الحمدللّٰہ وسلام علٰی عبادہ
الذین اصطفیٰ!
بلاشبہ جس طرح انسان کی زندگی میں بعض اوقات غیر معمولی اور غیر متوقع ایسے
حالات، واقعات اور سانحات پیش آتے ہیں کہ جس سے اس کے حواس ماؤف ہوجاتے ہیں،
اس کے سوچنے، سمجھنے اور بولنے کی قوت سلب ہوجاتی ہے، وہ گم صم ہوجاتا ہے
اور اپنے اندر دکھ، درد، تکلیف اور اذیت کے اظہار و بیان کی طاقت نہیں
رکھتا، ٹھیک اسی طرح بعض اوقات دین و مذہب کے خلاف کی جانے والی سازشوں،
ریشہ دوانیوں، فتنہ سامانیوں، فتنہ پردازیوں اور فتنہ پروروں کی طرف سے
پیدا کردہ صورت حال سے انسان ایسا بے حال ہوجاتا ہے کہ اس کو کچھ سجھائی
نہیں دیتا کہ وہ کیا کرے اور کرے تو کیسے کرے؟جبکہ دنیا کے تمام مذاہب
تقریباً اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن کریم، کلام الٰہی ہے، جسے اللہ تعالیٰ
نے انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی اور بھلائی و خیر خواہی کے لئے حضرت
جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
پر رمضان جیسے مبارک مہینے اور شب قدر جیسی عظمت والی رات میں نازل فرمایا
اور جس کی حقانیت و صداقت کے لئے رب ذوالجلال نے فرمایا:
”ذٰلک الکتاب لاریب فیہ، ہدًی للمتقین۔“ (البقرہ: ۲)
ترجمہ: ”اس کتاب میں کچھ شک نہیں، راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو۔“
اور فرمایا:
”ان ہٰذا القرآن یہدی للَّتی ہی اقوم، ویبشر المؤمنین الذین یعملون
الصالحات ۔“ (بنی اسرائیل: ۹)
ترجمہ: ”یہ قرآن بتلاتا ہے وہ راہ جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے
ایمان والوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے۔“
اور اس کی عظمت یوں بتلائی گئی:
”لو انزلنا ہٰذا القرآن علیٰ جبل لرأیتہ خاشعاً متصدعاً من خشیة اللّٰہ۔“ (الحشر:
۲۱)
ترجمہ: ”اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تو دیکھ لیتا کہ وہ دب جاتا،
پھٹ جاتا اللہ کے ڈر سے۔“
قرآن کریم کے نزول کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا:
”وانزلنا الیک الذکر لتبیین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون۔“ (النحل:
۴۴)
ترجمہ: ”اور اتاری ہم نے تجھ پر یہ یادداشت کہ کھول دے لوگوں کے سامنے وہ
چیز جو اتری ان کے واسطے تاکہ وہ غور کریں۔“
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”واوحی الیَّ ہٰذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ۔‘ ‘ (الانعام:۱۹)
ترجمہ: ”اور اترا مجھ پر یہ قرآن تاکہ تم کو اس سے خبردار کردوں اور جس کو
یہ پہنچے۔“
جب کوئی سورة قرآن نازل ہوتی تو منافقین آپس میں ایک دوسرے سے یا بعض سادہ
دل مسلمانوں سے ازراہ استہزأ و تمسخر کہتے کہ کیوں صاحب تم میں سے کس کس کا
ایمان اس سورة نے بڑھایا؟ حق تعالیٰ شانہ نے جواب دیا:
”فاما الذین آمنوا فزادتہم ایماناً وہم یستبشرون۔“ (التوبہ: ۱۲۴)
ترجمہ: ”سو جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کا زیادہ کردیا اس سورة نے ایمان وہ
خوش وقت ہوتے ہیں۔“
جنات نے جب قرآن کریم سنا تو اس پر ایمان لائے بغیر نہ رہ سکے اور جاکر
اپنی قوم سے کہنے لگے:
”یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیہ یہدی الی
الحق والی طریق مستقیم۔ یاقومنا اجیبوا داعی اللّٰہ وآمنوا بہ یغفرلکم من
ذنوبکم ویجرکم من عذاب الیم۔“ (محمد:۳۱)
ترجمہ: ”اے قوم ہماری! ہم نے سنی ایک کتاب جو اتری ہے موسیٰ کے بعد سچا
کرنے والی سب اگلی کتابوں کو، سجھاتی ہے سچا دین اور ایک راہ سیدھی۔ اے قوم
