فیس بک کے دانشور

خدا کے لئے اپنی عقل کو استعمال کرنا سیکھیں اور فیس بک جو تصورات خیا لات ہمارے دماغ میں کسی بھی چیز کے حوالے سے ٹھونس رہا ہے اسکو نہ آںےدیں کیونکہ ہر خیال اس قابل نہیں کہ اسکو دماغ میں بٹھایا جائے۔

ان دانشوروں کی 'اکثر کیا کرتے ہو ' کے سوال پر جو کہ فیس بک ہر ایک سے پوچھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آُپکو اکثر یہ بھی لکھا نظر آسکتا ہے کہ جی فیس بک پر کام کرتے ہیں۔ اور بلا شبہ جو ییہاں پہ دانشور ہوا وہ کہیں اور کا نہ ہوا۔

پاکستان میں دانشور ، بے روزگار اور فیس بک پیج ایڈمن مہنگائی کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان تینوں کو ہی بڑھانے میں کہیں نہ کہیں بیچاری فیس بک کا ہاتھ ضرور ہے۔ جب دل لگا کر پڑھائی نہیں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیس بک پر ہی دل کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے ساتھ لگا رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ظاہر ہے بے روزگاری پیدا ہو گی۔

پھر انسان فیس بک سے ہی دلداری کرے گا جس کے نتیجے میں فیس بک پیج ایڈمن بھی بنے گا۔ انسان ایڈمن ہو مگر دانشوری نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناممکن

دانشور کہنے سے کچھ عرصہ قبل تک تو ذہن میں ایک پچاس ساٹھ کے پیٹے میں موجود انسان کا تصور آتا تھا ۔ جس کے سر کے آدھے بال اڑے ہوئے چندیا چمکتی ہوئی نیم اندھیرے کمرے میں میز پر سامنے کاغزوں کا پلندہ رکھے بیٹھا ہو گا ۔ چائے کے خالی کپ کے کپ سجے ہوں گے۔ ہاتھ میں قلم ہو گا شکل پر غصے اور طنز کے اثرات ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ فیس بک دانشور کہیں تو یقینی بات ہے کہ میز اور کرسی بھی ہو گی نیم اندھیرا کمرا بھی ہوگا۔ قلم اور کاغز کی جگہ کمپیوٹر اور موبائل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ خالی کپوں کی جگہ جنک فوڈ کے خالی ڈبے ہوں گے۔

دانشور جو ہیں وہ رائے بنانے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب چوں کہ زمانہ ترقی بے حد تیزی سے کر رہا ہے سو رائے مزید جلدی بن جاتی ہے اور بدل بھی جاتی ہے۔ فیس بک کے دانشور جو ہیں وہ ہر روز ایک نئی رائے کو اپ ڈیٹ کرنے کے ذمہ وار سمجھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلت تو پھر بھی چوبیس گھنٹے بعد اخبار ملا تو نئے اقوال پڑھے۔ فیس بک کی وجہ سے اب ہر گھنٹے کیا چند منٹ بعد بھی آپ ایک نئے قول سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔

بڑھتے ہوئے اقوال اور بڑھتے ہوئے جنک فوڈ نے معاشرے میں تیزی سے بدہضمی کو جنم دیا ہے۔ جب معدے اور دماغ کی استعداد سے ذیادہ بوجھ اس پر ڈال دیا جائے تو انسان کی قوت ہاضمہ اور جاذبیت غیر متوازن ہی ہوں گی۔

والدین، اساتزہ، خاص طور پر رشتہ دار ، رشتہ داروں میں بھی پھوپھو تو بالخصوص ، بہن بھائی، مامی، سیاستدان، گائیک، امریکہ، افریقہ، بھارت، اتر پردیش، چائنا، کھانا ، کھانے پر چھاپہ مار ٹیمیں ، کیڑے مکوڑے، رشتہ چھانٹنے والی خواتین، سردی، گرمی، رمضان ، سحرو افطار ٹرانسمیشن، گیند بلا، لالہ، کالا، گورا، ماہرہ، شکیرہ، ہیرہ، کھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب کے بارے میں اور مزید لاتعداد اشیائے دنیا کے بارے میں آپکو معلومات اور رائے اس فیس بک کی کتاب کے دانشور دیں گے۔

