ہمارے گناہ اور نماز استسقاء!

گزشتہ دن اسلام آباد میں صدارتی محل میں نماز استسقاء پڑھی گئی یہ فرض اور واجب نمازکے بعد واحد نماز ہیں جو با جماعت ادا کی جاتی ہے نماز استسقاء اس لئے پڑھی جاتی ہے کہ جب کسی ملک یا علاقے میں بارش نا ہو اور خوشک سالی اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لیلے تو نماز استسقاء پڑھکر اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی جاتی ہے بارش کیلئے۔ تاکہ بارش برسے اور پانی ملیں ، پانی اﷲ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے ۔ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اورزراعت کیلئے پانی کی دستیابی بہت ہی اہم ہے ۔مگر آہستہ آہستہ مختلف اسباب کی وجہ سے پانی کم سے کم تر ہورہاہے ۔ان اسباب میں سب سے اہم عالمی موسمی تبدیلیاں ہیں ۔جس کبھی سلاب آتے ہیں کبھی خوشک سالی،پاکستان کے ترقی کیلئے پانی کا تحفظ بہت ضروری ہیں ۔پانی کو ذخیرہ کرکے رساؤ کو کنٹرول کرکے اس کا استعمال میں بہت ہی ذیادہ احتیاط کرکے ملک اور اپنی آئندہ نسل کو ترقی کی راہ میں تحفظ فراہم کرستے ہے ،مگر یہ قحط سالی اور عالمی موسمی تبدیلی جیسے حالات کیوں پیداہوتے ہیں اس کے وجوہات کو ٹٹولنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے،یقینا اﷲ رب العالمین باران رحمت کو انسانی برائیوں کی کثرت کے سبب آسمان میں روک دیتا ہے اور انسان آسمان سے عدم رحمت کے نزول کی بنیاد پر عائرات کی طرح دربدر بھٹکتا رہتا ہے اور اس کی ساری تدبیریں الٹی پڑجاتی ہیں۔کیونکہ اﷲ رب العالمین نے کہا کہ توبہ استغفار کرو اﷲ تم پر آسمان کو برستا ہوا چھوڑ دے گا۔اگر توبہ اور استغفار کرنے والوں کے گراف کو دیکھا جائے تو صفر نظر آئے گا کیونکہ انسان برائیوں کا مجسمہ بن چکا ہے اور اس کے دل پر اﷲ نے اس کے برے کرتوت کی وجہ سے مہر ثبت کردیا ہے جس کی وجہ سے اس کو نیکی اور بدی کے درمیان تمیز کرنے کی ساری صلاحیتیں مفقود ہوچکی ہیں۔سورہ بقرہ میں ا ﷲ نے فرمایا ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دیا ہے جس کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں سکتے۔فی الحال جو صورت حال ہے وہ نہایت تشویشناک ہے ہری بھری کھیتاں آفتاب کی تمازت کا شکار ہوچکی ہیں اور زمین پھٹ رہے ہیں کسان اپنے طور پر ہرممکن کوشش کررہا ہے لاکھوں کروڑوں کے ڈیزل جلائے جارہے ہیں مگر سود مند ثابت نہیں ہورہا ہے کیونکہ لہلہاتی کھیتیوں کو باران رحمت کا انتظار ہے اور جب تک باران رحمت کا نزول اس کے گوفوں میں نہیں ہوتا وہ ہرے بھرے نہیں ہوسکتے،ہم مشینوں کے ذریعہ جڑوں کو پانی پہنچا سکتے ہیں مگر ان فصلوں کو جس جگہ پانی پہنچنا مقصود ہے وہاں نہیں پہنچا پارہے ہیں۔اﷲ رب العالمین نے فرمایا کہ اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو باران رحمت کو آسمان میں روک دیا جاتا،آج کا انسان رحمت کے نزول پر خوشی کا اظہار کرتا ہے کہ اس کے نیک کارناموں کے سبب آسمان سے رحمت نازل ہوا جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔انسانوں کے گناہ اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ایک انسان بنفسہ برائیوں کا مجسمہ ہوتے ہوئے بھی دوسرے کو برا ئی کا مجسمہ تصور کرتا ہے،گناہوں کے ہوجانے پر کسی قسم کا کوئی ملال نہیں،اور نہ ہی توبہ استغفار ہے،جبکہ اﷲ رب العالمین نے کہا کہ ’’تم اپنے رب سے توبہ استغفار کرو وہ آسمان کو تمہارے اوپر برستا ہوا چھوڑ دے گا‘‘مگر ہم سرکش انسان توبہ اور استغفار نہیں کرتے،فرمودات الہیہ کے منکر ہیں،احکام باری تعالیٰ سے یکسر روگردانی کرنے والے باغی ہیں،شریعت کا تمسخر اُڑانے والے ہلاک کی گئی قوموں کے شانہ بہ شانہ چلنے والے ہیں،نبیوں او ررسولوں کے بتائے ہوئے طریقہ کو چھوڑ کر مغربیت کے دلدادہ ہیں،مخرب اخلاق جیسے جرائم کے ارتکاب پر شادیانے بجانے والے مردہ قوم ہیں۔