ہماری! مانو اللہ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو کچھ
تمہارے گناہ اور بچا دے تم کو ایک عذاب درد ناک سے۔“
وہ اہل ایمان جن کے قلوب مزکی، مصفی، مطہر اور پاکیزہ تھے، قرآن کریم سنتے
وقت ان کی حالت کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا :
”واذا سمعوا ما انزل الی الرسول ترٰی اعینہم تفیض من الدمع مما عرفوا من
الحق، یقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاہدین، وما لنا لانومن باللّٰہ وما
جاء نا من الحق ونطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصالحین۔“ (المائدہ: ۸۳،۸۴)
ترجمہ: ”اور جب سنتے ہیں اس کو جو اترا رسول پر تو دیکھے تو ان کی آنکھوں
کو کہ ابلتی ہیں آنسوؤں سے، اس وجہ سے کہ انہوں نے پہچان لیا حق بات کو،
کہتے ہیں: اے رب ہمارے! ہم ایمان لائے سو تو لکھ ہم کو ماننے والوں کے
ساتھ۔ اور ہم کو کیا ہوا کہ یقین نہ لاویں اللہ اور اس چیز پر جو پہنچی ہم
کو حق سے اور توقع رکھیں اس کی کہ داخل کرے ہم کو رب ہمارا ساتھ نیک بختوں
کے۔“
اس کے برخلاف کافر و مشرک جن کی قسمت میں ازلی بدبختی مقدر تھی، ان کا
گھٹیا اور گھناؤنا کردار یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ساحر،
کبھی شاعر، کبھی کاہن اور کبھی مجنون جیسے بے ہودہ اور بُرے القابات سے
نوازتے اور کبھی اپنی قوم سے کہتے:
”لا تسمعوا لہٰذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون۔“ (حم السجدہ: ۲۶)
ترجمہ: ”مت کان دھرو اس قرآن کے سننے کو اور بک بک کرو اس کے پڑھنے میں
شاید تم غالب ہو۔“
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح میں لکھتے
ہیں:
”چونکہ قرآن کریم کی آواز بجلی کی طرح سننے والوں کے دلوں میں اثر کرتی تھی
جو سنتا، فریفتہ ہوجاتا، اس سے روکنے کی تدبیر کفار نے یہ نکالی کہ جب قرآن
پڑھا جائے، ادھر کان مت دھرو اور اس قدر شور وغل مچاؤ کہ دوسرے بھی نہ سن
سکیں، اس طرح ہماری بک بک سے قرآن کریم کی آواز دب جائے گی۔ آج بھی جاہلوں
کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں کہ کام کی بات کو شور مچا کر سننے نہ
دیا جائے، لیکن صداقت کی کڑک، مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے کہاں
مغلوب ہوسکتی ہے؟ ان سب تدبیروں کے باوجود حق کی آواز قلوب کی گہرائیوں تک
پہنچ کر رہتی ہے۔“
ایسے بدباطن اور کوڑھ مغز اور آخرت کے منکر کفار کے سامنے قرآن کریم کی
آیات کی تلاوت کی جاتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے اور
کہتے:
”ائت بقرآن غیر ہذا اوبدلہ۔“ (یونس:۱۵)
ترجمہ: ”لے آ کوئی قرآن اس کے سوا یا اس کو بدل ڈال۔“
اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا:
”قل مایکون لی ان ابدلہ من تلقایٴ نفسی ان اتبع الا مایوحیٰ الی انی اخاف
ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم۔ قل لو شاء اللّٰہ ماتلوتہ علیکم ولا ادرٰکم بہ
فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون۔“ ( یونس:۱۵،۱۶)
ترجمہ: ”تو کہہ دے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) میرا کام نہیں کہ اس کو
بدل ڈالوں اپنی طرف سے، میں تابعداری کرتا ہوں اس کی جو حکم آئے میری طرف،
میں ڈرتا ہوں اگر نافرمانی کروں اپنے رب کی بڑے دن کے عذاب سے، کہہ دے (اے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اگر اللہ چاہتا تو میں نہ پڑھتا اس کو تمہارے
سامنے اور نہ وہ تم کو خبر کرتا اس کی، کیونکہ میں رہ چکا ہوں تم میں ایک
