شعور کو سمجھنے کے مترادف ہے۔

بات پھیلتی جائے گی، یہاں اس کی گنجائش ہے نہ ارادہ۔ اس لیے آسانی کے لیے اپنے گرد ایک چاردیواری بنا لیتے ہیں ابتدا ہی میں جان لیتے ہیں کہ ہمیں کن سوالوں کے جواب درکار ہیں۔ وہ چار پہلو یہ ہیں:
1۔ انٹرویوز کے حوالے سے ان کی اسلوبیاتی تحسین
2۔ تاریخی پس منظرمیں ان کی اہمیت
3۔ تاریخ صحافت میں ان کا کردار
4۔ پاکستان کی تہذیبی شناخت پر ان کے اثرات

اب میں ان سوالات کے الگ الگ جوابات نہ دے پاؤں گا کہ اس کے لیے تو ایک دفتر درکار ہے، تا ہم چند اشارے جو اوپر آچکے ہیں اور چند وضاحتیں جو اب کی جارہی ہیں، ایک خاکہ تیار کر پائیں گی جس کے پس منظر میں ہم اس کتاب کا مطالعہ زیادہ بہتر انداز میں کر سکیں گے۔

اردو ڈائجسٹ کا آغاز پاکستان کی صحافت ہی میں نہیں بلکہ ہمارے تہذیبی سرمائے میں ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ جس وقت ہماری صحافت ایک خاص انداز کے فارمولوں پر چل رہی تھی، شاید قریشی صاحب کے دل میں یہ خیال آیا کہ ہم مغرب کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتے۔’ ’ریڈرزڈائجسٹ‘‘ کا ماڈل پر کشش تو تھا مگر ہمارے اہل دانش نے اسے اپنے ہاں دریافت کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ شاید اسی خواہش نے انہیں یہ تجربہ کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ انہوں نے کیسے کم وسائل سے اتنے گراں قدر اور قیمتی منصوبے کا آغاز کیا۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ ارادہ اور عزم ہو تو جوئے شیرلانا ایسا کارے دارد بھی نہیں۔ یہ اردو صحافت کا شاید پہلا جدید تجرباتی معرکہ تھا جو انہوں نے سر کیا۔

ایک مشکل اور تھی کہ الطاف حسن قریشی نے یہ کام کسی صحافتی مہم جوئی کے طورپر تو کیا نہ تھا۔ ان کے دل میں جو خوابوں کی دنیا تھی، اس کا اظہار بھی کرنا چاہتے تھے۔ڈائجسٹ کی تنگنائے میں اس کی گنجائش کہاں تھی۔ وہ اداریہ لکھتے یا اپنا خصوصی تجزیہ ایک خاص انداز میں تحریر کرتے۔ ایسے میں انہیں کہیں یہ خیال آیا ہو گا کہ انٹرویوز کا وسیلہ نئی راہیں کھول سکتا ہے اس پیغام کو زیادہ دور تک لے جا سکتا ہے ہے اور لوگوں کی دلچسپی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ان انٹرویوز کو ڈائجسٹ کے مزاج سے ہم آہنگ کیا جائے۔ آدمی میں صلاحیت ہو تو وہ راہیں تراش لیتا ہے۔ الطاف صاحب نے خود ان انٹرویوز کو ’’ملاقاتی خاکے‘‘ کہا ہے۔ غالباً یہ ترکیب پہلی بار ان کے لیے اردو کے ممتاز نقاد وقار عظیم نے استعمال کی تھی۔ یہ اصلاح ان کے انداز اور اسلوب کا نچوڑ ہے۔ سوال جواب کا انداز اپنانے کے بجائے، انہوں نے اسے اپنے قارئین کے لیے دلچسپ بنانے کی ٹھانی اور ایسا کامیاب تجربہ کر ڈالا کہ اردو صحافت آج تک اس پر نازاں ہے۔ بنیادی طور پر الطاف صاحب محض صحافتی مزاج کے حامل نہ تھے بلکہ شاندار ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ ان کا یہ ذوق اس وقت کام آیا اور اس نے ان ملاقاتی خاکوں میں جان ڈال دی۔

