اسلام اور جہاد و قتال

عصر حاضر میں دیگر ادیان کے بہ نسبت دین اسلام سب سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ پھیلنے والا مذ ہب ہے ، اس بات کی تصدیق عالمی سطح پر معتبر تحقیقاتی اداروں کی رپورٹوں سے ہوتی ہے. چین میں منظر عام پر آنے ولی ایک ایسی ہی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر نوجوان نسل مذہب اسلام سے ہی باقی مذاہب کی نسبت متاثر ہے ، رینمن یونیورسٹی آف چائنہ کی تازہ تحقیق کے مطابق 2013 سے 2015 کے دوران اکتیس علاقوں کے 4382 نو جوانوں کے انٹرویو کئے گئے، اس تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ چین کے پانچ بڑے مذاہب میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کے ماننے والوں کی تعدار سب سے زیادہ ہے (روزنامہ قدرت 28 ستمبر 2015) . " صباح نیوز " امریکی اخبار کی ایک رپورٹ میں بھی یہی انکشاف ہوا ہے ، کیتھولک رہنما مارسینیو فارمنٹی نے امریکی اخبار کو انڑیو دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دین اسلام عیسائیت پر غالب آگیا-

دین اسلام کی ترقی کا راز اس کے الٰہی ہونے میں مضمر ہے ، اسلام چونکہ کسی فرد بشر کی کاریگری و فن کاری کے سبب وجود میں نہیں آیا ، اس کا خالق وہی ہے جو ہم سب کا خالق ہے . انسان کو اگر زندگی گزارنی ہے تو ضابطئہ حیات بھی اسی کا ہوگا جس نے انسان کو خلق کیا ہے . ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعہ بات کو واضح کرتا ہوں ،کسی انسان نے گاڑی بنائی ، اب یہ کون بتائے گا کہ یہ گاڑی کیسے کام کرتی ہے ؟، اس میں کس طرح کا ایندھن استعمال ہوتا ہے،کن چیزوں سے اس کی اچھی حالت بر قرار رہے گی اور کون سی چیزیں اس کےلئے ضرر رساں ہیں، ظاہر سی بات ہے وہی بتائے گا جس نے یہ گاڑی بنائی ہے اس َلئے کہ وہی صرف اس کے اوزار ، ان کے کام کاج اور ان کے مابین تال میل سے واقف ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم کوئی مشین خریدتے ہیں تو مشین کے ساتھ ایک بک لیٹ (manual) بھی ملتی ہے جس کے اندر اس مشین کو استعمال کرنے کےلئے ھدایات درج ہوتے ہیں - یہاں پہ قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ہم کبھی ایسا کرتے ہیں کہ مشین کسی ایک کمپنی کی خریدیں اور مشین کو چلانے کا ضابطہ (manual) کسی دوسری کمپنی سے حاصل کریں ؟ عام ز ندگی میں تو ہم ایسی غلطی کبھی نہیں کرتے ہیں –چنانچہ انسان کوبھی اگر مشین کے ساتھ تشبیہ دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انسانی وجود دنیا کی سب سے پیچیدہ ترین مشین ہے یہ مشین اتنی پیچیدہ ہے کہ کبھی کبھار جب اس میں کوئی پیچیدگی یا خرابی پیش آتی ہے تو جدید طبی سہولیات سے مانوس ڈاکٹر کے لئے خرابی اور پیچیدگی کی وجہ دریافت کر پانا نہایت ہی مشکل ہو جاتا ہے ۔بعض مرتبہ تو علمِ طب دری کی دری رہ جاتی ہے۔اور مرض کو لا علاج قرار دے کر ڈاکٹر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ "اس مریض کو لے جاو اور اس کی خدمت کرو اس کا علاج ہمارے بس میں نہیں ہے". یہ ہے انسان کا مادی جسم ، جب مادی جسم اتنا پیچیدہ ہے ,روح تو ایک غیر مرئی شی ہے اس کو سمجھنا کتنا مشکل ہوگا.؟ ہاں یہ مشکل آسان ہو سکتی ہے اگر ہم اس سلسلے میں اُسی سے رابطہ کریں جس نے اس کی تخلیق کی ہے - سہولت کے لئے اس خالق کل نے پہلے ہی سے اس کا بھی انتظام کرکے رکھا ہے . اس نے انسان بنایا تو اس کے ساتھ ایک بک لیٹ یا ضابطہ حیات بھی رکھ دیا تاکہ انسان ہدایت پر مبنی زندگی گزارے ، اسی ضابطہ کا نام ہے "قرآن "، یہی ضابطہ حیات "دین اسلام" کہلاتا ہے -
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطے اور قوانین دیر پا ثابت نہیں ہوتے ہیں برعکس اسکے اسلام زوال پزیر نہیں ہے کیونکہ یہ ایک لافانی ذات کا بنایا ہوا ضابطہ حیات ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہنے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام روز بہ روز اپنی ضیا پاشیوں سے بشریت کو منور کر رہا ہے لہٰذا جو بھی شخص اسلام کے آب حیات سے ھمیشہ کےلئے سیراب ہونا چاہتا ہے اس کو سب سے پہلے اپنے ظرفِ دل و ذہن کو پاک کرنا ہوگا - بہت سےلوگ ایسے ہیں جنھوں نے اپنے ظرف کو پاک نہیں کیا اسی لئے اسلام سے ان کو فایدہ نہ ملا بلکہ ان کی گمراہی بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگئی,اور اس قرآنی ۤآیت کے مصداق بن گئے" یزل به كثيرا و يهدي به كثيرا۔ " نجس ظرف میں اگر صاف وشفاف سیال شئے انڈیل دی جائے۔ تو وہ بھی نجس ہو جائے گی , یہ اس صاف اور سیال شے کا قصور نہیں ہے بلکہ ظرف کا قصور ہے -