عمر اس سے پہلے، کیا تم پھر نہیں سوچتے۔“
قرآن کریم کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے کفار کو اللہ تعالیٰ نے یوں جواب
دیا:
”افلا یتدبرون القرآن، ولوکان من عند غیر اللّٰہ لوجدوا فیہ اختلافاً
کثیراً۔“ (النساء:۸۲)
ترجمہ: ”کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر یہ ہوتا کسی اور کا سوائے اللہ
کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔ “
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کے وقت کفار و منافقین کی حالت یوں بیان
کی:
”واما الذین فی قلوبہم مرض فزادتہم رجساً الیٰ رجسہم وماتوا وہم کافرون۔“
(التوبہ :۱۲۴)
ترجمہ: ”اور جن کے دل میں مرض ہے سو ان کے لئے بڑھادی گندگی پر گندگی اور
وہ مرنے تک کافر ہی رہے۔“
خلاصہ یہ کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان اور اہل کفر کے مابین
قرآنِ کریم کے معاملہ میں ہر ایک کا نقطہ نظر اور فکر وسوچ کا تذکرہ کیا
ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ کتاب:کلام الٰہی،لاریب، ہادی وراہنما،اوامر و
نواہی سے بھر پور،ایمان میں قوَّت واضافہ کا باعث اور دنیا و آخرت کی
سعادتوں اور کامرانیوں سے مالامال کرنے والی کتاب ہے۔اس کے برعکس
کفارمکہ،مشرکین،یہود بے بہبود اور عیسائی نزول قرآن کے وقت سے قرآن کے
مخالف،اپنی قوم کو اس سے بدظن اور دور رکھنے کے شیطانی منصوبے بنانے والے،
قرآن کریم کو مٹانے اور اس میں تحریف کے مطالبے کرنے والے جو آج تک انہیں
شیطانی چالوں،دسیسہ کاریوں اور فتنہ پردازیوں پر عمل پیرا ہیں۔
۱۱/ ستمبر ۲۰۰۱ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر خود ساختہ دہشت گردی اور حملے کے
بعد اسلام دشمن قوتوں کے سربراہ، دہشت گردی کے سرپرست، افغانستان کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کی کوشش کرنے والے اور پاکستانی آبادیوں پر ڈرون حملے کرنے
والے امریکا ”بہادر“ اور اس کے اتحادیوں کی آنکھوں میں دین، دینی اقدار،
اسلام اور مسلمان ہمیشہ سے کھٹکتے رہے ہیں اور یہ بات اب اظہر من الشمس
ہوچکی ہے کہ اسلام، پیغمبر اسلام، قرآن، مسلمانوں اور ان کی مقدس شخصیات کی
توہین و تنقیص اور تحقیر و تذلیل ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، صرف یہی
نہیں بلکہ پورا مغرب، مغربی دنیا، امریکا، اس کے اتحادیوں اور دنیا بھر کے
عیسائی، یہودی کم از کم اس نقطے پر متحد و متفق نظر آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو کبھی دہشت گرد، تنگ نظر،
تاریک خیال اور جاہل جیسے ”خوبصورت“ القابات سے نوازا اور کبھی ان درس
گاہوں کو جن میں قرآن و سنت اور دین و ملت کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کو دہشت
گردی کے اڈے، تشددگاہیں،اور عصبیت و فرقہ واریت کی تربیت گاہیں قرار دیا۔
یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان اپنے دین و مذہب
سے نہیں ہٹ سکتا، قرآن و سنت کی محبت اس کے دل سے نہیں نکل سکتی، ان کا
رشتہ اپنے نبی سے نہیں ٹوٹ سکتا تو انہوں نے مسلمانوں کو تڑپانے، ان کے
قلوب کو چھلنی کرنے اور انہیں ذہنی و قلبی اذیت میں مبتلا کرنے کی غرض سے
فیس بک پر ہمارے نبی و آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین
آمیز خاکے بنانے کی مہم شروع کرکے دنیا بھر کے مخلص مسلمانوں کے قلوب کو
مجروح و مغموم کرنے کی ناپاک و نارواجسارت کی اور اب ایک بار پھر انہیں
ملعونوں اور شیطانوں کی شہ پر امریکا کے ایک غلیظ، متعفن اور بدبودار پادری
