مقام اقبال رح۔
(Talib Hussain Bhatti, Vehari)
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
انگریز کہتے ہیں کہ ہم انگلینڈ تو دے سکتے ہیں لیکن (Shakespare)نہیں دیں
گے۔ حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح نے الٰہ آباد کے جلسہ عام میں برصغیر
ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن بنانے کا تصور پیش کیا۔ اور کہا کہ
ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکژیت ہے ، ان علاقوں کو آزاد کر
کے مسلمانوں کو دے دیا جائے تاکہ وہ وہاں اپنے مذہب اور اپنی ثقافت کے
مطابق اپنا وطن اور اپنے قرآن و سنت کے مطابق اپنا نظام حکومت چلا سکیں
کیونکہ متحدہ ہندوستان میں وہ( مسلمان) ہندو اکثریت کے ماتحت ہو کر رہ
جائیں گے۔اور ان (علامہ اقبال )کے تصور کو مسلم لیگ نے عملی جامہ پہنا کر
پاکستان حاصل کیا۔ اور یہاں مسلمانوں نے اپنی حکومت بنائی۔اس عظیم انسان نے
اپنے کلام اور اپنے تصور ( تصور پاکستان) کے ذریعے ہمیں دنیا میں باعزت
رہنے اور اپنے مذہب( اسلام) اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا سبق
دیا۔ اس طرح مصور پاکستان (علامہ اقبال) نے ہمیں آزادی کی راہ پر ڈالا او
ر ایک الگ وطن حاصل کرنے کا راستہ دکھایا۔لیکن افسوس صد افسوس کہ آج مسلم
لیگ( ن) کی حکومت نے اس عظیم انسان کا رتبہ گھٹانے کی کوشش کی ہے۔کیونکہ
آج ہم ملکی اور قومی سطح پر علامہ اقبال کی ولادت کے دن کی چھٹی نہیں
کرتے، اقبال ڈے نہیں مناتے، ان کے عظیم کارناموں کو اجاگر نہیں کرتے اور
اپنے بچوں( نئی پود) کو علامہ صاحب کی شخصیت سے روشناس نہیں کرواتے۔بھلے ہم
اقبال ڈے کی چھٹی نہ کریں، پر ہمیں چاہیے کہ اقبال کا دن تو منائیں، اور
تاریخ اور اردو ادب کی کتابوں میں علامہ اقبال کے تصور کو تو زندہ رکھیں
تاکہ ہماری آنے والی نسلیں علامہ صاحب کے کارناموں سے روشناس ہو سکیں۔
کیونکہ جو قومیں اپنے مشاہیر کو بھلا دیتی ہیں، وہ دنیا میں کبھی اپنا مقام
نہیں بنا سکتیں۔
دیکھو، پاکستان کے حکمران اگر امریکہ یا کسی دوسری طاقت کے کہنے پر حضرت
علامہ اقبال کو بھلانے اور نظرانداز کرنے کے کسی گھٹیا اور مذموم پروگرام
پر عمل کر رہے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔عام آدمی حضرت علامہ ڈاکٹر
محمد اقبال کو بالکل نہیں بھلا سکتے۔بالکل اسی طرح جیسے وہ قائد اعظم محمد
علی جناح کو نہیں بھلا سکتے۔ کیونکہ جس طرح عام پاکستانی اپنے مذہب کو نہیں
چھوڑ سکتے اسی طرح وہ اپنے قومی شاعر ، مصور پاکستان علامہ اقبال کو بھی
نہیں چھوڑ سکتے، نہیں بھلا سکتے۔چاہیے تو یہ کہ کرنسی نوٹوں پر بھی قائد
اعظم کی تصویر کے ساتھ علامہ اقبال کی بھی تصویر ہو جیسا کہ برطانیہ کے
پاونڈز کے نوٹوں پر دو دو، تین تین بادشاہوں کی تصویریں چھپی ہوتی ہیں۔ اور
امریکہ کے ڈالرز کے نوٹوں پر بھی ایک سے زائد حکمرانوں کے فوٹو لگے ہوتے
ہیں۔اس لیے ہم بھی پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر حضرت قائد اعظم کی تصویر کے
ساتھ حضرت علامہ اقبال کی تصویر بھی چھپوائیں اور کرنسی نوٹوں پر حضرت قائد
اعظم کی شان میں علامہ اقبال کا کوئی اچھا سا شعرلکھیں، مثلا:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
