ثقافتی سرمایہ کاری
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
ثقافتی سرمایہ کاری تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین میں روایتی ثقافتی ورثے کے تحفظ اور اس کی عالمی تفہیم کے فروغ کے لیے جامع اور مربوط کوششیں جاری ہیں، جن کا مقصد نہ صرف قدیم فنون اور ہنر کو محفوظ رکھنا ہے بلکہ انہیں جدید تقاضوں اور عالمی مکالمے سے جوڑنا بھی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں تنظیمیں اور ادارے ایسے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں جن کے ذریعے نوجوان نسل اور بین الاقوامی مہمانوں کو چین کے غیر مادی ثقافتی ورثے سے براہِ راست روشناس کرایا جا سکے۔ اس کا مقصد محض ثقافت کی نمائش نہیں بلکہ ان قدروں کو سمجھنے کے عملی مواقع فراہم کرنا ہے جو چینی تہذیب کے تسلسل کا بنیادی ستون ہیں۔
رواں برس چین نے اپنے غیر مادی ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے ایسے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی ہے جن میں مقامی ماہرین کے ساتھ ساتھ بیرونی طلبہ اور محققین کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ان منصوبوں میں تاریخی فنون، لوک موسیقی، دستکاری کے ہنر، روایتی علم اور مختلف خطوں کی ثقافتی روایات کو جدید انداز میں محفوظ اور پیش کرنے کی کوششیں نمایاں ہیں۔ مقامی اداروں کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی اور جدت پر مبنی طریقوں کے استعمال نے ان سرگرمیوں کو زیادہ مؤثر اور قابلِ رسائی بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر چین کے ثقافتی تنوع کو زیادہ جامع انداز میں سمجھا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی سیاحت کے فروغ کے لیے چین کی حالیہ پالیسیوں نے غیر ملکی سیاحوں کے لیے ملک تک رسائی پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا دی ہے۔ ویزا فری داخلے کی سہولتوں اور سفر کے بہتر انتظامات نے متعدد ممالک کے سیاحوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ چین کا ذاتی تجربہ حاصل کریں۔ براہِ راست مشاہدے کے نتیجے میں بین الاقوامی مہمانوں کی رائے زیادہ متوازن اور حقیقت پر مبنی ہوتی جا رہی ہے، جو ملک کی ثقافتی اور سماجی جہتوں کو خالصتاً زمینی حقائق کی بنیاد پر جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
چین کی بڑھتی ہوئی عالمی ثقافتی اثر انگیزی کا اعتراف مختلف بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس میں بھی نظر آ رہا ہے۔ لندن کی مشہور کنسلٹنسی برانڈ فنانس کے جاری کردہ سروے کے مطابق چین کو دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کے اعتبار سے تیسری پوزیشن دی گئی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ عالمی سطح پر چین کے تاریخی اور تہذیبی سرمائے کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ درجہ بندی نہ صرف ثقافتی سرمایہ کاری کی کامیابی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ چین کا ورثہ عالمی سطح پر اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔
عالمی تہذیبی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے چین کی جانب سے پیش کردہ "گلوبل سیولائزیشن انیشی ایٹو " اس وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت دنیا کی مختلف تہذیبوں کے درمیان تعاون، برداشت اور باہمی احترام کو فروغ دینا مقصود ہے۔ یہ اقدام عالمی ورثے کے مشترکہ تحفظ، ثقافتی تنوع کی پاسداری اور مختلف معاشروں کے درمیان پُرامن ہم آہنگی کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اس عالمی ورثے کی حفاظت ہے جسے انسانیت نے ہزاروں برسوں میں تشکیل دیا ہے اور جسے برقرار رکھنا تمام اقوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
چین کا مؤقف ہے کہ عالمی تہذیبی ورثے کا تحفظ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پورے انسانیت کا مشترکہ مشن ہے۔ اسی لیے چین مختلف ممالک اور ثقافتی تنظیموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کو وسعت دے رہا ہے، تاکہ غیر مادی ورثے کی تعلیم، اس کا عملی تبادلہ، اور اس سے جڑے ہنر مندوں کی تربیت کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل دستاویزی طریقے، اور تحقیق پر مبنی نئے ماڈلز پر بھی کام جاری ہے، جو روایات کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
تہذیبی تبادلے کی یہ کوششیں نہ صرف چین کی داخلی ثقافتی پالیسیوں کی مضبوطی کا ثبوت ہیں بلکہ عالمی سطح پر تعاون کے اس تصور کی بھی عکاس ہیں جس کے تحت مختلف اقوام اپنی اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک مشترکہ انسانی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں۔ چین کی جانب سے کیے گئے اقدامات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ مستقبل کی دنیا میں ثقافتی تنوع کا نہ صرف احترام کیا جائے گا بلکہ اسے ایک مشترکہ اثاثہ سمجھ کر محفوظ بنانے کا رجحان مزید مضبوط ہو گا۔ |
|