آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے چچازاد بھائی ہیں اور آپ کی گود میں پلے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی نبوت سے تقریباً پانچ سال پہلے پیدا ہوئے اور ایک قول کے مطابق دس
سال پہلے۔ مکہ والوں میں قحط سالی آئی، آپ کے چچا ابو طالب کثیر العیال تھے
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ طے
کیا کہ چچا ابو طالب کا بوجھ ہلکا کیا جائے، اور ہر ایک ہم میں سے ابوطالب
کے بیٹوں میں سے ایک ایک کو لے لے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
علی رضی اللہ عنہ کو اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر کو اپنے ساتھ
لے لیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو دیکھا کہ آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے ان دونوں سے پوچھا: یہ کونسا دین ہے
؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دینِ اسلام کے بارے میں بتایا، اور ان کو
اسلام کی دعوت دی، حضرت علی رضی اللہ عنہ چلے گئے، دوسرے دن پھر حاضر ہوئے
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ گھر میں اور پہاڑوں کی وادیوں میں نماز پڑھنے لگے، نیز دوسروں کی
رہنمائی کرتے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ
عنہ کو حکم دیا کہ آپ میرے بستر پر سو جائیں، تاکہ مشرکین کو دھوکہ دے
سکیں، چنانچہ آپ حکم بجالائے اور خطرے کی پرواہ نہیں کی، اور پھر وہ
امانتیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں ان امانت والوں کو
پہنچا دیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ اس کارنامے کی تکمیل تھی
جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں
سرانجام دے رہے تھے اور بڑے خطرات اور عظیم مصائب کا مقابلہ کررہے تھے،
ہجرت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت سہل بن حنیف
رضی اللہ عنہما کے درمیان سیرت نگاروں کے بقول مواخات کا رشتہ قائم فرمایا،
لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے بسند حسن روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخات کا رشتہ
قائم فرمایا، پھر مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ وہ
کام کریں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں، چنانچہ ایک دن حضرت علی
رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبار ک پر بھوک کے
آثار ہیں تو فوراً ایک یہودی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس کی کھیتی کو
کنویں سے پانی دینا شروع کیا اور سترہ ڈول نکالے، اس کے بدلے ان کو سترہ
کھجوریں ملیں۔ وہ لاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس
کام پر آمادہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں! یارسو ل اللہ۔
سنہ دو ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ان کے ساتھ وہ
زاھدانہ زندگی گزاری جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے
لئے پسند فرمائی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور پیار سے ان کا
لقب ” ابوتراب “ رکھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا خاص
مقام تھا، غزوہ خیبر میں جب ایک قلعہ کا فتح ہونا مسلمانوں پر مشکل ہوگیا
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں
گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اوراللہ اور اس کے رسول اس سے
محبت کرتے ہیں، اس موقع پر بڑے بڑے حضرات اس کی خواہش کرنے لگے ہر ایک کی
آرزو تھی کہ اسے یہ فضیلت حاصل ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی
اللہ عنہ کو بلایا: ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، وہ تشریف لائے ، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور دعا فرمائی،
تو وہ اچھے ہوگئے، گویا ان کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا پکڑایا، اللہ نے ان کے ذریعہ وہ قلعہ فتح کردیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے سلف خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے بہت محبت
رکھتے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کے وقت خود بھی ان کا دفاع
کیا اور اپنے صاحبزادوں: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو بھی
دفاع کرنے کا حکم دیا۔اور آپ ان لوگوں پر نکیر فرماتے جو ان کو خلفاء
راشدین پر فضیلت دیتے تھے، اس سلسلے میں بہت سی روایات آئی ہیں، ان میں
مشہور تابعی حضرت علقمہ رحمہ اللہ کی روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ: حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں ایک دن خطبہ دیا، حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مجھے
معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، اگر مجھے اس
سے پہلے اس بات کی خبر ملتی تو میں ایسے لوگوں کو سزا دیتا، لیکن معلومات
سے پہلے سزا دینا پسند نہیں کرتا۔
لہٰذا جس شخص نے بھی آج میرے اس خطبہ کے بعد اس قسم کی گفتگو کی تو وہ
بہتان باندھنے والا شمار ہوگا،اور اسے وہی سزا دی جائے گی جو بہتان باندھنے
والے کو دی جاتی ہے۔ یاد رکھو !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے
افضل ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں رضی اللہ عنہما، ان کے بعد ہم نے ایسے کام کئے
ہیں اللہ جو چاہے گا ان میں فیصلہ کرے گا۔
زید بن وھب روایت کرتے ہیں کہ سُوید بن غَفَلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے
پاس ان کی اِمارت کے زمانے میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : اے امیر المؤمنین!
میر ا ابھی کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزر ہوا ہے جو حضرت ابوبکر اور حضرت
عمر رضی اللہ عنہما کا جومقام و منزلت ہے اس کے خلاف باتیں کررہے تھے ، تو
حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراً اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:
قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑ کر اس سے پورا نکالا ہے اور جس نے
انسان کو پیدا کیا ہے ،ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو اونچا مومن ہوگا اور
ان سے بغض وہی رکھے گا جو بدبخت اور دین سے دور ہونے والا ہوگا، ان دونوں
کی محبت اللہ تعالیٰ کا قرب اور ان دونوں سے بغض دین سے دوری ہے، ان لوگوں
کو کیا ہوگیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بھائیوں، آپ کے دو
وزیروں ، آپ کے دو ساتھیوں ، قریش کے دو سرداروں ، اور مسلمانوں کے دو
باپوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ؟! میں ہر اس شخص سے برأت کا اظہار کرتا
ہوں جو ان دونوں کے حق میں گستاخی کرتا ہے اور اسے سز ابھی دوں گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہتے سنا جب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک غزوہ کے موقع پر اپنا نائب بنایا اور حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یارسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر
اپنا نائب بنارہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے علی ! کیا
تجھے پسند نہیں کہ تو میر ا ایسا نائب ہو جیسا کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے
نائب تھے (جب وہ کوہِ طور پر تشریف لے گئے ) ہاں اتنی بات ہے کہ میرے بعد
نبوت نہیں ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے
مجھے خود فرمایا ہے، تجھ سے وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا، اور تجھ سے وہی
بغض رکھے گا جو منافق ہوگا۔
اہل سنت والجماعة کا یہی عقیدہ ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت سے
محبت کرنا، ان کے لے دعا کرنا ،نمازوں میں ، ذکر کی مجالس میں، تنہائیوں
میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل بیت پر صلاة و سلام بھیج
کر برکت اور خیرطلب کرنا۔ رضوان الله علیہم اجمعین وعلی أصحاب رسول الله
صلی الله علیہ وسلم أجمعین․
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73,
شمارہ 9 |