اس گمراہی کے بعد ان کا واپس راہ راست پر آنا بہت مشکل ہوجاتا ہے . وہ لوگ صرف خود ہی گمراہ نہیں ہوتے بلکہ وہ اسلام کے نام پر پھر پوری بشریت کا جینا حرام کر دیتے ہیں ، اس کی مثال ھمیں آئے دن رونما ہونے والے دلسوز واقعات کی شکل میں ملتی ہے سانحہ پاچا خان یونیورسٹی چار سدہ اور یمن و فرانس کے دلگداز واقعات اسی گمراہی کا نتیجہ ہے ، رمز مسلمانی سے نا آشنا مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ ننھی ننھی معصوم کلیوں کو بہار کی ہوا لگنے سے قبل ہی چمن سمیت تباہ و برباد کر دیتے ہیں ، شیرخوار بچوں کے خون ناحق سے اپنے خبیث وجود کی جڑوں کو سیراب کرتے ہیں ، یہ انسان خور درندے اپنی بھوک مٹانے کےلئے کوئی بھی اقدام کرنے سے دریغ نہں کرتے ہیں. ان حادثات کے شکار کتنے ہی والدین ایسے ہیں جن کے سامنے اپنے لخت ھای جگر کی لاشیں پارہ پارہ ہو کر بکھری پڑیں ہیں، ستم بالاے ستم یہ کہ بہت سے لوگ اس درندہ گروہ اور ان کے اعمال کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں -

یہ لوگ اس جنگ و جدال اور خونریزی کو جھاد کا نام دیتے ہیں ، جبکہ تصور جھادئ اسلامی اور تصور جھادئ البغدادی میں زمین و آسمان کا فرق ہے - اوپر ہم عرض کر چکے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطئہ حیات ہے ، رسول اسلام ص ہمارے لئے اسوہ قرار پائے ہیں ، حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا قول و فعل ہمارے لئے حجت ہے ، اگر نظام اسلامی کے تحت زندگی گزارنی ہے تو ھمیں رسول اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو اپنے اعمال کا معیار بنا کر جینا ہوگا- جب ہم جہاد اسلامی اور جہاد البغدادی کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ خبیث گروہ اسلام کےلئے کتنا بڑا خطرہ ہے . حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں وہ فقط دفاع اسلام کےلئے ہوئیں ، تلوار اگراٹھی تو دفاع اسلام کےلئے ، اسلام کو پھیلانے کےلئے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسلحہ کو ہی واحد ذریعہ قرار نہیں دیا ، بلکہ آپ ص کی تیغ کردار کی چکاچوندی سے باطل کی آنکھیں خود بہ خود خیرہ ہوگئیں.. حضور کے جنگوں کی کیفیت یہ تھی کہ جنگ میں فریقین کی طرف سے فرداًفرداً جنگ ہوتی تھی اور اسی فرد کے ساتھ جنگ ہوتی تھی جو اسلحہ سے لیس ہوتا تھا نہتے کے ساتھ جنگ نہیں ہوتی تھی. جنگ کا آغاز بھی لشکر اسلامی کی طرف سے نہیں ہوتا تھا بلکہ جب دشمن جنگ کیلئے آمادہ ہوتا تھا تب جنگ ہوتی تھی ، جنگ کے بعد ہاتھ آئے قیدیوں کے ساتھ حضور ص کا برتاو نہایت ہی کریمانہ ہوا کرتا تھا علامہ اقبال نے لشکر اسلام کے ہاتھوں اسیر ہونے والی ایک عورت کی روداد کچھ اس طرح پیش کی ہے :
درمصافی پیش آن گردون سریر
دختر سردار طی آمد اسیر

پائ در زنجیر و ھم بی پردہ بود
گردن از شرم و حیا خم کردہ بود

دخترک را چون نبی بی پردہ دید
چادر خود پیش روئ او کشید (1)

