پچیسویں تراویح

آج کی تروایح میں انتیسویں پارہ تبارک الذی کی تلاوت کی گئی ہے- سب سے پہلے سورہ الملک کی ابتدا ہی اللہ کی عظمت کے اظہار سے کی گئی ہے، بڑی عظیم اور برکت والی ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں اس کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،جس نے پیدا کیا موت کو اور زندگی کو تاکہ امتحان لے کہ تم میں سے کون سب سے اچھے اعمال والا بنتا ہے-نافرمانوں کو للکارا ہے کیا تم بے خوف ہوگئے ہو کہ اب تمہیں زمین میں دھنسانے اور آسمان سے پتھراؤ کرنے والا عذاب نہیں آسکتا؟ بتاؤ تمہارے پاس وہ کون سا لشکر ہے جو خدائے رحمان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکے؟ بتاؤ وہ کون ہے جو تمہیں روزی دے سکے اگر وہ اپنی روزی روک لے؟ ان سے پوچھو کہ اگر تمہارا یہ پانی نیچے اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے یہ صاف و شفاف پانی نکال کر لائے؟ کہہ دو وہ رحمان ہے ہم اس ہر ایمان لائے ہیں اور اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے۔ عنقریب تم جان لو گے کہ کھلی گمراہی میں کون ہے؟

سورہ القلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت، آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کے اعلیٰ کردار موزانہ قریش کے فاسق لیڈروں کے کردار سے کر کے یہ دکھایا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب موافق و مخالف دونوں پر واضح ہوجائے گا کہ کن کی باگ ڈور فتنہ میں پڑے ہوئے لیڈروں کے ہاتھوں میں ہے جو ان کو تباہی کے راستے پر لئے جارہے ہیں اور کون لوگ ہیں جو ہدایت کے راستے پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے بنیں گے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعلیٰ کردار پر ہیں اور قریش کا کردار بتایا گیا کہ جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل ،اشارہ باز لترے نیکیوں سے روکنے والے، حد سے تجاوز کرنے والے، لوگوں کا حق مارنے والے،سنگ دل اور شیخی باز اور یہ سب اس لئے کہ اللہ نے انہیں مال اور اولاد عطا کردی ہے- اس موقع پر ایک باغ والوں کی مثال دے کر سمجھایا کہ اس دھوکے میں نہ رہو کہ اب تمہارے عیش میں کوئی خلل ڈالنے والا نہیں جس خدا نے تمہیں یہ سب کچھ بخشا ہے اس کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کو بھی چھین لے- آخرت کے انجام کی طرف سے توجہ دلاتے ہوئے سوال کیا کہ آخر انہوں نے خدا کو اتنا بے انصاف کیسے سمجھ رکھا ہے کہ وہ نیکوں اور بدوں میں کوئی فرق نہیں کرے گا، ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آج جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ان کا غم کا نہ کیجئے صبر کے ساتھ اپنے رب کا فیصلے کا انتظار کیجئے اور اس طرح کی جلدی دکھانے سے گریز کریں جس میں حضرت یونس علیہ السلام مبتلا ہوگئے اور انہیں آزمائش سے گزرنا پڑا تھا-

سور الحاقہ میں رسولوں کی دعوت جھٹلانے والوں کا انجام بتاتے ہوئے قیامت کی ہولناک تصویر کھینچی گئی ہے اور فرمایا یاد رکھو! جب صور میں ایک ہی پھونک ماری جائے گی اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی بار میں پاش پاش کردیا جائے تو اس دن تمہاری پیشی ہوگی اور تمہاری کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہے گی۔ پس پیشی کے دن جسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوگا اور جسے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا کہ وہ حسرت سے موت مانگ رہا ہوگا آواز آئے گی اس کو پکڑو اس کی گردن میں طوق ڈالو، اس کو جہنم میں جھونک دو اور ایک زنجیر میں جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے جکڑ دو یہ وہ ہے جس کو خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ابھارتا تھا۔

سورہ المعارج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صبر کی تلقین کی گئی ہے کہ یہ بہت تنگ نظر تھڑدلے لوگ ہیں اس وقت خدا نے ان کو ڈھیل دی ہے تو ان کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے- ذرا پکڑ میں آجائیں تو ساری شیخی بھول جائیں گے اور تمنا کریں گے َ َ کاش اس دن عذاب کے چھوٹنے کے لئے اپنے بیٹوں اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے کنبہ کو جس کا پشتی بان رہا ہے اور تمام اہل زمین کو بدلہ میں دے کر اپنی جان چھڑا لے-

