دنیا کفر کے اندھیرے میں ڈوبی
ہوئی ہے، صرف اسلام ہی انسانیت کو کفر کے اندھیروں سے نکال سکتا ہے محترمہ
ام فاکہہ زنجانی، جدہ
سروج شالنی کی پیدائش24 ستمبر1978ء کو لکھنو کے موہن لال گنج میں ایک برہمن
خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد ڈاکٹر کے اے شرما پروفیسر تھے۔ شالنی کے دو
بھائی ہیں، جن میں سے ایک بنارس یونیورسٹی سے منسلک ہیں، جب کہ دوسرے پی
ایچ ایل میں انجینئر ہیں۔ سروج شالنی نے لکھنو میڈیکل سے ایم بی بی ایس اور
مولانا آزاد میڈیکل کالج دہلی سے ایم ڈی کیا۔ وہAIMS میں ڈپارٹمنٹ آف
کارڈیالوجی میں ملازمت بھی کرتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ ڈی ایم بھی کر رہی ہیں۔
جون2003ء میں آئی سی سی یو بچوں کے وارڈ میں ان کی ڈیوٹی تھی۔ وہاں پر ایک
مریض کے پاس ایک تیماردار کو رہنے کی اجازت تھی۔ سروج شالنی نے ایک روز
دیکھا کہ ایک مولوی صاحب ہریانہ کے ایک بچے کو دیکھنے آئے ہیں۔ مولوی صاحب
نے بچے پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔ برابر والے مریض بچے کی ماں نے بھی اپنے بچے
پر پھونکنے کے لیے کہا۔ مولوی صاحب تمام بچوں کے پاس آکر کھڑے ہوئے اور ان
کی صحت کے لیے دعا کی۔ سروج شالنی نے جب انہیں ایسا کرتے دیکھا تو ان سے
کہا کہ آپ کون ہیں اور سب بچوں کے پاس جا جا کر کیا کررہے ہیں؟ آپ کا مریض
بچہ کون سا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا سبھی مریض بچے میرے خونی رشتہ دار ہیں،
کیوں کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور جس مالک کا کلام میں پڑھ
رہا ہوں اسے ”تیرا میرا“ پسند نہیں۔ کئی بار آپ لوگ اچھی دوا مریض کو دیتے
ہیں، لیکن مرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا جاتا ہے، بسا اوقات مریض جان بحق بھی
ہو جاتا ہے، جب کہ بعض اوقات علاج غلط ہونے کے باوجود مریض کو شفا ملتی ہے۔
کیا کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس طرح کی باتیں شالنی نے پہلی بار سنی تھی۔ ان کا دل چاہا کہ مولوی صاحب
سے مزید باتیں کروں۔ انہوں نے مولوی صاحب سے اپنے دفتر میں چلنے کو کہا اور
وہاں ان سے ایمان دھرم کی باتیں ہوئیں۔ کچھ وقت بات چیت کے بعد چلنے سے
پہلے مولوی صاحب نے شالنی سے کہا کہ تم میری چھوٹی بہن، بلکہ اولاد کی طرح
ہو، میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے وارڈ میں آنے والے ہر مریض کو اپنا
بچہ اور بھائی سمجھیں اور ان کا علاج نیکی سمجھ کر کریں، مریضوں کا توجہ سے
علاج کریں۔ آپ کو وہ قلبی سکون واطمینان سینکڑوں سال کی کٹھن پوجا سے بھی
نہیں ملے گا جو پریشان حال مریض اور اس کے مصیبت زدہ والدین ومتعلقین کو
تسلی دینے سے حاصل ہوگا۔
شالنی نے اس بہترین مشورہ پر مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ
وہ اس بات پر ضرور توجہ دیں گی۔ جس بچے کو مولوی صاحب دیکھنے آئے تھے اس کے
باپ سے شالنی نے ان کے بارے میں معلومات کیں تو پتہ چلا کہ وہ ایک بہت اچھے