بارش کا نزول کیوں نہیں ہوتا اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ، یہ بھی درست ہے کہ نماز استسقاء اﷲ رب العزت کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہیں مگر انسان بھی سچے دل سے پڑھے تو،لیکن احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جس علاقے اور خطے میں زناکاری بڑھ جاتی ہے،اور اس فعل قبیح کو محض ایک عمل ہی تصور کیا جاتاہے،اور اس پر مداومت برتی جاتی ہے،بلکہ اس کو پروان چڑھانے کے لئے جدت پیدا کی جاتی ہے،نسل انسانی کی نسل کشی کی جاتی ہے،قوم کی بہو بیٹیوں کو نفسانی خواہشات کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اس عمل کے انجام دہی کے لئے بڑے بڑے لاج کھولے جاتے ہوں،چند سکوں کے عوض عزت بیچی جاتی ہو،حد تو یہ ہے کہ اب سڑکوں پر یہ بازاری عورتیں اپنا ڈیرہ جمائے کھڑی گراہک کو رجھانے کے لئے بن سنور اور زیب وتن کرکے کم لباس میں کھڑی نظر آتی ہیں تو ایسی صورت حال میں قحط نہیں؟تو باران رحمت کا نزول ہوگا؟جب قوم کے سربراہان کے اندر کی ضمیر موت کے بھینٹ چڑھ جائے اور اصلاحی پہلوؤں کا گلہ گھوٹ دیا گیا ہوتو قتل وغارت گری،کذب ورفض،عیاری ومکاری،دغابازی،قماربازی،زناکاری کے اڈے،ہیر پھیر،لین دین میں کمی وزیادتی، سود خوری ،ایک دوسرے پر الزام تراشی،تہمت تراشی،غیبت اور نہ جانے کتنی مہلک چیزیں ہو تو نماز استسقاء بھی کام نہیں آئیگی اور اﷲ رب العالمین کا عذاب اس قوم کا مقدر بن جاتا ہیں ،فی الحال جو ماحول بنا ہوا ہے وہ کافی تشویشناک ہے کیونکہ کسان دن بھر اپنی طاقت کا بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس پر اچھی خاصی خطیر رقم بھی خرچ کرتے ہیں مگر یہ ساری تدبیریں اور محنتیں بے کار ہوتی نظر آرہی ہیں،بہتر ہے کہ انسان اپنے رب کے حضور اپنے کئے کا معافی مانگے،توبہ استغفار کرے،نماز استسقاء پڑے،اور یہ عزم کرے کہ معاشرہ کو پاک اور شریعت کے اصول پر بقیہ ماندہ زندگی گزارے گا تو بہت ممکن ہے کہ باران رحمت نازل ہو چرند وپرند کے ساتھ ہم بھی فیضیاب ہوجائیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ سورۃ زمر کی آیت کے مصداق بن جائیں جس طرح کفار ومشرکین کہا کرتے ہیں ’’ جب انسان پر مصیبت آدھمکتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں ، گڑ گڑا تھے ہے اور منت وزاری کرتے ہے،گناہوں پر ندامت کا اظہارکرکے توبہ کا خواستگارہوتے ہے،مگر جب اس سے وہ مصیبت دور ہوجاتی ہے تو وہ کہتا پھرتا ہے کہ ہم پر کبھی کو ئی مصیبت آئی ہی نہیں اور یہ ساری پراپرٹیاں ہمارے آباء واجداد کی بنائی ہوئی ہیں ،نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیتا ہے جو اس نے مصیبت کے وقت پڑھنا شروع کیا تھا ‘‘ اگر ہم اس ہی طرح رہے تو یقینا اﷲ اپنے رسی کو ڈھیل دے دے گا ،لیکن اُس کے بعد ہم دنیا میں رسوائی و پشیمانی کا سامنا تو کریں گے ہی بلکہ عذاب الہی کا شکار بھی ہونگے،لیکن یاد رہے کہ جس نے اﷲ رب العزت کی نافرمانی کی اس کی دنیا بھی خراب اور اخیرت بھی۔ہمارے سامنے تاریخ موجود ہے کہ جس نے بھی قانون الہی سے بغاوت کیا اس کا انجام بہت خطرناک ہوا۔ہم اﷲ کے عذاب کو دعوت نہ دیں ورنہ اس کی پکڑ بہت خطر ناک ہے اور ہم اس کی پکڑسے بھاگ بھی نہیں سکتے۔آئیں ہم سب مل کر اﷲ کی حضور توبہ کریں اور پورے ملک میں جہاں بھی نماز استسقاء پڑھی جائیں اس میں بھر پور شرکت کریں ۔اﷲ ہم سب کو توبہ استغفار کرنے کی توفیق دے اﷲ ہمارے ملک پر بلکہ تمام عالم پر باران رحمت کو نازل فرما ئے (آمین)
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.