سلسلہ کوہ ہمالیہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو
برصغیر پاک و ہند کو سطح مرتفع تبت سے جدا کرتا ہے۔ بعض اوقات سلسلہ ہمالیہ
میں سطح مرتفع پامیر سے شروع ہونے والے دیگر سلسوں جیسے کہ قراقرم اور
ہندوکش کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا
سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ
ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی
پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا
کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے
باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی
صرف 6,962 میٹر ہے۔دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ ، گنگا ، برہم پتر ،
یانگزی ، میکانگ ، جیحوں ، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ کی برف بوش
بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان ،
بنگلہ دیش ، بھوٹان ، بھارت ، پاکستان ، چین ، نیپال ، برما ، کمبوڈیا ،
تاجکستان ، ازبکستان ، ترکمانستان ، قازقستان ، کرغیزستان ، تھائی لینڈ ،
لاؤس ، ویتنام اور ملائشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی ، یعنی 3 ارب
لوگ ، بستے ہیں۔ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی
اکثر چوٹیاں ہندو مت ، بدھ مت اور سکھ مت میں مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ
کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لیکر مشرق میں
دریائے برہم پترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400
کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے
میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔
یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف
بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب
سے زیادہ ہے، عظیم ہمالیہ یا اندرونی ہمالیہ کہا جاتا ہے۔ہمالیہ میں کم و
بیش 15,000 گلیشیر ہیں جن میں تقریباً 12,000 مکعب کلومیٹر پانی ذخیرہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع 70 کلومیٹر لمبا سیاچن گلیشیر دنیا میں
قطبین سے باہر دوسرا طویل ترین گلیشیر ہے۔ قطبین کے باہر طویل ترین گیشیر
بھی ہمالیہ سے زیادہ دور نہیں، یہ تاجکستان کا فریڈشینکو گلیشیر ہے جس کی
لمبائی 77 کلومیٹر ہے۔ ہمالیہ کے کچھ دوسرے مشہور گلیشیر گنگوتری اور
یمنوتری گیشیر (اتراکھنڈ) ، نوبرا ، بیافو اور بالتورو گلیشیر (قراقرم) ،
زیمو اور کھْمبو گلیشیر (ماؤنٹ ایورسٹ) ہیں-
گرم علاقوں کے قریب واقع ہونے کے باوجود ہمالیہ کے بلند تر علاقے سارا سال
برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان برف پوش چوٹیوں سے بہت سے دریا نکلتے ہیں جو
موسمی دریاؤں کے برعکس سارا سال چلتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دریا برصغیر
پاک و ہند کے دو دریائی نظاموں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجاتے ہیں۔مغربی
دریا سندھ طاس کا حصہ ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے۔ دریائے سندھ
تبت میں دریائے سینگے اور دریائے گار کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے اور بھارت
اور پاکستان سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس کے معاونین میں جہلم ،
چناب ، راوی ، بیاس اور ستلج کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے دریا بھی شامل
ہیں۔ہمالیہ کے دیگر دریاؤں کی اکثریت گنگا برہماپترا طاس میں شامل ہے۔ اس
طاس کے سب سے بڑے دریا گنگا اور برہم پترا ہیں۔ برہماپترا مغربی تبت میں
دریائے یارلنگ تسانگپو کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف سفر کرتا
ہوا تبت اور پھر آسام کی وادیوں سے گزرتا ہے۔ گنگا اور برہماپترا کا ملاپ
بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ دریا دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا[2] بناتا
ہوا خلیج بنگال میں گرتا ہے۔ہمالیہ سے نکلنے والے مشرقی ترین دریا میانمار
کے دریائے آئیروادی سے ملتے ہیں۔ یہ دریا جنوب کی جانب بہتے ہیں اور مشرقی
تبت اور میانمار سے ہوتے ہوئے بحیرہ انڈمان میں گرتے ہیں۔دریائے سالوین ،
میکانگ ، یانگزی اور ہوانگ ہی (دریائے زرد) بھی سطح مرتفع تبت سے نکلتے ہیں
تاہم تبت کے یہ حصے ارضیاتی طور پر کوہ ہمالیہ کا حصہ نہیں اور اس لیے ان
دریاؤں کو ہمالیہ کے دریاؤں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ تاہم کچھ ارضیات دان
ان تمام دریاؤں کو مجموعی طور پر "حلقہ ہمالیہ دریا" کہتے ہیں۔حالیہ سالوں
میں سائنسدانوں نے گلیشیروں کے پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہے۔ اگرچہ
گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات بہت سالوں تک پوری طرح واضع نہیں ہونگے، اس سے
شمالی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ
ہے جو خشک موسم میں اپنے دریاؤں میں ان گیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار
کرتے ہیں۔
جھیلیں :ان پہاڑوں میں سینکڑوں جھیلیں موجود ہیں۔ زیادہ تر جھیلیں 5000
میٹر سے کم بلندی پر واقع ہیں اور بلندی کم ہونے کے ساتھ ساتھ جھیلوں کی
جسامت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی جھیل پنگونگ تسو ہے جو
بھارت اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ 4600 میٹر کی بلندی پر ہے، چوڑائی 8
کلومیٹر اور لمبائی لمبائی لگ بھگ 134 کلومیٹر ہے۔
موسمی اثرات: کوہ ہمالیہ کے برصغیر پاک و ہند اور سطح مرتفع تبت کے موسم پر
انتہائی اہم اثرات ہیں۔ یہ پہاڑ آرکٹک اور سائبیریا سے آنے والی انتہائی
سرد اور خشک ہوا کو برصغیر میں داخل نہیں ہونے دیتے جس کے باعث برصغیر کا
موسم نسبتاً گرم ہے۔ یہ مون سون کی ہواؤں کو بھی مزید شمال کی جانب جانے سے
روکتے ہیں جس کے باعث ترائی کے علاقے میں خوب بارش ہوتی ہے۔ اس بارش کے
باعث ہوا سے تمام نمی خارج ہوجاتی ہے اور جو ہوائیں ہمالیہ کو پار کرکے تبت
تک پہنچتی ہیں، وہ وہاں بارش نہیں برساتیں۔ اسی وجہ سے سائنسدان سلسلہ کوہ
ہمالیہ کو صحرائے ٹکلامکان اور صحرائے گوبی کی تشکیل کا باعث بھی سمجھتے
ہیں۔ہمالیہ میں، جسے کہ اکثر اوقات دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے ہے، قطبین
کے علاوہ سب سے زیادہ گلیشئر پائے جاتے ہیں۔ ایشیا کے دس سب سے بڑے دریا اس
سلسلے یا اس سے ملحقہ علاقوں سے نکلتے ہیں اور لگ بھگ ایک ارب لوگوں کی
زندگی کا دارومدار ان دریاؤں پر ہے۔
|