اور نیک انسان ہیں، ان کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ کئی
دنوں تک شالنی مولوی صاحب کے ساتھ ہوئی باتوں پر سوچتی رہی، لیکن وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ ان کی باتیں ذہن سے نکل گئیں۔
شالنی کی ایک دوست رینا سہگل تھی۔ وہ صفدر جنگ ہسپتال میں گائنی ڈپارٹمنٹ
میں ڈاکٹر تھی۔ ایک دن شالنی، رینا کے گھر کھانے پر گئی۔ اس کے یہاں مسلمان
کام کرنے والی آتی تھی۔ شالنی نے رینا سے کہا کہ تم نے اپنے پاس مسلمان کام
والی کیوں رکھی ہے؟ اس پر رینا نے کہا کہ یہ بہت ہی ایمان دار لڑکی ہے۔ اس
کے رہتے آج تک گھر کی کوئی چیز چوری نہیں ہوئی بلکہ کئی بار میرا پرس گر
گیا، اس نے جوں کا توں مجھے لاکر دیا۔ باتوں باتوں میں مسلمانوں کے بارے
میں بھی باتیں ہونے لگیں۔ ڈاکٹر رینا نے کہا کہ جیسے جیسے دنیا بھر میں
میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف باتیں منظر عام پر آرہی ہیں، اتنے ہی
زیادہ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اس نے اپنی بات کے تسلسل میں کہا کہ
ہمارے ہسپتال میں کارڈیالوجی میں ایک نوجوان ڈاکٹر بلبیر ہیں، جنہوں نے ایک
سال قبل اسلام قبول کیا اور اب ان کا حال یہ ہے کہ وہ یہاں وقت نکال کر ہم
سے اسلام کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں اور اسلام قبول کرنے کی ترغیب دیتے
ہیں۔
یہ سب سن کر شالنی کو اپنے وارڈ میں آنے والے مولوی صاحب یاد آگئے۔ اس نے
ڈاکٹر رینا سے کہا کہ وہ ڈاکٹر بلبیر سے ملنا چاہتی ہے۔ شالنی کی خواہش پر
ڈاکٹر بلبیر سے ملاقات کا دن مقرر ہوا اور یوں انہوں نے ڈاکٹر سے وقت مقررہ
پر ملاقات کی۔ ڈاکٹر بلبیر نے بتایا کہ میں نے آٹھ نو سال قبل اسلام قبول
کیا۔ جب شالنی نے پوچھا کہ اسلام قبول کرنے کی وجہ کیا تھی؟ تو انہوں نے
جواب میں کہا کہ اسلام ہی ایک سچا دین ہے، اسلام قبول کیے بغیر انسان کو
مرنے کے بعد نجات نہیں، اسے ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا۔ اسلام قبول کرنا آپ
کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا میرے لیے۔ انہوں نے بتایا کہ اب ان کا
نام بلبیر نہیں بلکہ ولی الله ہے۔ شالنی نے انہیں مولوی صاحب سے ہسپتال کے
وارڈ اور ان کے دفتر میں ہوئی باتیں بتائیں تو انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب
نے بالکل صحیح کہا ہے کہ سبھی انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، نہ کوئی
چھوٹا ہے، نہ بڑا۔ میں تمہیں اسلام کے آخری پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے
آخری خطبہ کی کاپی دوں گا، اس میں یہ سب لکھا ہوا ہے۔
دو چار دن کے بعد ڈاکٹر ولی الله نے ڈاکٹر رینا کے ہاتھوں حضور اکرم صلی
الله علیہ وسلم کے خطبے کا انگریزی ترجمہ شالنی کو بھجوا دیا۔ ڈاکٹر شالنی
خطبہ پڑھ کر حیران رہ گئیں۔ خاص طور پر عورتوں اور غلاموں کے حقوق کو پڑھ
کر انہیں ایسا لگا جیسے یہ باتیں ان کے دل میں اترتی جارہی ہیں۔ انہیں
محسوس ہوا کہ انہیں اسلام کے بارے میں اور پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے ڈاکٹر ولی