یہ عورت حاطم طے کے قبیلہ سے تھی. بے پردہ اور زنجیر میں جھکڑی ہوئی شرم کے مارے سر جھکائے ہوئے تھی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جونہی اس کو دیکھا تو اپنی چادر مبارک اتار کر اس کو اوڑھا دی ، یہ ہیں بانی اسلام کے اوصاف و اخلاق ، اس کے برعکس اس دور کے نام نہادجھادی کس قدر مبتذل طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، آتشین اسلحے سے بستی کی بستیاں تباہ کر دیتے ہیں ،ان کم سن بچوں کی ننھی ننھی لاشیں ان ہی کی ماووں کو سونپ دیتے ہیں کہ جو یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ( بِاَیِّ ذَنب قُتِلَت) کس خطا میں مار دیے گئے – غیر عسکری بستیوں پر حملہ آور ہونے کے بعد مردوں کو ہلاک کرکے عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور انہیں بطور کنیز فروخت کرتے ہیں۔اب تو جہاد النکاح نیا تصور بھی گڑھا گیا جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد اپنی جنسی خرمستیوں کا سامان بہم کرتے ہیں اس زعم میں کہ جنسی تسکین بھی ہو اور جہاد کا ثواب بھی ملے۔ یعنی ہم خرما ہم ثواب۔چند روز قبل بی بی سی پر ایک لڑکی کا انٹرویو نشر کیا گیا تھا جو تین مہینے ان دہشتگردوں کے قبضے میں رہی تھی۔جس نے رونگٹھے کھڑی کرنے والی روداد سنائی۔

باعثِ افسوس ہے کہ بعض سادہ لوح افراد اس درندہ صفت گروہ کے ظاہری حلیہ کو دیکھ کر انھیں لشکر اسلامی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ معمولی غور و فکر کر کے بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا اصلی روپ کیا ہے .جھاد اور ناحق قتل و غارت گری دو الگ الگ چیزیں ہیں ، قتال صرف قتل کرنا یا قتل ہونے کے مفہوم میں آتا ہے جبکہ جھاد ایک جامع اور معنی خیز لفظ ہے اس کے لغوی معنی جدو جہد کے ہیں . قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے اسلامی احکامات میں بھی لفظ جھاد ہی شامل ہے اگر اسلام میں جھاد کا مطلب صرف جدال و خونریزی ہوتا تو جھاد کے مقابل میں قتال ہی بہتر و مناسب لفظ تھا ،لفظ جھاد پھر استعمال نہیں کیا جاتا ، لفظ جھاد کا استعمال ہونا ہی بتا تا ہے کہ اسلام جنگ و جدال کو پسند نہیں کرتا ہے . اب جو لوگ جھاد کے نام پر جنگ و جدال ، لوٹ مار اور غارتگری کر رہے ہیں ، بے گناہ لوگوں کو انتھائی اذیت ناک اور ناقابل برداشت طریقوں سے مار دیتے ہیں اسے صاف ظاہر ہے کہ ان وحشیوں کا اسلام سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہو سکتا . صدر اسلام میں جو لوگ قیدی بنا کے لائے جاتے تھے حضور ص ان سے بھی شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے ان کو زنجیروں سے چھڑوا دیا کرتے تھے صحابہ کرام عرض کرتے تھے کہ یا نبی اللہ(ص) یہ تو ہمارے دشمن ہیں حضور ص فرماتے تھے کہ دشمن ہے تو کیا ہوا یہ بھی تو انسان ہی ہیں ان کے بھی بال بچے ہیں . اصلاً حضور ان کو قید میں بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے ان قیدیوں سے کہتے تھے کہ اگر کچھ علم و ہنر جانتے ہو تو دس مسلمانوں کو وہ چیز سکھا دو اور آزاد ہو جاو ، اللہ اکبر ہماری جانیں قربان ایسے رفیق و شفیق نبی ص پر . حضور آئے ہی اسی لئے تھے تاکہ انسانیت کو قید و بند سے رہائی بخشے اور روح انسانی کی تطہیر کرے . حضور یہ درس د ے کے گئے اور لوگوں نے اس کے برعکس چلنا شروع کیا . آج جو کچھ اسلام اور جہاد کے نام پر ہو رہا ہے اسے اسلام ناب محمدی سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ اس کے پیچھے شیطان بزرگ امریکہ و اسرائیل کی سازشیں ہیں جو اسلام کو نیست و نابود کرنے کے سلسلے میں تمام حربے اپنا کر ناکام ہوا ہے لیکن اب ایسا حربہ بروے کار لایا ہے تاکہ مسلمانوں کو خبر تک نہ ہونے پائے . یہ طاغوت اب اسلامی لباس زیب تن کرکے ملت اسلامیہ میں نمودار ہو کر اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہے ،ملت کے درمیان اختلافات کی آگ کو ہوا دے رہا ہے اور مسلمان بھی بڑی آسانی کے ساتھ اس کے دام میں پھنس کر اپنے مخالف فرقہ کی جانی دشمنی پر اتر آتا ہے . مصیبت یہی ہے کہ ہم فقط نام سے مسلمان ہیںورنہ ہماری عمل تو کسی اور ہی چیز کی حکایت بیان کر رہی ہے - جو طرز زندگی ہم نے بحیثیت مسلمان اپنایا ہے آیا وہ طرز زندگی ہمارے پیارے آقا ص کی طرز زندگی سے میل کھاتی ہے .... ؟
حوالہ جات :
1. اسراد خودی فارسی کلام از علامہ اقبال

Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 17368 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More