اسی طرح حضرت قائد اعظم کا مقولہ” ایمان، اتحاد ،تعاون، تنظیم” بھی چھاپنا
چاہیے۔ اور علامہ اقبال کا شعربھی چھاپنا چاہیے، مثلا:
سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی
امامت کا
یا
کی محمدص سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اسی طرح ہمارے پاسپورٹ پر بھی حضرت قائد اعظم اور حضرت علامہ اقبال کی
تصویریں بھی ہونی چاہییں۔
اور علامہ اقبال کے مندرجہ بالا اشعار اور حضرت قائد اعظم کا قول ” ایمان،
اتحاد ،تعاون، تنظیم”بھی ہونا چاہیے۔جیسا کہ امریکہ کے پاسپورٹ پر بانیان
امریکہ (founding fathers of america) کےمشہور مقولے اور حکمرانوں کے فوٹو
وغیرہ چھپے ہوتے ہیں،تاکہ عوام کے دل میں وطن اور قائدین کی محبت بیدار ہو
اور باہمی اتحاد قائم ہو۔لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم عام اور
غیر شرعی کاموں میں تو مغرب، برطانیہ، یورپ، اور امریکہ کی پیروی کرتے ہیں
لیکن ان کے اچھے کاموں کی پیروی نہیں کرتے۔بلکہ چاہیے تو یہ کہ ہم آ ئین
ہی ایسا بنائیں کہ صادق امین لوگوں کے سوا کوئی سیاستدان ہماری سینیٹ،
صوبائی اور مرکزی اسمبلی میں جا ہی نہ سکیں اور ہمارا وزیراعظم بھی اسی طرح
پس پس کر وزیراعظم ہاؤس تک پہنچے جس طرح امریکہ کا صدر وائٹ ہاؤس تک پہنچتا
ہے۔ اور قانون بھی سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ امیر آدمی
اور حکمران توبچ جائیں مگر غریب اور عام آدمی پکڑے جائیں۔حیف ہے ہمارے
حکمرانوں اور سیاستدانوں پر۔
لہٰذا اچھے پاکستانیو، آؤ، ہم علامہ اقبال کی پیدائش کے دن چھٹی کیا کریں۔
اگر حکومت چھٹی نہ کرے تو ہم خود چھٹی کر لیا کریں۔اور حضرت علامہ اقبال کا
دن منائیں۔ اور ان کے پیغام کو عام کریں اور ان کے کارناموں کو اجاگر کریں۔
اور اپنے کرنسی نوٹوں اور پاسپورٹ پر حضرت قائد اعظم اور حضرت علامہ اقبال
کی تصویریں چھپوائیں اور حضرت قائد اعظم کا مقولہ” ایمان، اتحاد، تعاون،
تنظیم” اور” رزق حلال عین عبادت ہے” چھپوائیں۔ اور علامہ اقبال کے تین
اشعار ضرور چھپوائیں۔مثلا:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی
امامت کا
کی محمدص سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس طرح قائد اعظم اور علامہ اقبال صاحبان کو ان کا جائز رتبہ اور جائز مقام
دیں۔ اور تاریخ اور اردو ادب کی درسی کتابوں میں بھی حضرت قائد اعظم اور
حضرت علامہ اقبال کی شخصیت ، کلام اور مقام اجاگر کریں تاکہ ہمارے بچے اور
آنے والی نسلیں اپنے مشاہیر سے آگاہ ہو سکیں، ان سے محبت کریں،اپنے اندر
اتحاد پیدا کریں،ملک او ر قوم سے محبت کریں۔تاکہ ہم بطور مسلمان اور بطور
پاکستانی دنیا میں باوقار قوم کے طور پر باعزت زندگی گزار سکیں۔
یاد رکھو، اگر ہم علامہ اقبال کو محض شاعر مشرق کہہ کر نظر انداز کر دیں گے
تو ہم بہت بے وقوف ہوں گے اور بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
کہ میری دانش ہے افرنگی، میرا ایمان ہے زناری
آخر میں، میں سپریم کورٹ کے وکیلوں کی توجہ اس طرف دلاتا ہوں کہ اگر حکومت
میرے مندرجہ بالا مشوروں کو نظر انداز کرے تو سپریم کورٹ کے وکیل اس مسئلے
کو سپریم کورٹ میں اٹھائیں اور سپریم کورٹ کے حکم سے مندرجہ بالا کام
کروائیں۔ اللہ تعالی اجر دے گا۔وما علینا الا بلاغ۔ |
|