الطاف صاحب کی پیاس صرف اس سے تو بجھ نہ سکتی تھی کہ وہ ہر ماہ محض ایک شخصیت پر بات کر کے مطمئن ہو جاتے، وہ تو ملک میں پھیلے ناسوروں کو چھیڑنا اور لاکھوں خوبصورتیوں کو اجاگر کرنا چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے انہیں پی آئی اے کا کار کردگی کھلی ہو۔ وہ اپنی اسلوبی تکنیک سے کام لیتے ہوئے اس معاملے کو بھی اپنے خاکوں میں پرو جاتے۔ انہوں نے کینوس بڑا وسیع کر لیا تھا مگر یہی تو ان کا اصل امتحان تھا۔ اکیلا ڈائجسٹ اور چار سو پھیلی دنیا کے رنگ! وہ اکیلے ہی اپنے قاری کو سب سے آشنا کرتے جاتے۔ کہیں پھول اور کہیں کانٹے، کہیں زہر میں بجھے ہوئے تیر، کہیں شہد میں رچی باتیں، کہیں بلند، کہیں پستی، بڑی روانی سے وہ اپنے قارئین کی نظر کرتے جاتے۔ یہ انٹرویو خود ایک ’’ڈائجسٹ‘‘ ہوتے بہت کچھ کا نچوڑ چٹکیوں میں بیان کر دیتے اور آدمی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ وہ ’’سیب‘‘ گننے کے چکر میں ’’حساب‘‘ سیکھ گیا ہے۔

اس وقت تک صحافت میں ادیبانہ زبان کا مطلب خطیبانہ زبان میں ہوا کرتا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں تو اس کے توانا نمائندہ تھے ہی مگر ان دنوں آغا شورش کاشمیری کا طوطی بولتا تھا جو اپنی مخصوص احراری خطیبانہ زبان کے زور پر ڈنکے بجارہے تھے۔ ان کے پیچھے ایک تاریخ تھی، تاہم الطاف صاحب نے اپنے لیے ایک نئی راہ تراشی۔ انہوں نے خطابت کے بجائے غنائیت کو زیادہ مفید مطلب پایا۔ شاعری ہو یا کوئی تحریری اسلوب، یہ رنگ اپنا حسن تو رکھتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے جب آپ سیاسی، فکری اور سماجی معاملات کو غنائی انداز میں بیان کرنا چاہیں گے تو صحافت میں اس کی کیا شکل بنے گی۔فیض جیسا شاعر بھی جو اپنی رومانی انقلابیت کی وجہ سے شہرت کے بام عروج پر ہے، اپنی صحافت یا نثر میں اس اسلوب کا خطرہ مول نہ لے سکا، جو ان کی شاعری سے مخصوص تھا۔ الطاف صاحب نے یہ کام کر دکھایا اور ایک نسل کو اس طرح اپنا گرویدہ کر لیا جس طرح اس رنگ کی شاعری کر سکتی ہے۔ اس میں کمال یہ ہے کہ حقیقت کے اظہار پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ ان دو باتوں کو ملانا ہی ان کا اصل کمال ہے۔

