حصارِ ذات کو توڑ کر باہر نکل
(Rahat Ali Siddiqui, Muzaffarnagar)
|
وہم انتہائی مہلک اور تباہ کن مرض ہے ،دنیا
بھر کے ماہر اطباء متفق ہیں کہ یہ مرض لا علاج ہی نہیں ،بلکہ ایسی پہیلی ہے
جس کا علاج ناممکن ہے،کوئی ایسا نسخہ تجویز نہیں ہوا، جو وہم کو فنا کے
گھاٹ اتار دے ،کوئی ایسا آلہ وجودمیں نہیں آیاجو وہم کوظاہرکرسکے ، خون کے
قطروں کو باریکی سے دیکھا جا چکا ان پر غور و فکر کیا جاچکا ،انسانی اعضاء
مشینوں کے زریعہ پورے طورپر ظاہر ہوچکے ،ہر بیماری کو چشم زدن میں پکڑ لیا
جاتا ہے ،مگر وہم اب بھی اس پکڑ سے باہر ہے، ایجادات و انکشافات سے لیس
اکیسوی صدی بھی اس کارنامہ سے خالی ہے،اور آج بھی یہی مثل زبان زد خاص و
عام ہے، “وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا،،اور آج تک یہ
گتھی سلجھ نہیں پائی ،دنیا کس قدر آگے بڑھ چکی یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہے ،مگر آج تک کسی طبیب نے وہم کے علاج کا دعوی نہیں کیا،اس مرض کی
شدت کا عالم یہ ہے کہ جس کو یہ مرض لاحق ہوجائے ،اس کا چین و سکون غارت
ہوجاتا ہے ،زندگی اسکے لئے موت سے بھی بدتر ہوجاتی ہے ، سانسیں تھم کر اور
روح نکل کر ہی اسکو سکون کے لمحات میسر آتے ہیں،افراد ہی کے مثل اقوام کا
حال ہے ،جو قوم وہم کا شکار ہوء عالمی منظرنامہ پر بے حیثیت اور بے وقعت
ہوجاتی ہے،اپنی طاقت کو کمزوری خیال کرنے لگتی ہے،لوگ اسے روندتے ہیں کچلتے
ہیں،ٹھوکرے مارتے ہیں،مگر اٹھنے کا خیال اس کے ذہن میں نہیں آتا،بڑے بڑے
اسکالرس اور محققین کی توجہ اس مرض کی طرف مبذول نہیں ہوتی ،اور وہ کوئی
ظاہری بیماری تلاش کرنے لگتے ہیں،اور اسی پر انحصار کربیٹھتے ہیں،مختلف
اقسام کی بیماریاں اس قوم یا فرد سے متعلق کردی جاتی ہیں،جو وہم کاشکار ہو
آج یہی حال امت مسلمہ کا ہے ،چند مفاد پرستوں ،موقع پرستوں ،جذبات فروشوں
نے اپناالوسیدھا کرنے کے لئے قوم کو اس مہلک مرض کا شکار بنادیا ،اب ملت کا
ہر فرد اس وہم میں صبح و شام بسر کرتا ہے،کہ قوم مسلم عالمی منظرنامے پر
انتہائی کمزور ،بے عزت، لاچار اور مفلس ہے ،اس کا نصیب یاس و ناامیدی اور
درد و غم کے سوا کچھ بھی نہیں،امت مسلمہ کی حرماں نصیبی ہے کہ یہ خیال اتنا
پختہ ہوگیا ،کہ حقائق نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ،،اگر کوئی چیز دکھائی دیتی ہے
،تو کمزوری ،لاچاری اور بے بسی ،باطل طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئیں
اورہم ذہنی طوربیمارہوگئے ،جبکہ حقائق کچھ اور ہی ہیں،جن کو اگر ایک مرتبہ
سرسری نگاہ سے دیکھ لیا جائے اور ذہن میں پیدا شدہ وہم کا احساس کرلیا جائے
،تو افراد میں حرارت اور قوم میں نئی روح بیدار ہو جائے،اور مسائل وسائل
میں تبدیل ہوجائیں ،اس کرہ ارض پر 192 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں ،ان
میں سے 58 اسلامی ممالک ہیں ،دنیا کا دو کروڑ مربع میل حصہ مسلمانوں کے زیر
نگیں ہے ،اس حصہ پر انکا پرچم لہراتا ہے ،تعداد کے اعتبار سے بھی مسلمان
دنیا میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں ،2010 کی تحقیقات کے مطابق مسلمان
دنیا میں 23 فی صد ہیں ،یہ تعداد کم نہیں ہے ،اتنے افراد ہونے کے باوجود
اگر ملت ذلت محسوس کررہی ہے ،تو اسے وہم کے علاوہ کس چیز سے تعبیر کیا جائے
،اور معیشت پر گفتگو کی جائے تو دنیا کا سب سے قیمتی جوہر جس سے زندگی گردش
کرتی ہے ،ضروریات زندگی کی تکمیل ہوتی ہے،اگر یہ قیمتی جوہر نا ہو تو
انسانیت تعطل کاشکار ہوجائے ،کاروان حیات روک جائے ،سفر کا تصور بھی روح کو
خوف زدہ کردے ،تباہی و بربادی غربت و افلاس کے ہولناک مناظر کرہ ارضی پر
نمودار ہوں،وہ عظیم اور قیمتی شئے پیٹرول کی شکل میں 84 فی صد اسلامی ممالک