ٹیری جونز نے فیس بک پر ۱۱/ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی برسی کے موقع پر
قرآن کریم جلانے کا اعلان کیا اور امریکی عوام کو بھی اس مذموم عمل میں
شریک ہونے کی دعوت دی۔
امریکی عوام اور دنیا بھر کے عیسائیوں کو ٹھنڈے دل و دماغ اور تدبر سے کام
لیتے ہوئے اس بات پر غوروفکر کرنا ہوگا کہ کہیں ان کے پادری اور چرچ کے ذمہ
داران اپنے سیاہ کرتوتوں جو آئے دن شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتے
رہتے ہیں، ان پر پردہ ڈالنے اور اپنی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے اس قسم کے
اوچھے ہتھکنڈے تو استعمال نہیں کررہے؟ کیا عیسائی قوم نے ان کی یہی مذہبی
ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو آگ میں ڈالنے کے غلیظ
اور ناپاک منصوبے بنائیں۔اس پادری کی تعصب، تنگ نظری،تاریک خیالی اور عناد
سے اٹی ہوئی خبر ملاحظہ ہو:”کراچی (رپورٹ: محمد وسیم عباس) بدنام زمانہ ویب
سائٹ فیس بک نے ایک مرتبہ پھر اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے گستاخانہ خاکے
شائع کرنے کے ساتھ قرآن جلاؤ مہم شروع کردی۔ پی ٹی اے اور وفاقی حکومت نے
فیس بک میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر آگاہ کرنے کے باوجود تاحال
کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی۔ فیس بک پر دوبارہ خاکے شائع کرنے اور
قرآن جلانے کی دعوت پر مسلمانوں میں گہری تشویش اور شدید غم و غصہ پایا
جاتا ہے۔ سماجی ویب سائٹ فیس بک نے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے
ایک مرتبہ پھر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور قرآن جلاؤ مہم شروع کردی۔ فیس
بک میں "Everybody Burn Quran Day"کے نام سے پیج بنایا گیا ہے، جس میں قرآن
کو جلائے جانے کی توہین آمیز تصاویر اور خاکے رکھے گئے ہیں اور فیس بک
استعمال کرنے والوں کو قرآن جلانے کی مہم میں شریک ہونے کی ترغیب دی گئی
ہے۔ فیس بک پر مذکورہ پیج بنانے والے نے اسلام اور قرآن کے خلاف لکھا ہے
کہ: ”مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام امن اور آزادی کا مذہب ہے جو حقیقت میں
منافقت ہے، جب تک یہ منافقت جاری رہے گی، قرآن جلانے کا سلسلہ بھی جاری رہے
گا، میں بھی لاتعداد مرتبہ ایسا کروں گا، میں آپ کو ہمت دلاتا ہوں کہ آپ
بھی قرآن کو ہر کونے پر آگ لگائیں اور اس کی باقیات کو شہر میں چھوڑدیں، یہ
مہم ہر دن خودبخود لوگوں میں پھیل جائے گی۔ میں قرآن کو آگ لگاتے ہوئے
ملاؤں کو جو منافقت میں رہ رہے ہیں یہ پیغام دے رہا ہوں کہ قرآن کے ساتھ
ایسا ہی کرنا چاہیے جیسا میں کررہا ہوں۔ میں آپ کو بھی اس مہم میں شامل
ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔“لاہور ہائی کورٹ نے ۱۹/ مئی کو پاکستان میں فیس بک
پر ۳۱ مئی تک پابندی لگائی تھی جس پر پی ٹی اے اور وفاقی حکومت نے لاہور
ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے مذکورہ ویب سائٹ بند کردی تھی،
تاہم پابندی عائد کرتے وقت انہوں نے عدالت کو بتایا کہ فیس بک حکام نے
حکومت پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ فیس بک پر ایسی مذموم حرکت
نہیں کی جائے گی، اس پر لاہور ہائی کورٹ نے ۳۱/ مئی سے دوبارہ اس شرط پر
فیس بک کھولنے کی اجازت دی کہ اگر گستاخانہ خاکوں جیسی کوئی حرکت پھر کی
گئی تو فیس بک پر دوبارہ پابندی عائد کردی جائے گی، تاہم فیس بک پر دوبارہ
