کچھ لاؤ

اللہ پاک نے انسانی جسم میں پیٹ بھی ایک کمال چیز لگائی ہے جہاں انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت رکھی ہے ، کیونکہ زندہ رہنے کیلئے اس پیٹ میں کچھ نہ کچھ ہضم ہونے والا اناج ڈالنا پڑتا ہے ۔ ریاست کو اپنی عوام کے پیٹ کو حلال اور احسن طریقے سے بھرنے کیلئے مثبت اور حقیقی عملی اقدامات کرنے چاہیے ۔ اسلامی تاریخ ایسی بے مثال اور درخشاں مثالوں سے بھری ہوئی ہے جب خلیفہ وقت نے اپنا آرام وسکون برباد کر کے اپنی عوام کا خیال رکھا ۔ جب خلیفہ وقت رات کو اُٹھ اُ ٹھ کر دیکھتا رہا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی بھُوکا تو نہیں اور جب بھی کسی گھر سے کسی بچے کے بھوکا رونے کی آواز آئی تو خلیفہ وقت نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا ۔خود ہی اناج کی بوری اپنی پیٹھ پر لاد کر اس گھر میں پہنچائی کہ بچے بھوکے نہ رہیں اور باقاعدہ وظیفہ مقرر کیا تا کہ آئندہ کوئی بھوکا نہ رہے ، کمال تھے ایسے عظیم لوگ ، سلام ہے ان لوگوں پر ، ہر ریاست ایسے حکمران چاہتی ہے ، لیکن اکثر ترقی پذیر ممالک میں وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو چکے ہیں ، معاشی ، سماجی ، سیاسی اور معاشرتی ترقی کے ثمرات تمام حلقوںتک برابر نہ پہنچے ہیں جس کی وجہ سے ان معاشروں میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے جب تک تمام حلقوں کو قومی ترقی میں برابر شراکت داری نہ دی جائے معاشرے اس رفتار سے ترقی نہیں کرتے جس رفتار سے معاشرے کو ترقی کرنی چاہیے ۔

اکثر ریاستوں میں چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن چائلڈ لیبر کیسے ختم ہو ، یہ ایک ایسا Issue ہے جسے ساری دنیا کو ملکر ختم کرنا ہے تا کہ امن وسکون اور خوشحالی ہر گھر اور دہلیز تک پہنچ سکے ۔

دنیا میں کوئی بھی والدین کبھی بھی اپنے بچوں کو اپنے جگر گوشوں کو جان بوجھ کر چائلڈ لیبر کی بھٹی میں کیونکر جھونکیں گے ، یہ گھریلو مجبوریاں اور مصائب ہیں جو ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں اوزار اور صفائی کرنے والے کپڑے پکڑاوا تیں ہیں ۔ اگر ریاست اور معاشرہ حقیقی معنوں میں چائلڈ لیبر کو ختم کروانا چاہتا ہے تو انہیں ایسے حقیقی اقدامات کرنے ہونگے جس سے ہر گھر میں بچوں سے ” کچھ لاؤ “ والی پالیسی ختم کروانا ہو گی کیونکہ اکثر گھرانوں میں دال دلیا تبھی چلتا ہے جب ان کے یہ ” چھوٹے شہزادے “ کچھ لیکر آتے ہیں ، روٹی تبھی ملتی ہے جب رات کو یہ ”شہزادے “ کچھ نہ کچھ گھر میں لیکر آتے ہیں ، پورا دن جھڑکیاں سننے اور اپنی عمر سے زیادہ کام کرنے کے بعد جب یہ اپنے خاندان کے کفیل کچھ لیکر گھر جاتے ہیں تب اس پیٹ کی جہنم بجھتی ہے ۔ریاستوں کو غربت ختم کرنے اور تمام حلقوں کو قومی ترقی میں لانے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات اپنانے جاہیے ۔
(1 ) چھوٹی صنعتوں کا قیام : حکومت کو چھوٹی صنعتوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے قائم کرنا چاہیے ، یہ چھوٹی چھوٹی صنعتیں 3 یا 4 گا ¶ں کو ملا کر بنائی جانی چاہیے تا کہ روز گار وافر مقدار میں میسر آ سکے ۔
(2 ) قرضہ حسنہ : حکومت کو نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضہ حسنہ دینا چاہیے تا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان روز گار حاصل کر سکیں ۔
(3) چھوٹے ایجو کیشن سنٹرز کا قیام : حکومت کو چھوٹے ایجو کیشن سنٹرز قائم کرنے چاہیے جہاں پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنی روزی روٹی کما سکیں ۔ حکومت کو حقیقی معنوں میں اور عملی طور پر گورنمنٹ ٹیچرز کو ٹیوشن پڑھانے سے روکنا ہو گا ، تا کہ آمدنی صرف چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو ۔کیونکہ اکثر سکولوں اور کالجز کے ٹیچرز اپنے سٹوڈنٹس کو اپنے پاس ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں ، حکومت کو ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈمیوں کو ریگولرائز کرنا ہو گا ۔
(4 ) خواتین کی شمولیت : حکومت کو قومی ترقی کے دھارے میں خواتین کو بھی شامل کرنا ہو گا ، خواتین کو سلائی ، کڑھائی اور کشیدہ کاری کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب کرنا ہو گا ۔ خواتین کے کام سے مڈل مین کا کردار ختم کرنا ہو گا تا کہ خواتین کو انکے کام کا حقیقی معاوضہ دیا جائے ۔
(5 ) نوجوانوں کو تربیت اور آلات کی فراہمی : حکومت کو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی تربیت اور آلات کی فراہمی کرنا ہو گی تا کہ بیروز گاری کا خاتمہ ہو سکے ۔
(6 ) مدارس کی مدد لیں : حکومت کو مدارس اور اُن کے بچوں کو بھی قومی ترقی کے دھارے میں لانا ہو گا ، تمام مدارس اور مساجد کی رجسٹریشن کرنا انتہائی ضروری ہے ، مدارس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھایا جانا چاہیے تا کہ مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ کو روز گار کا مسئلہ نہ ہو ۔
(7 ) ویزہ پالیسی کو نرم کرنا : ترقی یافتہ ممالک کا فرض ہے کہ وہ اپنی ویزہ پالیسی کو نرم کریں تا کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ ان ممالک میں جا کر کام کر سکیں ۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اشتراک کر کے ویزہ پالیسی کو نرم کروائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان ممالک میں جا کر روز گار حاصل کر سکیں ۔
(8 ) 16 سال تک عمر کے تمام بچوں کو سکالرشپ دینا : حکومت اور تمام اہل ثروت افراد کو اپنی آمدنی میں تمام چھوٹے بچوں کا حق رکھنا ہو گا اور احسن طریقے سے یہ حق ان بچوں تک پہنچنا چاہیے ۔ریاست کو اپنے تمام بچوں کو اپنی پیاری گود میں لینا ہو گا ، حکومت کو چاہیے کہ 16 سال تک عمر کے تمام بچوں کو سکالر شپ دینا چاہیے اور 16 سال تک تعلیم فری اور حقیقی معنوں میں اپنے تمام بچوں کو دینی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو ۔
 
Zaheer Hussain Shah
About the Author: Zaheer Hussain Shah Read More Articles by Zaheer Hussain Shah: 6 Articles with 4533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.