دنیا کو فراہم کرتے ہیں، تو کائنات میں حرکت اور گردش نظر آتی ہے ،اور اسی
طرح کھجور جیسا قیمتی اور انسانی صحت کے لئے ضروری میوہ بھی 95 فی صد
اسلامی مملکت میں پیدا ہوتا ہے،اور توانائی ،طاقت و تندرستی برقرار رکھتا
ہے ،اور بہت سے غلہ ہیں جو اسلامی ممالک میں پیدا ہوتے ہیں،اس کے باوجود
رونا دھونا اور بے بسی و بے کسی اور ذلت کا احساس کیوں ؟سیاسی افراد نے
جذبات کو چھلنے کا یہ سب سے عمدہ حربہ نکالا ہے ،جس قوم کے پاس اتنا عظیم
سرمایہ ہے اور اتنی طاقت و قوت ہے وہ دوسروں کے رحم و کرم پر منحصر کیوں وہ
کمزور کیسے ہوسکتی ہے؟ہاں حالات و مشکلات ہیں مسائل ہیں ،شام ،فلسطین مشکل
دور سے گذر رہے ہیں ،ان سے انکار ممکن نہیں ہے ،مگر یہ تو گردش زمانہ اور
وقت کی رفتار ہے ،مشکلات و مصائب کس قوم پر نہیں آئے ،دنیا کا کون سا قبیلہ
ایسا ہے ،جس کو مد مقابل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، جانیں نہیں گنوانی پڑیں
،مگر کیا وہ ہمیشہ لاغری کی چادر تان کر پڑے رہے ،اور غربت کا رونا روتے
رہے ،آج سب سے ترقی یافتہ قوم یہودیوں کو سمجھا جاتا ہے ، جب کہ تاریخ کے
صفحات گواہ ہیں اور لوگوں کے کانوں میں یہ روایت پہنچ رہی ہے،کہ ایڈولف
ہٹلر نے 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا ،انکی نسلوں کو تباہ کردیا ،اگر وہ بے
بسی کا رونا روتے ،اور وہم کی اس دلدل میں گرجاتے ،جس میں مسلمان دھنس رہے
ہیں تو آج کہاں ہوتے ، جب کہ آج بھی وہ دنیا میں بہت قلیل مقدار میں ہیں ،ان
کا کوئی ملک نہیں ہے ،ایک خطہ پر قبضہ کرکے دنیا کو ملک تسلیم کرنے پر
مجبور کرچکے ہیں ،اور منصوبہ بند طریقہ سے دنیا میں اپنا وجود ثابت کر رہے
ہیں ،اور یہ واضح کررہے ہیں کہ حالات کا مقابلہ آنسوؤں سے نہیں تدبیر اور
حکمت سے کیا جا سکتا ہے ،اسی طرح ایک اور مثال جاپان کی شکل میں ہمارے
سامنے ہے،دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو خوبصورت شہروں کو تہس
نہس کردیا ،لاشوں کو دفن کرنے والا آنسو بہانے والا ،ماتم کرنے والا کوئی
بھی نہیں تھا ،اندازے اور اندیشے یہ ظاہر کررہے تھے ، کہ صدیوں تک جاپان
اپنی حیثیت اپنا کھویا مقام حاصل نہیں کرپائیگا ،اور نقصان کی تلافی کرنے
میں اسے عرصہ درکار ہوگا،مگر دنیا نے کھلی آنکھوں دیکھ لیا، قلیل مدت میں
جاپان نے تمام خیالات کو غلط ثابت کردیااور پھر سے دنیا میں اپنی حیثیت کو
بلند تر کرنے میں کامیاب رہا،یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں ،کہ مسلم قوم اگر
حکمت و تدبیر کے ذریعہ مسائل کو حل کرے اور کمزوری کے خیال خام کو ذہن سے
جدا کردے،تو وہ دن دور نہیں کہ مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کر لینگے اور
پھر سے وہ سنہری تاریخ نگاہوں کا استقبال کریگی ،اسی طرح شام و فلسطین کا
مسئلہ بھی حل ہو جائیگا ، ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح طریقہ اور تدبیر کے
مطابق کام کیا جائے ،ذہنوں سے فرسودگی کو دور کیا جائے ،علماء و محققین
کمزوری کا ماتم نہ کریں ،بلکہ مداوائے غم تلاش کریں اور امت کو حقائق سے
آشنا کرائیں ،کائنات میں اسلام اور مسلمانوں کے وقار سے روشناس کرائیں ،اور
پوری امت کے لئے لائحہ عمل تیار کریں ،تاکہ لوگ خود ساختہ خول سے باہر
نکلیں حقیقت کو جانیں اور امت کا ہر فرد صحیح طرز عمل پر کھڑا ہو ،اور
اسلامی افکار سے پوری دنیا فیضیاب ہو ،اگر مسلمانوں میں حوصلہ پیدا کردیا
گیا ،تو وہ دن دور نہیں کہ وہ کائنات کے ہر گوشہ میں تعارف اسلام کی خدمت
انجام دیں گے خوف وہراس کی زنجیریں ٹوٹ جائینگی ،اور پھر ایک دن یقینی طور
پر مسلمان دنیا کی سب سے بڑی قوم ہوگی۔ |
|