آپریشن ضرب قلم کا سرکاری عزم!

اگر وزیر اعظم صاحب،حکومت ،ہماری اسٹیبلشمنٹ ،ملک و عوام کی فکر اور درد میں شمع کی مانند جلتے ہوئے روشنی دینے والے اہل قلم کی پہچان کریں،ان کا اعتراف کریں،ان کی درست بات کو درست تسلیم کریں،بغیرسرکاری تنخواہ اس بے چارے ملک پاکستان کی قدر کرتے ہوئے، اس کی بہتری کی کوشش کرنے والے قلمکاروں کی دانش و بصیرت کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بنائیں تو یقین جانیں ملک کو دہشت گردی ،جنونیت اور اقتصادی بدحالی سے نجات ہی نہیں بلکہ پاکستان کو مضبوط ،مستحکم اور ناقابل چیلنج بنایا جا سکتا ہے۔لیکن اس کے لئے آپ کو ملک میں طبقاتی با لا دستی کے ناقابل چیلنج نظام کی نفی کرنا پڑے گی، ملک کو محض سرکاری تنخواہیں پانے والوں کے برتر مقام کے لئے نہیں بلکہ عوام کے اس مفاد کے لئے کام کرنا پڑے گا جس کے لئے قائد اعظم کی ولولہ انگیز،باکردار قیادت میں شاندار سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے مملکت پاکستان کا وجود عمل میں آیا تھا۔
وزیراعظم محمد نواز شریف نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام چوتھی بین الاقوامی اہل قلم کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ وطن عزیز سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے اسے امن آشتی کا گہوارہ بنائیں گے، اس سلسلہ میں سب سے کلیدی کردار ادیبوں، شاعروں اور اہل علم و دانش کا ہے، آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ساتھ آپریشن ضرب قلم کی بھی اشد ضرورت ہے، ہم زبان و بیان کا سلیقہ بھولتے جا رہے ہیں، ہمارا لب و لہجہ کرخت ہو گیا، دل آزاری کے الفاظ عام ہو گئے، یہ روئیے جو میڈیا کے ایک حصہ کے ذریعے عام ہو رہے ہیں نئی نسل کو متاثر کر رہے ہیں، ادیبوں اور دانشوروں کو اس مسئلہ کی طرف توجہ دینی چاہئے۔وزیراعظم کے مشیرقومی تاریخ وادبی ورثہ عرفان صدیقی نے آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان سے ملاقات میںکہا ہے کہ قو می تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن اور اس کے تحت کام کرنے والے تمام ادارے کشمیرکاز کیلئے ہر طرح سے حاضر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ، ادب اور جغرافیہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے سے بڑا ظلم محکوم انسانوں کے جذبہ آزادی کو شکست نہیں دے سکتا۔ ادیب، شاعر، دانشور اور قلم کار اہل کشمیر اور ان کے حق آزادی کے حصول کی جدوجہد میں ہراول دستہ بن سکتے ہیں۔ عرفان صدیقی نے کہاکہ بہت جلد ضرب قلم اور کشمیر کانفرنس آزاد کشمیر میں منعقد ہو گی۔قومی اہل قلم کانفرنس میں بھی کشمیری قلم کاروں کو نظر انداز کرنے سے تو نہیں لگتا کہ حکومت واقعی کشمیر کاز کے قلمی محاذپر کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے،اگر کشمیر کاز کے نام پر منظور نظر اور سفارشی قلم کاروں کا نمائشی اجتماع مطلوب ہے تو براہ کرم کشمیر کاز پر رحم فرمائیں۔

وہ کوئی سرکاری فارم تھا جس کے مندرجات پڑہتے ہوئے سرکاری اہلکار مجھ سے پوچھ پوچھ کر خانے بھرتا جا رہا تھا۔سرکاری اہلکار پوچھنے لگا''مذہب''،میں نے جواب دیا،اسلام۔پھر سوال ہوا کہ '' فرقہ''؟ میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور فرقہ بندی پر یقین نہیں رکھتا۔سرکاری اہلکارمسکراتے ہوئے کہنے لگا لیکن آپ اسلام کے کس طریقہ کار کے مطابق رہتے ہیں؟میں نے عرض کیا کہ جناب میں فرقہ بندی کو تسلیم نہیں کرتا،اگر کسی فرقے میں محدود ہو جائوں گا تو اس فرقے والا ہی کہلائوں گا،پھر مذہب اسلام کیسا۔لیکن اس تجربہ کار سرکاری اہلکار نے چند چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھ کر میرا فرقہ ''سنی'' درج کر لیا۔میں اس کو کہتا رہا کہ میرا مذہب اسلام ہے،مجھے کسی فرقے میں نہ ڈالو ۔لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور سرکاری کاغذوں میںمیرا مذہب اسلام ہونے کے باوجودمجھے ایک فرقے میں شامل قرار دے دیا۔میں نے اس سرکاری اہلکار سے کہا کہ آپ نے اپنی مرضی سے مجھے ایک فرقے میں ڈال دیا ہے جبکہ میں اسلام میں فرقہ بندی کی تقسیم کا قائل نہیں ۔

