لڑکی پسند آئی آپ کو کیسی تھی آپی؟؟
جیسے ہی صفیہ بیگم رشتے والی خالہ اور ماہم گھر پہنچے- عدینہ اس کی چھوٹی
بہن پہلے سے ہی منتظر تھی-
کہا پسند آئی خالہ( رشتے والی خالہ ) کے منہ سے لڑکی کی تعریفیں سن سن کر
میرے تو کان پک گئے تھے میں تو اشتیاق کے مارے دوڑی دوڑی دیکھنے گئی کہ
جانے خالہ نے کیا گوہر ڈھونڈ نکالا ہے-
ماہم کے طنزیہ انداز پر خالہ نے اس کو حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا - حیرت
تو عدینہ کو بھی ہوئی تھی کیونکہ لڑکی کی تصویر اس نے دیکھی تھی لڑکی تو
تصویر میں بہت پیاری سی تھی۔
کیوں بیٹا حدیقہ پسند نہیں آئی کیا- پیاری لڑکی ہے پڑھی لکھی بھی ہے غضوان
کے ساتھ خوب جچے گی-
صفیہ بیگم نے رسانیت سے کہا-
لڑکی میں تو کوئی برائی نہیں ہے امی لیکن بیک گراؤنڈ دیکھا ہے آپ نے اس کا
- مجھے تو آج پتا چلا کہ حدیقہ کے فادر ایک معمولی سا درزی ہے اور بھائی کی
کپڑوں کی دکان---- کتنی شرم کی بات ہے ہم تو شرم کے مارے کسی سے اس کا
تعارف ہی نہیں کرواسکیں گے---
ہاں وقعی ماہم ٹھیک کہہ رہی ہے ایسا تو میں نے سوچا نہ تھا - لوگ تو اپنے
معمولی حیثیت کے بیٹوں کے لیے اونچی سے اونچا ہاتھ مارنے کے چکر میں ہوتے
ہیں اور میں اپنے شہزادے جیسے آن بان رکھنے والے بیٹے کا رشتہ کہا جوڑ رہی
ہو-
ماہم کی باتیں صفیہ بیگم کے جی کو لگی تھی رشتے والی خالہ کا موڈ آف ہوگیا
تھا- اور وہ پھر کچھ دیر بعد آف موڈ سے واپس چلی گئی لیکن کسی کو اس کے آف
موڈ کا زرا پرواہ نہ تھی جانتی تھیں اگلے صبح سب باتیں بھلا کر پھر آجائی
گی- اصل فکر صفیہ بیگم کو حدیقہ کی فیملی کی تھی کہ انہیں اب کیا کہہ کر
انکار کرے - یہی خدشہ اس نے ماہم سے شیئر کیا- تو ماہم نے اس سے کہا---
آپ فکر نہ کرے امی اس کا حل ہے میرے پاس- اس نے ماں کو دلاسہ دیا-
کیسے فکر نہ کرو وہ تمہارے بابا کے دوست کی بیٹی ہے--
امی آپ فکر نہ کرو ہم انہیں یہ کہہ کر انکار کرے گے کہ ہم نے استخارا کیا
تھا استخارے میں یہی آیا ہے کہ جوڑ مناسب نہیں ہے بس بات ختم----
اور یوں پھر یہ بات ختم ہوئی صفیہ بیگم خوش تھی کہ انکار کا مرحلہ کتنی
آسانی سے طے ہو گیا نہ وہ برے بنے نہ کسی کی دل آزاری ہوئی اور یہی نہیں
آئندہ کے لیے بھی اچھا نسخہ ہاتھ آگیا تھا
×××××××××××
صفیہ بیگم اور اس کی دونوں بیٹیاں غضوان کے لیے ایسی لڑکی ڈھونڈ رہے تھیں
جو ایج میں بیس سے زیادہ نہ ہو پڑھی لکھی، خوبصورت ، اور خوبصورت اتنی کہ
چاند بھی اسے دیکھ کر شرما جائے، دراز قامت ، خوش گفتار ، خوش لباس، اور جو
ماڈرن بھی ہو اور شرمیلی بھی، سلیقہ شعار بھی اور مہمان نواز بھی، اور
خاندان اعلی سے اعلی ہونا چایئے- انہیں فل پیکج چایئے تھا جو ممکن نہ تھا
-- پچھلے دو سالوں سے وہ تینوں ماں بیٹیاں گھر گر جا کر کھا پی کر لڑکیوں
میں نقص نکال کر انہیں ریجکٹ کر کے آجاتے تھیں ، کسی لڑکی کا رنگ انہیں