یہاں ان کی صحافت کے آسمانوں پر پرواز کرنے کی خواہش نے اپنا رنگ دکھایا۔ انہوں نے وقت کے عظیم ترین لوگوں کے انٹرویو کرنے کی جسارت کی۔ اس وقت کسی ماہنامے کے لیے یہ بڑی بات تھی مگر ان ملاقاتی خاکوں کو اتنی پذیرائی ملی کہ وہ شخصیت جس کا انٹرویو لینے جاتے، اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتی۔ اس طرح انہوں نے وقت کے دھاروں کو مٹھیوں میں بند کر دیا اور چٹکیوں میں بڑے بڑے عقدے کشا کر دیے۔ آج انہوں نے ایک او ر کمال کیا ہے وہ یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان انٹرویوز پر جو دوری کی گرد جم گئی تھی یا ان میں بعض کے پس منظر جن سے کوئی بھی واقف نہ تھا، انہوں نے حواشی کی شکل میں ان پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ یقین جانیے یہ حواشی خود ایک خاصے کی چیز اور ایک غیر معمولی خزانہ ہیں۔ غیر معمولی واقعات غیر معمولی پس منظر، ایسے گوشے آشکار کر جاتا ہے جن میں سے بعض سے اب تک کوئی مورخ واقف ہی نہ تھا۔ مشرقی پاکستان کے واقعات پر ان کا تجزیہ یاروں نے اپنے انداز میں لیا۔ ضیاء الحق کا دور حکومت او ر بھٹو کے معاملے میں ان کے رویوں پر بعض احباب کو شکایت پیدا ہوئی۔ یہ حواشی پڑھ کر معاملات کے گوشے بھی سامنے آجائیں گے جو ابھی تک صیغہ راز میں تھے۔ مستقبل کے کسی مورخ کے لیے ان سے صرف نظر کر کے حالات کی تہ تک پہنچنا مشکل ہوگا۔

اﷲ کا ہم پر احسان یہ ہے کہ الطاف صاحب اس فکر کے وارث ہیں جس نے صدیوں اس دھرتی کی آبیاری کی ہے۔ اقبال سمیت بعض مشاہیر کے نام لے کر میں کہا کرتا ہوں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو ہم وہ نہ ہوتے جو ہم ہیں۔ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ الطاف صاحب کے یہ ملاقاتی خاکے، سیاسی تجزیے او رصحافتی کوششیں نہ ہوتیں تو کیا ہمارے اندر وہ تہذیبی روشنی آتی جو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پاکستان کی صحیح اور روشن تصویر پیش کررہی ہے۔ یہاں تہذیب، تاریخ و سیاست میں ایسے رچ بس گئی ہے کہ اسے اس سے الگ کرنا مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ان پر مقدمات قائم ہوئے تو ’’علی برادران‘‘ کے وزن پر ان کے اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے لیے ’’قریشی برادران‘‘ کی ترکیب استعمال ہوتی تھی۔ میں نے کہا کہ وہ ایک عبقری تھے اور ہیں۔ اﷲ انہیں سلامت رکھے، انکا قلم آج بھی رواں ہے اور وہ آج بھی خبروں کے سرچشموں تک خود چل کر جاتے ہیں۔ یہ بھی ان کا ’’فن کمال‘‘ ہے کہ انہوں نے ان کنوؤں کو کھودنے میں ہر قسم کی مشکل کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ صرف انٹرویوز ہی کے لیے نہیں، واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے لیے بھی وہ ایک رپورٹر کی طرح، خبر کی پیاس لیے، ان کنوؤں تک خود چل کر جاتے۔ شاید ان سے پہلے یہ کام ان کے مرتبے کے کسی شخص نے کرنے کی خواہش کی نہ کوشش کی، اس لیے ان کی لفظی خوبصورتیوں کے پیچھے حقائق کی سچائی خود بولنے لگتی ہے۔ یہ کتنی کاوشوں کی کھٹنائیوں سے گزر کر لفظوں کے زیور کا روپ دھارتی ہیں، اس کا ادراک شاید کم لوگوں کو ہوگا۔