حکومت اہل قلم کی اہلیت و بصیرت سے مستفید ہونا چاہتی ہے یا اہل قلم کو ایک ''ٹول'' کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہے؟اگر حکومت ملک و عوام کے درد میں لکھنے والوں کی باتوں پر توجہ دے اور انہی خطوط میں اپنی پالیسیاں تشکیل دے تو ہمارے کافی مسائل حل ہونے کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے۔لیکن یہاں تو اہل قلم کو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے عوام کو اندھیروں میں یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ بہت اچھا کام ہو رہا ہے اور جلدعوام کے بد حالات ،بدل جائیں گے۔زبر دست،شاندار،بے مثال کہنے اور لکھنے والے '' اہل قلم'' ہی سرکاری قبولیت پاتے ہیں اور سرکاری اعزازات سے نوازے جاتے ہیں۔ہماری پالیسیاں جہاد افغانستان کے وقت بھی درست تھیں،اس کے بعد بھی ہم ٹھیک تھے اور آج بھی ہماری پالیسیاں زبر دست اور شاندار ہیں۔قلمکار تو یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ان پالیسیوں پر سول حکومتوں کا اختیار نظر نہیں آتا،ان پالیسیوں پر دانشور قلمکاروں کے اعتراضات کا کون احساس کرسکتا ہے۔اہل قلم تڑپ اٹھتے ہیں کہ جب وہ سول حکومتوں کے اختیارات کو محدود دیکھتے ہیں،شخصی ،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں کو سیاسی جماعتوں کے نام پر کام کرتے دیکھتے ہیں،جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی باتوں سے محض '' بار گینگ'' ہی ہوتے دیکھتے ہیں۔اقتدار و اختیارات کی کشمکش اورسیاسی پراگندگی نے ملک میں یکجہتی کے تقاضوں کو دھول میں چھپا دیا ہے۔

جب خود حکومت،اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہی ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دیا جائے تو فرقہ واریت کی جنونیت کو ختم کرنے کی باتوں کو خود فریبی کی سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔یہاں ایک واقعہ سناتا چلوں کہ تقریبا پندرہ،بیس سال پہلے پاکستان کے ایک بڑے عالم دین امریکہ کے دورے پر گئے۔وائس آف امریکہ نے ان کا ڈیڑھ گھنٹے طویل انٹرویو کیا جو براہ راست ریڈیو سے نشر کیا گیا۔کمپیئر نے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے نہایت سخت سوالات کئے،اس پاکستانی عالم دین نے ان کے ایسے مدلل اور بہترین جوابات دیئے کہ میں انٹرویو سنتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھا کہ آج معلوم ہوا کہ عالم دین کیا ہوتا ہے۔اتفاق کی بات کے تقریبا دو تین ماہ بعدوہی عالم دین پاکستان میں ٹی وی پر انٹرویو دے رہے تھے اور سوالات بھی تقریبا ویسے ہی تھے جو ان سے وائس آف امریکہ نے پوچھے تھے۔مجھے اشتیاق ہوا کہ یہ ان سوالات کے کیا جوابات دیتے ہیں؟ان عالم دین صاحب کے جوابات سن کر میں حیران رہ گیا۔ان عالم دین صاحب نے امریکہ میں تو عقل و شعور کے عالمی معیار کے مطابق بہت ہی اچھے جوابات دیئے تھے لیکن پاکستانی ٹی وی پر اسی طرح کے سوالات کے ایسے جاہلانہ انداز میں جواب دیئے کہ میں حیران ہی نہیں پریشان بھی ہو گیا۔کچھ سوچنے پر سمجھ آیا کہ انہوں نے وہاں امریکہ میں عقل و شعور کے مطابق بات کی کیونکہ عالمی سطح کے عقل و شعور کے ماحول میں پاکستانی سٹائل کی '' دانشمندی '' نہیں چلتی،اسی لئے علمی انداز میں بات کی گئی۔یہاں پاکستان میں وہ فرقے کی بنیاد پر ایک فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں،لہذا یہاں پاکستان میں انہوں نے ویسے ہی جواب دیئے جیسی یہاں کی جہالت سننے کی خواہش رکھتی ہے۔

اگر وزیر اعظم صاحب،حکومت ،ہماری اسٹیبلشمنٹ ،ملک و عوام کی فکر اور درد میں شمع کی مانند جلتے ہوئے روشنی دینے والے اہل قلم کی پہچان کریں،ان کا اعتراف کریں،ان کی درست بات کو درست تسلیم کریں،بغیرسرکاری تنخواہ اس بے چارے ملک پاکستان کی قدر کرتے ہوئے، اس کی بہتری کی کوشش کرنے والے قلمکاروں کی دانش و بصیرت کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بنائیں تو یقین جانیں ملک کو دہشت گردی ،جنونیت اور اقتصادی بدحالی سے نجات ہی نہیں بلکہ پاکستان کو مضبوط ،مستحکم اور ناقابل چیلنج بنایا جا سکتا ہے۔لیکن اس کے لئے آپ کو ملک میں طبقاتی با لا دستی کے ناقابل چیلنج نظام کی نفی کرنا پڑے گی، ملک کو محض سرکاری تنخواہیں پانے والوں کے برتر مقام کے لئے نہیں بلکہ عوام کے اس مفاد کے لئے کام کرنا پڑے گا جس کے لئے قائد اعظم کی ولولہ انگیز،باکردار قیادت میں شاندار سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے مملکت پاکستان کا وجود عمل میں آیا تھا۔لیکن مشکل یہ ہے جناب وزیر اعظم،کہ آپ تو اس کا اختیار ہی نہیں رکھتے اور ناہی یہ اختیارات حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کے لئے آپ حقیقی سیاست کو پروان چڑہانے پر توجہ دیتے نظر آتے ہیں۔یقینا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو محض پروپیگنڈے کے لئے آلہ کار کی طرح من پسند موضوعات پر کام کرنے والے اہل قلم بہت سے مل جائیں گے ،لیکن یہ ملک حقیقی قلمکاروں کی دانش اور بصیرت سے مستفید ہوتے ہوئے بہتری کی راہ اختیار نہ کر سکے گا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699047 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More