دبتا ہوا لگتا ، تو کسی کا قد چھوٹا ،کسی کے ہونٹ پتلے ہوتے تو کسی کی ناک
ہڑی ، کسی کے زیادہ بہن بھائیوں پر اعتراض ہوتا تو کسی کے باپ بھائیوں کے
پیشے پر انہیں اعتراض ہوتا اور انکار کرنے کے لیے سب سے یہ کہتے کہ استخارے
میں جوڑ سہی معلوم نہیں ہوا ہے سو یہ کہہ کر جان چھڑائی جاتی تھی---
×××××××××××
اور بلاآخر انہوں نے وہ گوہر نایاب ڈھونڈ نکالا- جس کی تلاش میں وہ پچھلے
دو سالوں سے خوار ہو رہے تھیں -میشال بالکل ویسی تھی جیسی انہوں نے تصور
میں غضوان کی دلہن سوچ رکھی تھی -گلابی رنگت، نیلی آنکھیں ، متناسب سراپا،
خوبصورت آواز اور خاندان بھی بہترین ، میشال کے فادر میجر، بڑا بھائی بزنس
مین ، اور چھوٹا بھائی انجینئر، کوئی کمی نہ تھی اس رشتے میں --- میشال
غضوان کے دوست کی بہن تھی سو کچھ پس وپیش کے بعد میشال کے گھر والوں نے
غضوان کا رشتہ قبول کر لیا-- صفیہ بیگم کے تو خوشی سے قدم زمین پر نہ ٹکتے
تھے من پسند بہو لانے کا خواب جو پورا ہوا تھا--
××××××××××××
بہت دھوم دھام سے غضوان کی شادی کی - ماں بہنوں نے اپنے دل کے سارے ہی
ارمان پورے کیے- میشال کے گھر میں آنے سے وہ ماں بیٹیاں بہت خوش تھی -- مگر
یہ خوشی بہت مختصر مدت کی تھی -- میشال نے ہفتوں مہینوں میں نہیں بلکہ چند
دنوں میں اپنا اصل چہرہ ان لوگوں کو دیکھایا تھا وہ بہت ہی بدتمیز اور ضدی
اور بد سلیقہ لڑکی تھی - ماں باپ کے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بگڑ گئی
تھی صفیہ بیگم سے تو وہ ایسے بات کرتی جیسے وہ اس کی ساس نہیں نوکرانی ہوں
- ماہم اور عدینہ اس کو دیکھ کر بہت کڑھتی مگر بھائی کت ڈر سے کچھ بول نہیں
سکتے تھیں -- غضوان تو شادی کے بعد اتنا طوطا چشم ہوگیا تھا --- کہ بیوی کے
خلاف ایک لفظ سننا بھی اسے پسند نہ تھا - اگر صفیہ بیگم میشال کے بارے میں
اس سے کچھ بولتی تو وہ فورا ناراض ہو جاتا تھا اس سب حالات سے صفیہ بیگم بے
حد دل برداشتہ ہوئی تھی اللہ سے شکوہ کرتی کہ آخر میرے نصیب میں ایسی بہو
کیو ں لکھی تھی -- ایک دن اس کی بہن آئی تو اس کے سامنے رونے لگی تھی میرا
ایک ہی بیٹا اور وہ بھی اس چڑیل کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا-- --
صفیہ آپ کو غضوان کی شادی سے پہلے اسخارا کرنا چائیے تھا نا -- اللہ پاک سے
مشورہ مانگ لیتے تو اچھا ہوتا-
بہن کی بات سے وہ یکدم ساکت رہ گئی تھی -- بیٹے کے شادی کے بعد سے وہ قسمت
کو متواتر دوش دیتے ہوئے یہ بھول گئی تھی کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ قسمت
کی ستم ضریفی نہیں تھی بلکہ قدرت کی طرف سے اس گناہ کی پکڑ تھی جو وہ ہر
لڑکی کو ریجکٹ کرتے وقت کرتی تھی -- استخارے کا بہانہ بنا کر اس نے کتنے
لڑکیوں کو بلاوجہ ریجکٹ کرتھ اور جب میشال پسند آئی اس کو تو پھر اس وقت
کہا کا استخارا کیسا استخارا یہ بھول گئی تھی --- |