یہاں میں ایک چھوٹی سی بات اور کہنا چاہتا ہوں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے کہیں یہ کہا تھا کہ اصل قربانیاں تین ہیں: حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت امام حسن رضی تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی۔ میں چونکا تھا کہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیوں اور حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بجائے حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کیوں ہے؟ اس کا مفہوم تو علی میاں نے خود بیان کر دیا تھا۔ مجھے الطاف صاحب کا اپنے نام میں حسن پر اصرار اس مزاج کا پتہ دیتا ہے کوئی انہیں غلط نام سے پکار دے تو وہ صحیح کراتے ہیں۔ اس کی نمایاں مثال ضیاء الحق سے ان کے تعلقات ہیں۔ شاید ہی کوئی دوسرا ہو جو بھٹواور ضیاء دونوں کی جیل میں رہا ہو۔ ضیاء الحق سے وہ کام لینا چاہا جو اس وقت ایک پورا قبیلہ بھٹو کے بعد کے دور میں ان سے لینا چاہتا تھا۔ ان کا یہ رویہ مجھے یقین ہے بلکہ میں گواہی دیتا ہوں اس لیے نہ تھا کہ اس سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ اس کی غایت اس کے سواکچھ نہ تھی کہ اقتدار کے سرچشموں پر ایک ایسا شخص آموجود ہوا ہے جو درست ہو یا غلط، مگر اس سے ملکی بہبود اور تہذیبی سنوار کا کام لیا جا سکتا ہے۔ مجھے اس دن ان کے قریشی ہونے کا ثبوت ملا تھا جب انہوں نے اپنی ہی لکھی ہوئی تقریر کو حافظے کے بل بوتے پر اس طرح زبانی ادا کیا تھا کہ لگتا تھا کوئی قومہ اور فل سٹاپ تک نہیں چھوڑا۔ آخر عربوں (خاص کر قریشیوں) کا حافظہ مشہور ہے وگرنہ ہم تک دین کا اتنابڑا ذخیرہ اس صحت کے ساتھ کیسے پہنچتا اسی طرح ضیاء الحق کے ساتھ ان کے مراسم نے مجھے ان کے ’’حسنی انقلابی‘‘ ہونے کا بھی یقین دلایا۔ قربانی کا ایثار کا یہ جذبہ ایک خصوصیت رکھتا ہے اعلیٰ مقاصد کے لیے ایسا ضبط اور ایثار تو غیر معمولی لوگوں کا کام ہے۔

ان ملاقاتی خاکوں کی اثر پذیری نے جہاں صحافت میں ایک دلکش اضافہ کیا، وہاں تاریخ کے سرکتے لمحوں کو بھی ابدیت بخشی ہے۔ میں نے کہیں کہا تھا کہ اگر ہماری ساری تاریخ معدوم ہو جائے تو آپ صرف ظفر علی خاں کی شاعری سے اسے ازسرنو مرتب کر سکتے ہیں۔ یہ خاکے دیکھ کر مجھے اندازا ہوا کہ آپ ان کے ذریعے بھی اپنی پوری تاریخ ازسر نو لکھ سکتے ہیں۔ اب ان پر حواشی نے تاریخ فہمی میں ان کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ مجھے یادہے کہ ایک مغربی صحافی نے بھٹو کا انٹرویو کیا۔ بھٹو نے اس کی تردید کی۔ اس نے بڑے اعتماد سے کہا مجھے اتنے برس ہو گئے ہیں صحافت کرتے ہوئے، آج تک میری کسی بات کو غلط نہیں کہا گیا۔ مطلب میں نے جو کچھ لکھا، وہ درست ہے، اس لیے کہ اسے میں نے لکھا ہے اور میں خود سچائی کی سند ہوں۔ الطاف صاحب سے اختلاف کرنے والے تو بہت ہوں گے۔ جس کے مخالف نہیں وہ آدمی، آدمی نہیں۔ تاہم کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن نے سیاست دکھائی اور اپنے انٹرویو کی تردید کی۔ مجیب کے ساتھ حسین شہید سہروردی کی اعلیٰ مرتبت بیٹی بیگم اختر سلیمان اس انٹرویو کی گواہ تھیں۔ انہوں نے پہلی ہی فرصت میں صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجیب تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ الطاف صاحب نے وہی لکھا جو تم نے کہا تھا۔ بلاشبہ ان کا لکھا اس بات کی ضمانت سمجھا گیا کہ اس میں کسی قسم کی بددیانتی نہ کی گئی ہو گی۔

