دنیا داری کا دریا
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
محترم قارئین، سن 1990 کی دھائی میں، میں
زاتی طور پر ایک ٹین ایج تھا. اس وقت کے جوانوں میں اپنے بڑوں کی عزت کا
معیار بہت بلند تھا. دین سے محبت بہت زیادہ تھی. باطل بہت زیادہ نہیں تھا.
اور ایک خاص بات جو اس وقت مجھے یاد ہے وہ دین داری کا دریا تھا جو تمام
مسلمان ممالک میں بالعموم اور پاکستان بھر میں بالخصوص اپنی آب و تاب کے
ساتھ بہتا تھا -
اس وقت بھی دنیا داری تھی مگر بہت کم. اگر کوئی شخص یا اشخاص صریح دنیا
داری کی بات کرتے تو وہ ایسے گمان ہوتا کہ دنیاداری کا ایک خس و خاشاک ہے
جن دین داری کی دریا پر تہر جاتا اور پیچھے پھر بھی تقوی و بصیرت و اتباع
دین کا دریا باقی رہتا.
آج یعنی 2000 کے بعد اور خاص کر 2016 یا 2017 میں میرا تجزیہ یہ کہ دنیا
داری کا ایک دریا روا دواں ہے جو اپنی آب و تاب کے ساتھ مال و آسائیشات کی
کشش اور اھواء پرستی کی دعوۃ عام کیے ہوۓ ہے اور عزت دیکھنے میں صرف کثرت
مال اور کثرت تعیشات ہی کی معلوم ہوتی ہے. اس دنیا پرستی کے دریا پر دین
جیسی نعمت خس و خاشاک کی مانند ہے ، استغفر اللہ. تو گویا جب قرآن و سنۃ
اور صحیح عقیدہ، منہج سلف، شرک سے دوری اختیار کرنے، اور دیگر نیک اعمال کی
بات ایک شخص یا اشخاص یا ایک علاقہ میں کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے جی ہاں
ایسا ہونا چاہیے.
مگر یہ اس دریا پر بہ جاتا ہے اور پیچھے صرف دنیاداری کا دریا ہی رواں رہتا
ہے.
میری دانست میں یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہم پر آج نیک باتوں کا اثر
نہیں ہوتا. اور اثر صرف دنیا کی اس جھوٹی عزت کی اشیاء کا ہی ہوتا ہے. اللہ
ہم پر رہم فرماۓ اور ہمارے دلوں کو دین اور قرآن والسنۃ کی طرف موڑ دے،
آمین |
|