سے خاکوں کی اشاعت اور قرآن مجید کی توہین کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور
فیس بک کے حکام کی جانب سے خاکے بنانے اور قرآن مجید کی توہین کی کھلی چھٹی
دی گئی ہے۔ پی ٹی اے حکام کو فیس بک کے مذکورہ مذموم اقدام کی ۳ دن قبل
اطلاع دی گئی تھی، لیکن تاحال اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور
فیس بک پر مسلسل مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوامی
حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فیس بک پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی ذمہ
دار پی ٹی اے ہے۔ پی ٹی اے نے صرف وائرس کی بنا پر ملک میں کئی ویب سائٹ پر
پابندی لگاکر انہیں بلاک کیا ہے لیکن توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والی فیس
بک کو بند نہیں کیا جو معنی خیز ہے۔ پی ٹی اے ملک میں انٹرنیٹ سروس فراہم
کرنے کے لئے مختلف کمپنیوں اور اداروں کو لائسنس جاری کرتا ہے۔ پاکستان کے
آئین کے آر ٹیکل ٹو اے کے تحت ملک میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جاسکتا جو
اسلام کے اصولوں کی نفی کرے جب کہ فیس بک توہین رسالت جیسے بڑے اور سنگین
جرم کا ارتکاب کررہی ہے اور حکومتی ادارے مکمل طور پر خاموش ہیں۔“ (روزنامہ
اسلام کراچی، ۲۷/ جولائی ۲۰۱۰ء)
محسوس یوں ہوتا ہے کہ پی ٹی اے اور وفاقی حکومت میں کچھ دین دشمن کالی
بھیڑیں گھس گئی ہیں، جن پر مادیت کا اتنا اثر اور غلبہ ہوچکا ہے کہ وہ اب
سوچنے، سمجھنے اور قوت فیصلہ کی خداداد صلاحیت سے بیگانہ اور نا آشنا ہوچکی
ہیں،جس کی بنا پر انہیں توہین رسالت اور قرآن کریم کی بے حرمتی جیسے مذموم
اقدامات نظر نہیں آتے ۔ پاکستانی عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں اوراس پر
وہ حق بجانب ہیں کہ کیا ان کا اللہ، رسول، قرآن کریم اور یوم ِ آخرت پر
ایمان نہیں، کیا انہیں اللہ، رسول اور قرآن کریم سے محبت نہیں؟ اگر ان کا
ان چیزوں پر ایمان ہے اور ان سے محبت ہے تو انہیں سوچ لینا چاہیے کہ اگر کل
قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے پوچھ لیا اور ان سے یہ سوال
کرلیا کہ میرے نام پر بننے والے ملک میں تمہیں بڑے بڑے عہدے اور منصب ملے،
بااختیار ہونے کے باوجود تم نے میرے نبی کی توہین و تنقیص اور میرے کلام کی
بے حرمتی کیسے برداشت کرلی تو ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟
پاکستانی عوام کی اکثریت کا اپنی عدالت سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ لاہور ہائی
کورٹ نے جب یہ کہہ کر فیس بک کھولنے کی اجازت دی تھی کہ” اگر گستاخانہ
خاکوں جیسی کوئی حرکت پھر کی گئی تو فیس بک پر دوبارہ پابندی عائد کردی
جائے گی۔“ اب عدالت کو چاہیے کہ فیس بک پر جب دوبارہ سے خاکوں کی اشاعت اور
قرآن کریم کی توہین کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے تو اس پر فوراً پابندی
لگانے کا حکم نامہ جاری کرے۔
بلاشبہ حقیقت اور انصاف پسند دنیا پر اب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ اسلام،
پیغمبر اسلام ، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف بھوکنے والا کوئی بھی خبیث
النفس، بدفطرت، ملعون اور موذی کہیں اور کسی ملک میں بھی رہتا ہو، امریکا
اور مغربی دنیا ہمیشہ اس کی سرپرستی، تائید اور ہر طرح کا اعتماد و تعاون
مہیا کرتی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا میں بیٹھنے والے اس ملعون پادری کو