الله سے اسلام کے بارے میں مزید کتابیں طلب کیں تو انہوں نے مولوی کلیم
صدیقی کی لکھی کتاب ” آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں“ شالنی کو پڑھنے کے لیے
دی کہ یہ ایک کتاب سو کتابوں کے برابر ہے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ جب یہ
کتاب پڑھو تو یہ سوچ کر پڑھنا کہ تمہارا سچا ہمدرد تم سے بات کررہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کتاب کے مصنف کے ہاتھ پر ہی میں نے اسلام قبول کیا
تھا۔ شالنی نے فارغ وقت میں پوری کتاب ایک نشست میں ہی پڑھ ڈالی۔ کتاب میں
لکھی اسلامی باتیں ان کے دل میں جگہ بنا چکی تھی۔ شالنی نے ڈاکٹر ولی الله
کو فون کیا اور کہا کہ میں اس کتاب کے مصنف سے ملاقات کرنا چاہتی ہوں۔
چار روز بعد ڈاکٹر ولی الله کا فون آیا کہ محمد کلیم صدیقی آج لکھنو میں
گرین پارک والی مسجد میں آنے والے ہیں، ان سے ملاقات کرنی ہے تو وہاں پہنچ
جاؤ۔ جب شالنی کی ملاقات محمد کلیم صدیقی سے ہوئی تو انہیں دیکھ کر وہ
حیران رہ گئی اور اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی کیوں کہ وہ وہی مولوی صاحب
تھے جو اسے وارڈ میں ملے تھے۔ شالنی نے بغیر کسی تمہید کے صدیقی صاحب سے
کہا کہ میں نے ڈاکٹر ولی الله صاحب کی فراہم کردہ اسلامی کتابوں کا انگریزی
ترجمہ پڑھا ہے جس سے میرا دل اسلام کی طرف مائل ہوا ہے۔ میری خواہش ہے کہ
میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں۔ انہوں نے شالنی کو کلمہ پڑھایا اور ان
کا نام صفیہ رکھا۔ بعد ازاں کلیم صدیقی صاحب نے شالنی کو نماز کی کتابوں کے
علاوہ بہت سی دوسری اسلامی کتابیں بھی پڑھنے کو دیں۔ جب ڈاکٹر شالنی نے
اپنے والد کو بتایا کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہیں تو وہ بہت ناراض ہوئے، مگر
رفتہ رفتہ ان کی ناگواری کم ہوتی گئی۔ ڈاکٹر شالنی کو ہندوستان میں رہتے
ہوئے اسلامی احکامات پر مکمل طور پر عمل کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی،
لہٰذا کوشش کر کے انہوں نے سعودی عرب میں ملازمت اختیار کر لی، کچھ عرصہ
بعد ایک مسلمان ڈاکٹر سے شادی کر لی، ماشاء الله اب وہ بہت خوش گوار زندگی
بسر کر رہی ہیں۔
شالنی کہتی ہیں کہ بلاشبہ میرے الله کا مجھ پر بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے
مجھے اسلام قبول کرنے کی سعادت بخشی، اس نعمت پر میں اس کا جتنا بھی شکر
ادا کروں کم ہے۔ آج پوری انسانیت کو اسلام کی ضررت ہے، کیوں کہ دنیا اس وقت
کفر کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ صرف اسلام ہی انسانیت کو کفر کے اندھیروں
سے نکال سکتا ہے۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ اشاعت اسلام پر توجہ دیں اور
کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو جائیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی حالت پر
زندہ رکھے اور خاتمہ بالخیر فرمائے، آمین۔
شائع ہواالفاروق, شعبان المعظم 1431ھ, Volume 26, No. 8 |