لاہور کی فعال ادبی شخصیت۔ خلیل فاروقی ؒ
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
سوشل میڈیا کے ثمرات میں سے ایک بہت ہی اہم
بات یہ ہے کہ معاشرے کی فعال شخصیات سے استفادہ ہونے کا موقع مل جاتا
ہے۔اور روز مرہ کی سرگرمیوں سے آگاہی رہتی ہے اور شخصیات کی معاشرے کے لیے
سود مند ہونے کا بھی احساس دو چند ہوجاتا ہے۔ چند برس قبل مجھے سوشل میڈیا
پر جناب خلیل فاروقی صاحبؒ سے رابطے کا موقع ملا۔ بعد ازاں جب یہ حقیقت
آشکار ہوئی کہ خلیل فاروقیؒ میری مادری فکری انجمن طلبہ ء اسلام سے پتوکی
میں وابستہ رہے ہیں اور انجمن اساتذہ پاکستان سے بھی اِن کی گہری وابستگی
ہے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ انجمن طلبہ ء اسلام لاہور کے رہنماء جناب عامر
اسماعیل اُن کے شاگرد خاص ہیں۔ یوں خلیل فاروقی صاحب سے دُعا سلام سوشل
میڈیا اور ٹیلی فون کے ذریعہ سے ہوتی رہتی۔ جناب خلیل فاروقی صاحب نہایت ہی
مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ لاہور کی فعال ادبی تنظیم ادارۃ لاافکار کے
بانی و چیئرمین تھے۔ اور باقاعدگی سے پاک ٹی ہاوس میں ماہانہ پروگرام کرتے
۔ جس میں لاہور اور دور دراز کے شعراء اکرام ادیب، کالم نویس شرکت فرماتے۔
اِن کے ساتھ ہمارے دیرینہ دوست ممتاز شاعر ادیب جناب اسلم سعیدی بھی تگ و
تاز میں رہتے۔ باقاعدگی سے پروگرام کی اطلاع دیتے۔کچھ عرصہ قبل مجھے کہنے
لگے کہ 9 نومبر یوم اقبالؒ کی چھٹی جو حکومت نے ختم کی ہے درحقیقت یہ فکر ِ
اقبال کو ختم کرنے کی گہناونی سازش ہے۔ اِس حوالے آپ قانونی جنگ لڑیں۔ یوں
جناب فاروقی صاحبؒ کی جانب سے میں نے لاہور ہائی کورٹ میں اقبال ڈے کی چھٹی
کے حوالے سے رٹ دائر کی ۔ جناب فاروقی صاحبؒ نے انتہائی خلوص اور محبت کے
ساتھ اِس رٹ پٹیشن کی تیاری میں اپنا کردار ادا کیا۔یوم اقبالؒ کے حوالے سے
جناب خلیل فاروق صاحب نے الحمرا ادبی بیٹھک میں حال ہی میں ایک بہت ہی
شاندار سیمینار کا انعقاد کیا اور مقررین میں جناب جسٹس نذیر غازی، جناب
علامہ رضا الدین صدیقی جناب پروفیسر احمد رضا اور مجھ ناچیز اشرف عاصمی کو
خصوصی دعوت دی۔پروگرام بہت ہی زیادہ طوالت پکڑ گیا لیکن خلیل فاروق صاحبؒ
انتہائی فعال انداز میں اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے پروگرام کی نگرانی کرتے
رہے۔ اِس سیمینار میں میرے بیٹے حذیفہ نوشاہی نے نعت رسول ﷺ پڑھنے کی سعادت
حاصل کی تھی۔اِس طرح یہ سلسلہ محبت کا چلتا رہا۔ خلیل فاروقیؒ صاحب گردوں
کے عارضے میں گذشتہ دس سے زائد سالوں سے مبتلا تھے ہفتے میں دو مرتبہ اِن
کے ڈیلسیز ہوتے ۔ اور انتہائی صبر اور ہمت کے ساتھ اپنی اِس بیماری کا
مقابلہ کرتے رہے۔ چند ماہ پہلے میو ہسپتال لاہور میں ڈیلسیسز کے لیے آے تھے
تو معروف نوجوان شخصیت جناب ذیشان احمد راجپوت اور مجھے اُن کوملنے جانے کی
سعادت ملی۔ عجیب آزاد مرد تھا۔ ڈیلسیز ہورہے ہیں اورفاروقی ؒصاحب کسی سے
لمبی بات چیت موبائل فون پر کررہے وہ بھی عشق رسول ﷺ کے حوالے سے ہے۔اتنی
باہمت شخصیت میں نے زندگی بھر نہیں دیکھی۔ شعبہ تعلیم سے منسلک تھے۔ اُستاد
تھے۔ اُن کا گھر جو گلبرگ میں واقع ہے وہ ایک صوفی منش فقیر کے ڈیرے کا
منظر پیش کرتا تھا۔ مجھے یہ جان کر شدید حیرانگی ہوئی کہ فاروقی صاحبؒ کی
فیملی اپنے آبائی گھر پتوکی میں رہتے ہیں اور فاروقی صاحبؒ اکیلے مقیم تھے
لیکن وہ اکیلے کہاں تھے اُن کے شاگرد ہر وقت اُن کے ساتھ ہوتے۔ بلکہ اُن کے
کئی شاگر وہیں اُن کے ہاں قیام کرتے۔ مجھے اور ذیشان راجپوت کو وہاں دو
مرتبہ جانے کا موقعہ ملا انتہائی خوش ہوئے اور بڑی خاطر مدارت کی۔کتابوں کے
ڈھیر کو اپنے سرہانے پہ رکھے جناب خلیل فاروقیؒ ہمہ وقت ہوشیار باش
ہوتے۔جناب خلیل فاروقی کا اصل نام غلام احمد تھا اور اپنے قلمی نام خلیل
فاروقیؒ سے پہچانے جاتے۔بیماری کے عالم میں ملازمت کے ساتھ ساتھ فعال ادبی
پروگرام کا نعقاد فرماتے اور اپنی جیب سے سب کچھ خرچ کرتے۔بیماری کے باوجود
پُر عزم رہنا بہت بڑی بات تھی کہ خلیل فاروقیؒ ہمہ وقت علمی ادبی نشستوں
میں تشریف لے جاتے ۔ حال ہی میں کچھ ادبی شخصیات جو کہ حج کی سعادت حاسل
کرکے آئی تھیں اُن کے اعزاز میں پاک ٹی ہاوس میں ایک خصوصی نشست کا جناب
فاروقی صاحب نے اہتمام کیا تھا۔ پروفیسر حضرات نے جس دلنشین انداز میں خانہ
کعبہ اور روضہ رسولﷺ میں حاضری کا حال بیان کیا تھا۔ محفل میں موجود ہر شخص
کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کافی لمبی نشست چلی۔ رشک آرہا تھا کہ فاروقی صاحبؒ
نے کتنے عظیم لوگوں کو ایک ساتھ مدعو کر رکھا ہے۔ اﷲ پاک اپنی نیک بندوں کو
حوصلہ و ہمت عطا فرما دیتا ہے۔
ادب براے ادب کی بجائے ادب برائے عشق رسولﷺ کا عملی نمونہ جناب خلیل فاروقی
ؒ تھے۔ جناب فاروقیؒ کو اﷲ پاک نے جہاں بیماری کے امتحان میں ڈالا تھا وہیں
اﷲ پاک نے اُن کو انتہائی بلند حوصلہ بھی عطا فرمایا تھا۔اﷲ پاک فاروقی
صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماے (آمین) |
|