اتنی جرأت ہوگئی کہ وہ کلام اللہ کی توہین کرے اور جلانے کے منصوبے بنائے۔
فیس بک پر دوبارہ خاکے شائع کرنے اور قرآن کریم جلانے کی مذموم مہم کے بارہ
میں پاکستان بھر میں دینی، مذہبی، سیاسی اور سماجی جماعتوں اور مسلم عوام
میں گہری تشویش اور شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ
پاکستان، جمعیت علماء اسلام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جماعت اسلامی،
جماعت الدعوة، اہل سنت والجماعت، سنی وحدت کونسل، سنی رہبر کونسل، تنظیم
اسلامی، مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگرجماعتوں نے اس پر شدیداحتجاج
کیاہے ۔چنانچہ روزنامہ اسلام میں اس سلسلہ کی خبر ملاحظہ ہو: ”کراچی (اسٹاف
رپورٹر) فیس بک پر دوبارہ اسلام دشمنی پر مبنی مواد کی اشاعت سے مغرب کا
اصل چہرہ سامنے آگیا ہے۔ پارلیمنٹ کو دینی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور
فیس بک کی اس گھناؤنی حرکت پر اسپیشل سیشن طلب کرے۔ فیس بک کے خلاف سپریم
کورٹ از خود نوٹس لے اور اس پر مکمل پابندی لگائے۔ مسلمان غیرت ایمانی کا
ثبوت دیتے ہوئے فیس بک کا استعمال بند کردیں۔ فیس بک پر دوبارہ خاکوں کی
اشاعت اور قرآن جلانے کی مہم مسلمانوں کے لئے بہت بڑا المیہ ہے۔ فیس بک پر
پابندی نہ لگائی گئی تو ملک گیر احتجاج کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی ناموس اور قرآن مجید کے تقدس کے لئے جان کی قربانی سے دریغ نہیں
کریں گے۔ مسلمان ہر سطح پر ان کا بائیکاٹ کریں۔ فیس بک کا استعمال ایمان کے
لئے خطرہ ہے۔ توہین رسالت کے اس مذموم اقدام سے مسلمانوں کے جذبات مجروح
ہورہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس العربیہ پاکستان ، جمعیت علماء
اسلام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جماعت اسلامی، جماعة الدعوہ، اہل سنت
والجماعت، سنی وحدت کونسل، سنی رہبر کونسل، تنظیم اسلامی، مسلم اسٹوڈنٹس
آرگنائزیشن و دیگر دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے فیس بک پر دوبارہ گستاخانہ
خاکے شائع کرنے اور قرآن جلاؤ مہم شروع کرنے پر شدید الفاظ میں ردِ عمل کا
اظہار کرتے ہوئے کیا۔ وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف
جالندھری نے کہا کہ فیس بک پر دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنا اور قرآن
جلاؤ مہم انتہائی شرمناک فعل ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اس واقعہ کا از خود
نوٹس لے اور فیس بک پر مکمل طور پر پابندی لگائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں
کو بھی اپنی دینی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ویب سائٹ کا استعمال چھوڑ دینا
چاہئے۔ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر قاری محمد عثمان نے کہا ہے کہ فیس
بک نے دوبارہ اسلام دشمنی پر مبنی مواد کی اشاعت کرکے اپنے حقیقی چہرے کو
واضح کردیا۔ مغرب اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی اشاعت سے ہراساں ہوکر اوچھے
ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔ پی ٹی اے نے اگر فیس بک پر پابندی نہ لگائی تو ملک
گیر احتجاج کریں گے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے مبلغ مولانا قاضی
احسان احمد نے کہا کہ فیس بک کا بھرپور بائیکاٹ کیا جائے گا۔ حکومت بار بار
ٹیسٹ کرنے کے بجائے مستقل طور پر فیس بک پر پابندی لگائے۔ فیس بک کے خلاف
اگر موثر کاروائی نہ کی گئی تو احتجاج کی آخری حد تک جائیں گے۔ جماعت