الطاف صاحب کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ رجائیت پسند ہیں۔ وہ قوم میں مایوسی پھیلانے کے بجائے امید کی کرنیں بکھیرنا چاہتے ہیں۔ وہ تو پاکستان کے لیے ایک خوبصورت مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔ اس لیے اپنی بات کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ لوگ مایو س ہو کر بد دل نہ ہوجائیں۔یہ ان کے اسلوب کا کمال اور اس کا خاصہ ہے۔ مخالفوں نے سب سے زیادہ غلط فہمی ان کے مشرقی پاکستان پر لکھی گئی معرکتہ الآرا تحریروں کے حوالے سے پھیلائی۔ 1966ء میں سقوط ڈھاکہ سے نصف عشرہ پہلے انہوں نے مشرقی پاکستان جا کر حالات کا وہ نقشہ کھینچا جوا س وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ بہت تلخ حقیقتیں بیان کیں۔ جی ہاں وہ بھی جن کی خبر ہمیں بہت بعد میں ملی۔ ساتھ ان پہلوؤں کا ذکر بھی کیا جو حالات کا رخ بدل سکتے تھے۔ اس وقت کسی کو اس بات کی ہمت تھی نہ جرات۔ یار لوگ جرات رندانہ کو آج غلط رنگ پہنا کر خوش ہوتے ہیں: ’’دیکھا آپ محبت کا زم زم بہا رہے تھے اور یہاں ملک ٹوٹ گیا‘‘۔ تف ہے ایسے لوگوں پر!

انہوں نے حالات کو جیسا سمجھا، ویسا بیان کیا مگر تھرتھلی مچانے کے لیے نہیں، قوم کو اس سے آگاہ کرنے کے لیے۔ سستی شہرت سے ہٹ کر اپنے مقصد کے لیے کام کرتے رہے۔ یہ ایک سچے اور ’’حسنی انقلابی‘‘ ہی کا وطیرہ ہو سکتا ہے۔ آج ہم ضیاء، بھٹو، لیفٹ، رائیٹ کے بکھیڑوں میں الجھ کر تاریخ مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی ساری محبتوں اور نفرتوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی دھن میں مگن چلتے رہتے ہیں۔منزل کی جانب۔ یہ منزل شہرت نہیں بنیادی مقصد حیات ہے۔ مشن کی یہ سچائی انہیں شہرت بھی دیتی ہے مگر یہ ثانوی شے ہے۔ اصل مقصد معاشرے کو بدلنا اور اسے درست سمت پر رکھنا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ملاقاتی خاکے تاریخ سے معانقہ بھی ہیں اور ایک پوری نسل کی پس پردہ کار فرما تہذیبی جدوجہد کا مرہون منت ہے۔ یہ جس اسلوب میں لکھے گئے، وہ خود ہمارے تہذیبی، صحافتی او رادبی سفر کی داستان ہے۔ یہ قوم کیسے پروان چڑھی، اس کی زندگیوں میں کیاکیانشیب وفراز آئے، اس نے آزمائشوں اور چیلنجوں کا کیسے مقابلہ کیا، سوچنے والوں نے کیا کچھ سوچا، کرنے والوں نے کیا کچھ کیا اور لکھنے والوں نے کیسے ڈوب کر یہ سب کچھ لکھا؟ یہ سب ایک طلسم ہوش ربا ہے۔ ذرا اس میں داخل ہو کر تو دیکھیے! کیا جادو ہے اس میں! وطن عزیز کی الف لیلہ مبہوت کرتی جائیگی!
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.