سورہ نوح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلی سورہ میں تلقین کئے صبر کے نمونے کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا کہ انہوں نے کتنے طویل عرصے یعنی ساڑھے نو سو برس صبر کے ساتھ اپنی قوم کو دعوت دی اور اتنے طویل صبر اور انتظار کے بعد ان کی قوم کو عذاب میں مبتلا کیا گیا- اس طرح داعیان حق کو بتایا گیا کہ اپنی آخری منزل کے لئے صبر اور انتظار کے کتنے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی کہ اللہ تعالیٰ جلد بازوں کو کی جلد بازی اور طعن و تشنیع کے باجود ان کو اگر چہ ایک طویل مدت تک ڈھیل دیتا ہے مگر بالآخر ایک روز پکڑ لیتا ہے اور جب وہ پکڑتا ہے تو کوئی ان کو چھڑانے والا نہیں ہوتا-

ایک اہم بات حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت میں یہ بیان ہوئی کہ حقیقی معنوں میں خدا کی ہدایت کی پابندی دنیا میں بھی خوشحالی اور برکتوں کا ذریعہ ہے لیکن ان کی قوم کی بڑی تعداد نے ان کی نافرمانی کی،مذاق اڑایا اور ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کی گمراہی میں اضافہ کیا پس ایک دن وہ اپنے گناہوں کی سزا میں پانی کے طوفان میں غرق کردئے گئے اور اسی راستے سے آگ میں داخل کردئے گئے- اس وقت کوئی ان کے کام نہ آیا جنہیں وہ خدا کے سوا پکارا کرتے تھے۔

سورہ جن میں قریش کو غیرت دلائی گئی ہے کہ جنات قوم جو قرآن کے براہ راست مخاطب نہیں ہیں وہ جب راستہ چلتے اس کو سن لیتے ہیں تو تڑپ اٹھتے ہیں اور اپنی قوم کے اندر اسے پھیلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک تم ہو کہ خاص تمہارے لیے اسے اتارا جارہا ہے اور اس کی برکتوں سے نوازنے کے لئے خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم دن رات ایک کئے دے رہا ہے مگر تمہاری بد بختی کہ اس کی طرف دھیان دینا تو درکنار تم الٹے اس کے دشمن بن گئے ہو۔

سورہ المزمل اور المدثر دونوں سورتوں کی ابتدا اے چادر میں لپٹنے والے اور چادر لپیٹ رکھنےوالے سے کی گئی ہے اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انبیاء کرام علہیم السلام مخلوق خدا کے لئے بے انتہا رحیم و شفیق اور اپنے رب کی ڈالی ہوئی ذمہ داریوں کے معاملہ میں بہت حساس واقع ہوتے ہیں وہ اپنی جان توڑ کوششوں کے باجود جب دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی ان سے دشمنی بڑھتی جارہی ہے تو انہیں خیال ہوتا ہے کہ کہیں انہی کے کام میں تو کوتاہی نہیں ہے اور یہ فکر ان کو غم زدہ کردیتی ہے اور وہ چادر میں سمٹ کر اپنے ماحول سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اندر ہی اندر کوتاہیوں کی تلاش شروع کردیتے ہیں- سورہ المزمل میں چادر اوڑھنے والے کے پیارے الفاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ان کو اس حالت سے نکلنے کا راستہ بتایا گیا ہے کہ رات کے وقت اللہ کے حضور قیام کا اہتمام کرو، اس میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھو اس سے دل کو ٹھہراؤ ملے گا اور دماغ کو بصیرت حاصل ہوگی اور آگے کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت پیدا ہوگی۔

المدثر میں بھی اسی لقب سے پکار کر ہدایت کی کہ بس اب چادر اتار پھینکو اور لوگوں کو ڈرانے اور خبردار کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجاؤ، اٹھ کھڑے ہو اپنے رب کی بڑائی بیان کرو- اپنے دامن کو ہر قسم کے غبار سے پاک رکھو اور اپنی جدو جہد جاری رکھو- مخالفتوں کے باجود حق پر ڈٹے رہو اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کا نتیجہ ضرور ظاہر فرمائے گا۔

سورہ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے ثبوت میں انسانی ضمیر نفس لوامہ کو پیش کیا ہے اور واضح کیا کہ انسان خود ایک چھوٹے پیمانے پر کائنات کی حیثیت رکھتا ہے پس اس چھوٹی دنیا میں اپنے کئے پر ملامت کرنے والی حس کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات میں بھی نفس لوامہ ہے اور وہی قیامت ہے جو تمام لوگوں کی پوری زندگی کے اعمال کا محاسبہ کرے گی-

سورہ الدھر میں قیامت کی یہ دلیل دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سننے اور دیکھنے اور ان کے ذریعہ نیک و بد میں تمیز کرنے کی جو صلاحیت رکھی ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ایسا دن آئے گا جس میں لوگوں کو ان کے کئے کا بدلہ مل سکے گا ورنہ پھر نیکی بدی کا کھڑاگ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا-دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین اللہ اس قرآن کی برکت سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات بہت بنائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520100 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More