اسلامی سندھ کے رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ فیس بک بار بار
مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے اور دین کی بنیادوں پر ضرب لگانے کے لئے
کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کبھی قرآن کریم جیسی مقدس کتاب کو
نشانہ بناتا ہے۔ وہ اس دنیا سے ہدایت کے تمام نشانوں کو مٹانا چاہتا ہے۔
اسلام امن و سلامتی کا مذہب اور تاقیامت باقی رہے گا۔ معروف نوجوان مذہبی
اسکالر مولانا سیّد عدنان کاکا خیل نے کہا ہے کہ ویب سائٹس پر ممنوعہ مواد
کی اشاعت کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ان
کی پالیسی کے خلاف کسی ویب سائٹ تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ
فیس بک پر اسلام دشمن مواد کی اشاعت پر او آئی سی نوٹس لے اور اس کے خلاف
مشترکہ پالیسی بنائی جائے۔ جماعة الدعوہ پاکستان کے مرکزی رہنما پروفیسر
حافظ عبدالرحمن مکی نے کہا ہے صلیبی و یہودی بار بار قرآن پاک کی توہین اور
شان رسالت میں گستاخیاں کرکے مسلمانوں کی ایمانی غیرت کو چیک کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ان گستاخیوں (نعوذباللہ) کا عادی بنانا چاہتے
ہیں، اظہار رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس
پہنچائی جائے۔ اہل سنت والجماعت کراچی کے صدر مولانا اورنگزیب فاروقی نے
کہا ہے کہ فیس بک پر اسلام دشمن مواد کی اشاعت بہت بڑا المیہ ہے۔ مسلمانوں
کو متحد ہونا چاہیے۔ سنی رہبر کونسل کے سربراہ اور رؤیت ہلال کمیٹی کے
چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ
وہ پاکستان میں فیس بک کو ممنوع قرار دیں اور پوری دنیا کے مسلمان اس کا
وزٹ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اہل مغرب کو اقتصادی چوٹ نہیں دی جائے
گی، یہ باز نہیں آئیں گے۔ ان سے کسی قسم کی اخلاقی اور انسانی اقدار کی
کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ دینی غیرت کا مظاہرہ
کرے اور فیس بک کے اس مذموم اقدام کے خلاف فوری طور پر اسپیشل سیشن طلب
کرے۔ تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید نے کہا ہے کہ فیس بک کا استعمال
غلط ہے۔ دین کا تقاضا ہے کہ فیس بک کو بند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فیس
بک کا استعمال ایمان کے لئے خطرہ ہے۔“
(روزنامہ اسلام کراچی، ۲۷/جولائی ۲۰۱۰ء)
بہرحال جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس اور قرآن
کریم کے تحفظ کی خاطر کسی بھی درجہ میں آواز اٹھائی ہے، انہوں نے اپنے لئے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور نجات اخروی کا سامان کرلیا ہے اور جو
لوگ اس سے محروم رہے، وہ بہت بڑے خسارے اور نقصان میں رہے، الاِّ یہ کہ وہ
توبہ و استغفار کر کے اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرلیں۔
اگر مسلم حکمران ذاتی اغراض اور مفادات سے بالاتر ہوکر اللہ ، رسول اور
قرآن کریم سے دلی وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں
اور عالمی فورم پر انبیأکرام ، مقدس کتب اور مقدس شخصیات کی عزت وناموس اور
تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں اور اس کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد
کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مادہ پرست قوم مسلمانوں کے سامنے گھٹنے نہ
ٹیک دے۔ بات صرف جرأت و ہمت کی ہے۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73,
شمارہ 9 |