شوبز کے مسائل اور امیدیں

پاکستان فلم انڈسٹری کا سنہری دور ختم ہوا تو فلم سے وابستہ لوگ بھی مالی مسائل کا شکار ہونا شروع ہوگئے شوبز سے منسلک لوگ اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے چھوٹے شہروں کا رخ کرنے لگے اور چھوٹے چھوٹے پرجیکٹ پہ کام کرکے اپنے فن کی تشنگی مٹانے اوراپنے مسائل حل کرنے میں عافیت جانی کچھ حساس فنکار سنہری دور کے بعد زوال پذیر دور کو برداشت نہ کر سکے اوراس دار فانی سے کوچ کر گئے جبکہ کچھ افراد جو فلم نگر میں اپنے اچھے مستقبل کے لئے آئے تھے وہ بھی دل برداشتہ ہوئے اور ایک اچھا مستقبل ان کے لئے ایک خواب بن کر رہ گیا پچھلے دنوں لاہور سے ایک ثقافتی وفدبورے والا ایک پرائیویٹ کمپنی کے پروجیکٹ پہ کام کرنے آیا تو انہوں ’’شاکر آرٹ اکیڈمی‘‘کا دورہ کیا اور اس اکیڈمی کے روح رواں مصنف اور ہدایت کار قاسم شاکر سے ملے اس ثقافتی وفدمیں ناصر کشمیری،باؤ تیلا ،صلاح الدین،اعجاز بیلی،طارق امان(ہم سب امید سے ہیں فیم)،اکرم چن اور باؤ شرافت شامل تھے بعد ازاں قاسم شاکر سمیت ثقافتی وفد ’’ یونی ویژن نیوز پاکستان ‘‘ کے آفس راقم الحروف سے ملنے آیا اور ثقافتی وفدنے بتایا کہ اپنے فن کی تسکین اور پاپی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے لاہور سے دور مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ پہ کام کر رہے ہیں انتہائی نامساعد حالات میں قاسم شاکر جیسے سینئر ہدایت کار اپنی نئی پنجابی ٹیلی سکوپ فلم ’’رانی ماں‘‘ میں بیشتر نئے لوگوں کوآگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں اتنے کٹھن حالات میں فلم پہ پیسہ لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے انہیں ملنے کامقصدان کا حوصلہ بڑھانا تھا ہم قاسم شاکر کے حوصلے،جذبہ اور لگن کو سلام پیش کرتے ہیں ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے فن سے وابستہ افراد جو کام نہ ملنے کے باعث گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے ہیں انہیں بھی اپنی نئی فلم میں کام کے مواقع فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ثقافتی گروپ نے حکومت پنجاب ،وزرات اطلاعات و نشریات اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بورے والہ میں ایک آرٹ کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ یہاں سے جو افراد شوبز سے منسلک ہیں انہیں بھی اپنے اچھے اور بہتر مسقبل کے لئے مواقع میسر ہوں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ اس علاقہ میں بہت ٹیلنٹ ہے ثقافتی وفد کے ہمراہ آنے والے نامور مصنف،فلمساز اور ہدایت کارقاسم شاکر نے بتایا کہ ان کی آنے والی نئی پنجابی ٹیلی فلم ’’رانی ماں ‘‘ میں نئے آاٹسٹوں کو مواقع فراہم کئے گئے ہیں ٹائٹل رول ملکہ جذبات پیانور کر رہی ہیں دیگر کاسٹ میں کائنات ،سکندر شاہ،کوئل چوہدری،آصف رانا،خرم شہزاد،سجنی،اصغرملک،جبار علی،علی چوہدری،آنچل،شفیق سونو،چائلڈ اسٹار آصف ندیم،ریاض ملک،راجہ پاکستانی اور ڈاکٹر بی اے خرم ایک کالج پرنسپل کے منفر دکردار میں نظر آئیں گے فلم میں زیادہ تر نئی کاسٹ کو شامل کیاگیا ہے کیونکہ آج کے سائنسی دور میں نوجوانوں کے پاس نئے نئے موضوعات ہوتے ہیں لہذاانہیں بھی آگے آنے کے مواقع فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے جبکہ ہمارے سینئر ہمارے لئے سرمایہ ہے ہمیں ان کی سرپرستی میں کام کرنا چاہئے اور انہیں بھی فلموں میں کام ملنا چاہئے-

بیتے سالوں کی بات ہے جب لاہور کو بمبئی اور کلکتہ کے مقابلے میں فلم نگرکا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا تھا۔حضرت داتا علی ہجویری کی نگری میں بننے والی شاہکارفلمیں برصغیر پاک و ہند میں باکس آفس پرکامیابی کے جھنڈے گاڑدیا کیا کرتی تھیں۔، تحریک آزادی کے دوران ہونیوالے فسادات میں لاہور میں موجود فلمسازی کا ڈھانچہ تباہ ہو گیا تھاقیام پاکستان کے بعد ملکی فلم انڈسٹری نے نے بہت عروج و زوال اور نشیب و فراز کا سامنا کیاقیام پاکستان کے وقت فلمی صنعت کے پاس دو لٹے پٹے،تباہ حال سٹوڈیوز اور چند سینما گھر تھے لیکن وطن کی تعمیر کے جذبے سے سرشار فنکاروں، ہدایتکاروں، فلمسازوں، موسیقاروں اور کہانی کاروں نے جو کچھ فلم کے فیتے پر منتقل کیا وہ ملک میں فلمسازی کے فروغ کا باعث بنا۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بننے والی پاکستانی فلموں نے کامیابی کے خوب جھنڈے گاڑے۔ لیکن شومئی قسمت بعد میں اس فلم نگر میں آنے والوں کی اکثریت نے عامیانہ موضوعات اور غیر معیاری فلم میکنگ کے ذریعے فلمی صنعت کا بت پاش پاش کر دیا سینما انڈسٹری نے بھی ملکی فلموں کے مقابلے میں بالی وڈ کی فلموں کو اہمیت دینا شروع کر دی۔ یوں پاکستان کی فلمی صنعت زوال پذیر ہو گئی سینما گھر گرنے شروع ہوگئے اور یوں شو بز سے وابستہ افراد بھی مسائل کی دنیا میں دھنستے چلے گئے انڈین چینل اور فلموں کی نمائش پہ پاکستان میں پابندی عائد ہونے سے زوال پذیر فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد میں امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی فلم سے وابستہ افراد میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ان کے بکھرتے ٹوٹتے خواب پھر سے حقیقت بنتے دکھائی دے رہے ہیں انہیں آنے والی خوشیاں کا احساس اور یقین ہوگیا ہے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نئے عزم اور نئی سوچ کو جدید خطوط پر بروئے کار لا کر فلم میکنگ میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے کیونکہ عروج و زوال کبھی دائمی نہیں ہوتے آج کے دور میں فلم تجارتی جنس ہی نہیں رہی یہ تفریح اور تعلیم و تربیت اور معاشرتی اصلاح اور تعمیر و ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کے مختلف ملک اس وقت فلم کے ذریعے اقتصادی اور معاشی استحکام حاصل کر رہے ہیں۔ اب یہ ثقافتی، سیاسی، تہذیبی، معاشرتی نظریات و روایات کے پرچار کا ذریعہ بھی ہے-
Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.