ایسی ایسی رائے دیں گے کہ آپکو یقینی فرنی نمکین، ماہرہ خان۔۔۔۔شازیہ مری جتنی، چاند اوباما جیسا ، عورت چڑیل اور سیاستدان اسکے سگے بھائی، پانی کا گلاس شہد ، بجلی ہرجائی، گیس کی بے وفائی، مرغ ڈائنو سار ، چھپکلی مگر مچھ ، کوا جیسےحسینہ دکھائی دے سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کی باتوں کے نیچے تو کمنٹس بھی ایسے ایسے اعلا ہوں گے کہ سمجھ بوجھ والا انسان سدھ بدھ کھو بیٹھے اور جس کی سدھ بدھ گم ہو وہی تو ایسی چیزیں پیش کرتا ہے۔

آدمی و عورت پر جتنی بحث و تمحیص ان دانشوروں نے کی ہے اتنی تعداد میں تو ٹوٹل خواتین اس ملک میں نہیں ہوں گی۔ ایک طبقے نے جتنا معصوم دوسرے طبقے نے اسکو اتنا ہی شیطان ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور بات ہے اس قوم کی اپنی چوٹی ختم ہوتی جارہی اور ایڑھی گھستی جارہی ہے۔

فیس بک کے دانشور اگر معاشرے میں نہ ہوتے تو بہت سوں کے پاس ڈسکس کرنے کے لئے یقینی کچھ نہ ہوتا۔ آج جتمی بھی ذہنی ترقی نو عمری میں ہو رہی ہے وہ انھی اور ایسے ہی دونشوروں کے سبب ہو رہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اگر آُپ اس قسم کے دانشوروں کی "دیواروں" کا بھی جائزہ لیں تو یقینی ہے آُکو لگے گا دنیا کی سب سے دکھی رنجیدہ سنجیدہ کبیدہ خاطر مخلوق یہی دانشور ہیں۔

ان دانشوروں کی 'اکثر کیا کرتے ہو ' کے سوال پر جو کہ فیس بک ہر ایک سے پوچھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آُپکو اکثر یہ بھی لکھا نظر آسکتا ہے کہ جی فیس بک پر کام کرتے ہیں۔ اور بلا شبہ جو ییہاں پہ دانشور ہوا وہ کہیں اور کا نہ ہوا۔

غلطیوں کو سنبھالا دنے میں جتنا حصہ ان دانشوروں کے اقوال نے ڈالا ہے کیا کسی اصلی تاریخی دانشور نے ڈالا ہوگا۔ اگر آپ کسی بچے کو دیر سے آنے کی وجہ پوچھیں تو وہ حوالہ دے سکتا ہے کسی فیس بُکی دانشور کے قول کا " دیر آمد ہی اصل میں کسی عظیم شخصیت کی پیدائش کی دلیل ہوتی ہے"

اگر آُپ کسی بچے کے کپڑے بہت چھوٹے یا میلے ہونے پر ٹوک دیں تو اسکے پاس فیس بکی دانشور کا یہ قول ہو گا " لباس کسی انسان کی شخصیت کی جانچ کا پیمانہ نہیں ہو سکتا"

اگر کسی بچی سے کوکنگ کا پوچھ لیں " عورت صرف کچن میں اچھی لگتی ہے اور ایسی سوچ رکھنے والےقبر میں"

اگر آپ کسی سے اتنا میک اپ کرنے کی وجہ پوچھ لیں تو " حسن و خوبصورتی تو کیمرے کے لینز میں چھپی ہے اور اس خوبصورتی کو ابھارنے کے لئے میک اپ کا سہارا چاہئے"

اگر کسی بیگم سے خاوند کا پوچھ لیں تو " خاوند تو وہ بلا ہے جسکا کوئی رد بلا نہیں"

اگر کسی خاوند سے اسکی بیگم کا پوچھ لیں تو " بیگم کی کیا کہیئے اک تکلیف کا سمندر ہے زندگی بھر جھیلنا ہے"

ہر انسان کو اس طرح کی باتیں فیس بک پر پڑھ پڑھ کر اپنی شکل اور حالت ان میں ننظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ذیادہ تر گھنٹے اپنے سرہانے اسکو استعمال کرتے ہوئے ہی گزرتے ہیں۔

خدا کے لئے اپنی عقل کو استعمال کرنا سیکھیں اور فیس بک جو تصورات خیا لات ہمارے دماغ میں کسی بھی چیز کے حوالے سے ٹھونس رہا ہے اسکو نہ آںےدیں کیونکہ ہر خیال اس قابل نہیں کہ اسکو دماغ میں بٹھایا جائے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 272321 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More